رویش کا بلاگ: جس وقت رپورٹنگ کی ضرورت ہے، جاکر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ فیلڈ میں پولیس کس طرح کا تشدد کر رہی ہے، پولیس کی باتوں میں کتنی سچائی ہے، اس وقت میڈیا اپنے اسٹوڈیو میں بند ہے۔ وہ صرف پولیس کی باتوں کو چلا رہا ہے، اس کوسچ مان لے رہا ہے۔
‘اگرمیڈیا نہیں دکھائےگا تو ہمیں ہی پورے ہندوستان کو دکھانا ہوگا۔ اس کو وائرل کرو۔ ‘اس طرح کے پیغامات والے جانے کتنے ویڈیو دیکھ چکا ہوں جس میں پولیس لوگوں کی جائیداد کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ دکانیں توڑ رہی ہے۔ کار اوربائیک توڑ رہی ہے۔گھروں میں گھسکر مارنے اور گلیوں میں گھسکر مارنے کےبہت سارے ویڈیو وائرل ہیں۔ ان کو دیکھکر آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ میڈیا کےنہیں ہونے سے لوگوں میں کتنی بےچینی پھیلی ہوئی ہے۔ جبکہ میڈیا کا کام ہے کہ وہ تمام اطلاعات کو ویری فائی کرکے لوگوں کو بتا دے، مگر جن جگہوں سے یہ ویڈیو آ رہے ہیں ان کی کہیں کوئی رپورٹنگ نہیں ہے۔
یہ میڈیا بریک ڈاؤن ہے۔ آپ نے لا اینڈ آرڈر بریک ڈاؤن سناہوگا۔ ہندوستان میں لا اینڈ آرڈر جتنا بریک ڈاؤن کر جائے، میڈیا بریک ڈاؤن کبھی نہیں کرتا تھا۔صحافی، ویڈیوگرافر اور فوٹوگرافر تینوں ایسے مورچوں پرہوتے تھے اور ان کے ذریعے بھیجی گئی خبریں کہیں نہ کہیں دکھائی جاتی تھیں اورچھاپی جاتی تھیں۔یہ تینوں اب بھی ان تشدد آمیز جھڑپوں کے درمیان ہیں لیکن ان کی خبر کہیں نہیں ہے۔ لوگوں کو اب دکھنے لگا ہے کہ میڈیا وہاں نہیں ہے جہاں ان کے گھروں میں پولیس گھسکر مار رہی ہے تو وہ خود سے ریکارڈ کرنے لگے ہیں۔
گلیوں میں چھپکر پولیس کے تشدد کے بہت سارے ویڈیوریکارڈ کئے گئے ہیں۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ ویڈیو میڈیا کے پاس جانا چاہیے اورپھر وہ اس صحافی سے لےکر اس صحافی تک ویڈیو بھیجتے رہ جاتے ہیں۔بھیجتے-بھیجتے آپس میں بھیجنے لگتے ہیں۔ ایک طرح کا سرکل بن جاتا ہے، جس کا باہری دنیا سے رابطہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اس صورت حال کو میڈیا بریک ڈاؤن کہا جانا چاہیے۔میڈیا بریک ڈاؤن کی کچھ علامات ہیں۔ میڈیا بریک ڈاؤن عوام اور میڈیا کے درمیان ہی نہیں ہوا ہے، میڈیا کے اندر بھی ہوا ہے۔ صحافی اور اس کےنیٹ ورک کے درمیان بھی ہوا ہے۔
ہر ویڈیو کسی نہ کسی صحافی کے پاس پہنچ رہا ہے لیکن وہاں اس کو دیوار ملتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے اور پھر ڈی لیٹ کر دیتا ہے۔اپنے چینل یا اخبار کے وہاٹس ایپ گروپ میں ڈالتا ہے لیکن وہاں بھی کوئی جواب نہیں آتا ہے۔ رپورٹر کنارہ کر لیتے ہیں۔ مجبور ہوکر کچھ صحافی اپنے انسٹاگرام پر ڈال رہے ہیں یا پھر ٹوئٹر پر پوسٹ کر رہے ہیں۔لیکن اس ویڈیو کو ان کی نیوز چینل یا اخبار اپنے ٹوئٹرہینڈل یا انسٹاگرام سے پوسٹ نہیں کرتا ہے۔ نہ ہی ویری فائی کرکے اس کی خبر چلاتا ہے۔جبکہ صحافی اور نیوز چینل دونوں ایک دوسرے کو فالو کرتے ہیں۔
