گراؤنڈ رپورٹ: گزشتہ 20دسمبر کو اترپردیش کے بجنور ضلع کے نہٹور قصبے میں شہریت قانون کے خلاف ہوئےپر تشدد مظاہرے کے دوران محمد سلیمان اور محمد انس کی موت ہوگئی تھی ۔سلیمان یو پی ایس سی کی تیاری کر رہے تھے ،جبکہ انس اپنے گھر کے اکیلے کمانے والے تھے۔
اسی کا شہر وہی مدعی وہی منصف
ہمیں یقیں تھاہمارا قصور نکلےگا
اتر پردیش کے بجنور ضلع کے نہٹور قصبے میں رہنے والے 55سالہ زاہد حسین نے کمرے میں پھیلی اپنے بیٹے سلیمان کی کتابوں کو سمیٹتے ہوئےلاچاری بھرے لہجے میں امیر قزلباش کا یہ شعر بدبدایا۔ رات کے تقریباً آٹھ بجے (25دسمبر) ہیں اور کچھ ہی دیر میں ان کی فیملی کو تسلی دینے کے لئے بریلی زون کے اےڈی جی اور بجنور کے ایس پی آنے والے تھے۔
پانچ دن پہلے 20 دسمبر کو شہریت ترمیم قانون کےخلاف مظاہرہ کے دوران ان کے بیٹے 21 سالہ سلیمان کو گولی مارکر قتل کر دیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ گولی ان کی جانب سے ‘اپنی دفاع’ میں چلائی گئی تھی۔ اس دن تشددکے دوران 23 سالہ محمد انس کی بھی موت گولی لگنے سے ہو گئی تھی۔
زاہد ان افسروں کا بےصبری سے انتظار کر رہے تھے، کیونکہ ان کو اپنے سینے میں دبے کئی سوالوں کا جواب ان سے جاننا تھا۔
آس پاس کی بھیڑ ان کے گھر کے باہر جمع ہو گئی تھی، تبھی پولیس کی گاڑیوں کاایک لمبا قافلہ ان کے گھر پہنچا۔ موقع پر کئی سارے صحافی موجودتھے، جو پولیس اور اہل خانہ کے درمیان کی بات چیت رکارڈ کرنا چاہ رہے تھے۔ پولیس نے اس پر اعتراض کیا تو مرحوم سلیمان کے والد زاہد نے کہا،’بات تو سب کے سامنےہونی چاہیے۔ ‘
بجنور اے ڈی جی اویناش چندر کے آتے ہی زاہد نے ان سےپہلا سوال کیا،’کسی بھی وطن، شہر یا کسی گاؤں کے آدمی کی لاش کو اگر دوسری جگہ دفن کیا جاتا ہے تو اس کے گھر والوں پر کیا گزرتی ہے۔ جب ہم اس مٹی میں پیدا ہوئےاور اس مٹی میں دفن نہیں ہوںگے تو کہاں جائیںگے۔ ‘
ریاست کی بجنور پولیس نے سلیمان کو ان کے گھر نہٹور میں دفن کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔اہل خانہ کا الزام ہے کہ انتظامیہ نے ان کودھمکایا اور کسی دیگر جگہ پر دفن کرنے کے لئے مجبور کیا۔ اس بارے میں ایس پی سنجیوتیاگی نے کہا ہے کہ چونکہ ماحول ‘فرقہ وارانہ’تھا اس لئے ان کو یہاں دفن کرنےنہیں دیا گیا۔
حالانکہ پولیس جس بنیاد پر ماحول کے’فرقہ وارانہ’ہونےکا دعویٰ کر رہی ہے،وہ اس بات کو حقائق کی بنیاد پر قائم نہیں کر پاتی۔
یہ بھی پڑھیں: بجنور پولیس کا دعویٰ-ماحول فرقہ وارانہ ہونے سے بچایا، لوگوں کا انکار
سلیمان نوئیڈا میں اپنے ماموں انور عثمانی کے گھر رہکرسول سروس کی تیاری کر رہے تھے۔ ان کی اسکولی تعلیم(چھے سے دسوین تک)سرسوتی ودیامندر سے ہوئی تھی۔ بیمارہونے کی وجہ سے کچھ دن کے لئے وہ نہٹور آئے ہوئے تھے۔ اہل خانہ کاکہنا ہے کہ اس دن وہ نماز پڑھنے کے لئے گئے ہوئے تھے اور جب وہ گھر واپس لوٹ رہے تھے اچانک پولیس کی گولی آکر ان کے سینے میں لگی۔
اے ڈی جی کے سامنے ہی انور عثمانی نے بتایا،’جب ہم پوسٹ مارٹم رپورٹ لینے کے لئے بجنور گئے تو وہاں سے کہا گیا کہ آپ لوگ صبح آنا۔پھر رات میں سوا ایک بجے کے آس پاس تھانے سے فون آتا ہے کہ آپ لوگ تھانے آؤ۔ وہاں سی او دھام پور تھے۔ جب ہم سات-آٹھ لوگ وہاں جاکر بیٹھے، تو ہم سے کہا گیا کہ ابھی بجنور جاؤ۔ وہاں سے لاش لو اور نہٹور نہیں، وہیں بجنور میں ہی کہیں گڑھے میں دفن کر دو۔ ‘
