اتر پردیش کے گورکھپورشہر میں گزشتہ 20 دسمبر کوشہریت قانون اور این آر سی کی مخالفت میں ہوئے مظاہرہ کے دوران پولیس نے سیتاپور کے دو پھیری والے راشد علی اور محمد یاسین کو گرفتار کر لیا تھا۔ 12 دن جیل میں رکھنے کے بعد انہیں ضمانت دی گئی۔
گزشتہ20 دسمبر کو اتر پردیش کے گورکھپورشہر میں شہریت قانون اور این آر سی کی مخالفت میں ہوئے مظاہرہ کے دوران پولیس اورمظاہرین میں جھڑپ کے بعد گرفتار کئے گئے سیتاپور کے
پھیری والےراشد علی اور محمد یاسین31 دسمبر کی شام جیل سے چھوٹ گئے۔ جیل سے چھوٹنے کے بعد دونوں نئے سال کے پہلے دن اپنے گھر پہنچ گئے۔
دونوں کو 12 دن تک جیل میں رہنا پڑا۔ انکے ساتھ کل 23 لوگوں کی سی آر پی سی کی دفعہ107،116، 151 میں گرفتاری ہوئی تھی۔ان میں سے 26 دسمبر کو 10 اور 27 دسمبر کو دوسرےسبھی 13 لوگوں کی ضمانت ہو گئی۔راشداور یاسین کی بھی ضمانت 27 دسمبر کو ہی ہو گئی تھی پھر بھی تصدیق کے نام پر ان کی رہائی روکی گئی تھی۔
راشدعلی(22) سیتاپور ضلع کے مہولی تھانے کے چراغ علی اور محمدیاسین (23)رام کوٹ تھانے کے دھنواپور گاؤں کے رہنے والے ہیں۔سیتاپورپہنچنے کے بعد راشد نے بتایا، ‘ہم اب تک سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ ہمارا قصور کیا تھا، جو ہمیں بری طرح پیٹا گیا اور 12 دن تک جیل میں رکھا گیا۔’
راشد نے بتایا کہ ہم دونوں 2011 سے گورکھپورمیں پھیری لگاکر کپڑے اور چادر بیچنے کا کام کرتے آ رہے ہیں۔ ہم گورکھپور کے اسکرگنج محلے کے اسٹار لاج میں کرایے پر کمرہ لےکر رہتے تھے۔ان کے مطابق ، گرمیوں میں کاٹن کے کپڑے اور سردیوں میں اونی کپڑے بیچتے تھے۔ پانڈے ہاتھا سے تھوک دکانداروں سے کپڑا لےکر گورکھپور کے دیہات کے علاقوں کیمپیرگنج، بھٹ ہٹ، سہجنوا، پی پی گنج وغیر ہ جاکر بیچنے کا کام کرتے تھے۔
راشدکہتے ہیں، ‘معاملے کے دن 20 دسمبر کی صبح ہی میں اور یاسین دیہات میں کپڑا بیچنے نکل گئے تھے۔ وہاں سے شام 5:30 بجے واپس لوٹے۔ ہمیں کچھ پتہ نہیں تھا کہ گورکھپور میں کیا ہوا ہے۔ لوٹے تو دیکھا کہ کافی پولیس والے گھوم رہے ہیں۔ لاج میں آنے کے کچھ دیر بعد میں یاسین کے ساتھ راشن لینے گیا۔ تبھی ایک ساتھ 20-25 پولیس والے آئے اور ہم دونوں کو پکڑ کر لاٹھیوں سے پیٹنے لگے۔’
وہ آگے کہتے ہیں، ‘ہم ان سے کہتے رہے کہ ہم سیتاپور کے پھیری والے ہیں۔ ہمیں گورکھپور میں کیا ہوا ہے، کچھ پتہ نہیں لیکن پولیس والوں نے کچھ نہیں سنا۔ وے گالی دیتے ہوئے بولےسیتاپور سے آکر دنگا کرتے ہو۔ ہمیں مارکر بےدم کر دیا گیا۔ اس کے بعد کوتوالی لے جایا گیا۔ وہاں بھی ہمیں پیٹا گیا۔’
راشد بتاتے ہیں، ‘میرے پاس 8400 اور یاسین کے پاس 12 ہزار روپے تھے۔ ساتھ میں آئی ڈی، اے ٹی ایم کارڈ اور یاسین کے پاس موبائل تھا۔ سب جمع کرا لیا گیا۔ اس کی کوئی رسید بھی نہیں دی گئی۔ رات بھر ہم دونوں کو کوتوالی میں رکھا گیا۔ اگلے دن کھورابار تھانے بھیجا گیا۔ وہاں سے پھر کوتوالی لایا گیا۔ پھر ضلع ہاسپٹل لے جایا گیا۔ وہاں سے پھر کوتوالی لانے کے بعد جیل بھیج دیا گیا۔’
ان کا الزام ہے کہ پولیس کے ذریعے گرفتار کئے جانے کی اطلاع ملنے کے بعد ان کے اہل خانہ ملنے آئے، لیکن انہیں ملنے نہیں دیا گیا۔ گرفتار کر کےجیل بھیجنے کے باوجود یہ نہیں بتایا گیا کہ جرم کیا ہے۔راشدکہتے ہیں، ‘جیل میں بند دوسرے لوگوں سے بات چیت میں پتہ چلا کہ ہمیں 20 دسمبر کو ہوئے مظاہرہ کے معاملے میں پکڑا گیا ہے۔ ہمیں گورکھپور میں تشدد کے بارے میں پتہ ہوتا تو دیہات سے شہر میں نہیں آئے ہوتے۔ وہیں کہیں رک گئے ہوتے۔ پھیری والا ہونا ہی خطا ہو گئی۔’
وہ کہتے ہیں، ‘ہم دونوں غریب گھروں سے ہیں اور شادی شدہ ہیں۔ جیل سے چھوٹنے کے بعد ہم سیدھے گاؤں چلے آئے۔ گھر والے بہت پریشان تھے۔ ہم بہت ڈرے ہوئے ہیں۔ ڈر کی وجہ سے کوتوالی میں جمع پیسے، اے ٹی ایم کارڈ اور موبائل لینے بھی نہیں گئے۔’راشد نے بتایا کہ گورکھپورمیں ہماری کل جمع پونجی کوتوالی میں جمع ہے۔ دیہات علاقے میں کئی جگہوں پر ادھاری پھنسی ہوئی ہے۔ ہمیں گورکھپورجانے میں ڈر لگ رہا ہے لیکن زندگی چلانی ہے تو جانا ہی پڑےگا۔ اگر گورکھپور میں کام نہیں کر پائے تو کہیں دوسرے جگہ جاکر کام کریں گے۔
(مضمون نگار گورکھپورنیوزلائن ویب سائٹ کے مدیرہیں۔)