لوگوں نے نیوز چینلوں کے ٹوئٹر ہینڈل پر بھی ایسے بہت سارے ویڈیو پوسٹ کئے ہیں مگر کوئی کچھ نہیں کر رہا ہے۔ میڈیا بریک ڈاؤن کی حالت میں لوگوں پر خاص قسم کانفسیاتی دباؤ بنتا ہے۔ ان کا خدشہ اور گہرا ہو جاتا ہے۔سنیچر کو یوپی کے مظفرنگر، لکھنؤ اور بہار کے پھلواری شریف اور اورنگ آباد سے کئی ویڈیو آئے۔ لوگ پولیس کو گھروں اور گلیوں میں گھستےہوئے گولیاں چلاتے ہوئے دیکھ کردہشت زدہ ہوئے جا رہے ہیں۔
حکومت سن نہیں رہی ہے۔ پولیس پر بھروسہ نہیں ہے۔ جب لوگوں کو میڈیا سے جواب نہیں ملتا ہے تو وہ رشتہ داروں سے لےکر دوستوں کے سرکل میں ویڈیواور اطلاع کو گھمانے لگتے ہیں۔ رات-رات بھر جاگنے لگتے ہیں، طرح طرح کے خدشات سےگھر جاتے ہیں۔مظفرنگر اور دہلی کے دریاگنج کو لےکر اچانک رات میں کئی لوگ پیغام بھیجنے لگے کہ ہمیں وکیلوں کی ضرورت ہے۔ وکیلوں کا گروپ اپنے نمبر کے ساتھ پیغام بھیجنے لگتا ہے کہ جس کو بھی مدد چاہیے وہ ہم سے رابطہ کرے۔
کورٹ میں بھی ایک طرح سے بھروسہ کا بریک ڈاؤن ہو گیا ہے۔کہیں کہیں وکیلوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ایک پیغام میں یہ ہے کہ دہلی سے کسی نامہ نگار کو بھیجکرمظفرنگر کے گھروں کی حالت کور کرائیں، تو کوئی چاہتا ہے کہ نامہ نگار لکھنؤ کےگھروں میں جائے۔ مگر کوئی نہیں جا رہا ہے۔ میڈیا بریک ڈاؤن ہو چکا ہے۔نیوز چینل کیا کر رہے ہیں؟ اس میں میں کسی بھی چینل کواستثنیٰ نہیں مانتا۔ سب ایک ہی طرح کے کام کر رہے ہیں۔ ڈبیٹ کر رہے ہیں۔
جس وقت رپورٹنگ کی ضرورت ہے، جاکر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ فیلڈ میں پولیس کس طرح کے تشدد کر رہی ہے، پولیس کی باتوں میں کتنی سچائی ہے، اس وقت میڈیا اپنے اسٹوڈیو میں بند ہے۔ وہ صرف پولیس کی باتوں کو چلا رہا ہے۔ اس کوسچ مان لے رہا ہے۔عوام نے جس میڈیا کو اپنا بھروسہ، وقت اور مہینے کا ہزارپانچ سو دےکر کھڑا کیا وہ میڈیا ان کو چھوڑ چکا ہے۔ ان کے ہاتھ سے وہ چوتھا ستون نکل چکا ہے۔ چینلوں نے ڈبیٹ کا طریقہ نکال لیا ہے۔
15 دسمبرکو دہلی پولیس کے ذریعے کیمپس سے نکالے گئے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم(فوٹو: رائٹرس)
جو صحافی ان مظاہرہ کو کور کر رہے ہیں ان کے ساتھ بھی تشدد ہوا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر صحافی اقلیتی کمیونٹی کے ہیں۔ ان کو مذہب کی وجہ سے بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔لکھنؤ میں
دی ہندو کے صحافی عمر راشد کو پولیس اٹھاکر لےگئی۔ دو گھنٹے تک ان کے ساتھ فرقہ وارانہ تبصرے کئے گئے۔کمیٹی اگینسٹ اسالٹ آن جرنلسٹ کے مطابق شہریت قانون کا مظاہرہ کو کور کرتے ہوئے 14 صحافی زخمی ہوئے ہیں۔ ان میں سے کئی صحافی اپنے جوکھم پر ویب صحافت کرنے والے ہیں۔
شاہین عبداللہ کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے تشدد کے وقت پریس کارڈ دکھانے کے بعد بھی مارا گیا۔ بی بی سی کی
صحافی بشریٰ شیخ نے پریس کارڈدکھایا توبھی ان کو گالیاں دی گئیں۔ ان کا فون چھین لیا گیا۔پل پل نیوز کے شارق عدیل یوسف بھی زخمی ہو گئے۔ لاٹھیوں سے مارا گیا۔ پولیس نے پریس کارڈ لے لیا۔ فون توڑ دیا۔ فری لانس صحافی کاوش عزیز نےبھی جو منظر دیکھا اور بھگتا ہے وہ خوفناک ہے۔پٹنہ میں ری پبلک ٹی وی کے
صحافی پرکاش سنگھ کے ساتھ بھی آرجے ڈی کے حامیوں نے دھکا-مکی کی اور ان کو اپنا کام کرنے سے روکا۔ ان سبھی پر میڈیامیں خاموش ہے۔
میڈیا بریک ڈاؤن کی ایک اور علامت ہے۔ جب میڈیا اپنےدوستوں کے ساتھ ہونے والے تشدد کو لےکر خاموش ہو جاتا ہے۔ بھیڑ بھی صحافیوں کےساتھ تشدد کرتی ہے اور پولیس بھی۔ہرجگہ لوگ میڈیا پر تشدد نہیں کرتے ہیں لیکن کئی جگہوں پر’گودی میڈیا گو بیک’کے نعرے لگے ہیں۔ پر امن اور جمہوریطریقے سے۔ جنتر منتر پر ایسے نعرے خوب لگے ہیں۔عجیب حالت ہے۔ صحافی جس ادارے میں ہے وہ رپورٹنگ نہیں کرتا، جس ادارے کے لئے رپورٹنگ کرنے جاتا ہے وہاں بھیڑ سے گھر جاتا ہے۔ یہ کلاسک بریک ڈاؤن ہے۔ لوگوں کا میڈیا سے بھروسہ ٹوٹ گیا ہے اور میڈیا اپنے میڈیا والوں کابھروسہ توڑ رہا ہے۔
جس طرح ایک عام آدمی اخبار یا چینل کے سامنے مجبور ہےاسی طرح نامہ نگار یا اینکر اپنے ادارے کے اندر مجبور کھڑا ہے۔صرف ان کو چھوڑکر جو اپنے ادارے کی طرح ہو گئے ہیں۔صحافی کی طرح نہیں رہ گئے ہیں۔ یعنی میڈیا کا پلیٹ فارم ان کے ہاتھوں میں ہے جس کاکام صحافت نہیں ہے۔اسی بیچ حکومت
صلاح جاری کرتی ہے کہ میڈیا ایسی چیزیں نہ دکھائے جس سے ملک مخالف طاقتیں مضبوط ہوتی ہے۔
قاعدے سے کہنا چاہیے کہ میڈیا عوام کی آواز دکھائے۔آواز نہ روکے اس سے جمہوریت میں خدشہ اور ناامیدی پھیلتی ہے۔ بلکہ کئی ویڈیو ایسےآئے ہیں جس میں بی جے پی کے رہنما شہریت قانون کی مخالفت کرنے والوں کو گولی مارنےکی بات کر رہے ہیں۔دہلی اور کٹیہار سے ایسے ویڈیو آئے ہیں۔ بی جے پی کےرہنما مخالفین کو کیڑا کہتے ہیں۔ بی جے پی کے رکن پارلیامان جامعہ کے طالب علموں کو دہشت گرد کہتے ہیں لیکن میڈیا خاموش ہے۔ ان کی گولی مارنے والی زبان میں ملک مخالف سرگرمیاں نہیں دکھتی ہیں۔
ایک طرح سے میڈیا پولیس کے تشدد اور حکومت کے حامیوں کی تشدد آمیز زبان کے ساتھ ہو چکا ہے۔یہ خاموشی خوف ناک ہے۔ لوگوں کے پاس وائرل آخری راستہ بچا ہے۔ وہ صحیح اطلاع کی تلاش میں وائرل کر رہے ہیں۔ ان کو ایک قسم کا بخار ہوگیا ہے۔وائرل کا ایک مطلب بخار بھی ہوتا ہے۔ اس کا نام میڈیاوائرل ہے۔ یہ بخار کی شکل میں بھی ہو سکتا ہے اور سنک کے طور پر بھی۔ یہی میڈیابریک ڈاؤن ہے۔
(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)