انہوں نے آگے کہا،’ایک تو ہمارا بچہ چلا گیا۔ کیا اس کو دفن کرنے کے لئے شہر میں دو گز زمین بھی نہیں ہے؟ اس پر سی او نے ایک گھنٹی بجائی، اس کے بعد پولیس والوں نے تھانے کے اندر ہی پانچ فائر کئے۔ جب ہم لوگوں نےپوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے تو بولے کہ یہ بندوق کی نال صاف ہو رہی ہے اور بولے کہ اگرزیادہ ہوشیار بننے کی کوشش کروگے تو اتنے مقدمے لگا دوںگا کہ تمہاری نسلیں نہیں بھگت سکتی ہیں۔ ‘
اس کی وجہ سے اہل خانہ کو سلیمان کی لاش کو اس کے ماموں کے گاؤں میں دفن کرنا پڑا تھا۔
گھر میں موجود سلیمان کے بڑے بھائی شعیب ملک نے ایس پی تیاگی کے ذریعے میڈیا میں اپنے بھائی کو شرپسند کہے جانے پر تلخ لہجے میں کہا، ‘کسی بھی آدمی کو، کسی بھی برادری کو اتنا بھی ٹارگیٹ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ اوپر بھی خدا ہے۔ ‘
شعیب ملک کی شکایت پر محمد سلیمان کی موت کے معاملے میں اس وقت کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او)راجیش سنگھ سولنکی سمیت چھ پولیس اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
مرحوم سلیمان کے والد زاہد حسین نے کہا، ‘یہاں پہلے کچھ چھٹ پٹ معاملے تو ضرور ہوئے لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ پولیس سیدھے گولی مارنے لگے۔بیٹا مسجد سے نماز پڑھکر آ رہا تھا کہ پولیس نے گولی مار دی۔ یہ کہاں کا قانون ہےکہاں کا انصاف ہے؟ ‘
زاہد حسین کی فیملی چار کمروں کے ایک چھوٹے سے گھر میں رہتی ہے۔ گھر کے بیچوں بیچ ایک ہینڈ پمپ لگا ہوا ہے۔ ہلکی-ہلکی روشنی آ رہی تھی۔دیواروں پر تار لٹکے ہوئے دکھ رہے تھے۔ سلیمان ہی گھر میں سب سے زیادہ پڑھا لکھاتھا۔ چھوٹی بہنیں اسکول میں پڑھتی ہیں۔بڑےبھائی والد کے ساتھ ملکر کھیتی کرتےہیں۔
ایک کمرے میں سلیمان کی ماں اور ان کی بہنیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ چاروں طرف سامان بکھرا پڑا ہوا تھا۔ چوکی پر لحاف اوڑھے بےحد خاموش ان کی ماں بیٹھی ہوئی تھیں اور ان کے ساتھ سلیمان کی بھابھی بھی تھیں۔
ایک طرف تمام بہنیں بیٹھی تھیں۔ ہماری طرف دیکھکر چہرےپر بے بسی لئے ہلکے سے مسکراکر ماں اکبری خاتون نے کہا، ‘ میں کیا کہوں بیٹا۔ کچھ کہنے کے لئے رہ نہیں گیا۔ وہ تو اب چلا گیا۔ اس کو کہاں سے لاؤں واپس۔ ‘
فیملی کو کافی امید تھی کہ سلیمان پڑھ-لکھکر ایک دن بڑاآدمی بنےگا اور فیملی کا نام روشن کرےگا۔ پڑوسی بھی سلیمان کی تعریف کرتے نہیں تھکتے ہیں۔
سلیمان کو بےحد ہونہار اور محنتی لڑکا بتاتے ہوئے نہٹورکے ایچ ایم آئی انٹر کالج کے پرنسپل سعید بلال احمد زیدی نے کہا، ‘ کیا اس طرح سےملک میں مسلمانوں کی ترقی کی جائےگی۔ کمیونٹی کا ایک لڑکا پڑھ-لکھکر آگے بڑھناچاہتا تھا لیکن اس کو گولی مارکر گرا دیا گیا۔ کیا ہم چاہتے ہیں کہ مسلمان ملک کی تنگ گلیوں میں ہی سڑتا رہے۔ ‘
سلیمان نے 11ویں اور 12ویں کی پڑھائی اسی کالج سے کی تھی۔
زیدی نے بتایا کہ سلیمان کے والد اس کی پڑھائی کو لےکربہت فکرمند رہتے تھے اور بار بار ان کے گھر آکر صلاح و مشورہ لیتے تھے۔ ان کا خواب تھا کہ گھر سے کم سے کم ایک بچہ پڑھ لکھکر کچھ کر لے۔
سلیمان کے گھر سے تھوڑی دور پر پردیپ شرما تقریباً35 سالوں سے دکان چلا رہے ہیں۔ شرما کا تشدد کے دوران مارے گئے سلیمان کی فیملی سے کافی لمبے عرصے سے تعلق ہے اور دونوں کا ایک دوسرے کے یہاں آنا-جانا ہے۔
سلیمان کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ہمارے محلے کا بہت شریف لڑکا تھا وہ۔ بہت سپورٹنگ تھا۔ کسی کام کے لئے کہہ دو، وہ ساتھ لگا رہتا تھا۔ مجھے یہاں 35 سال رہتے ہوئے ہو گئے میں نے کوئی کمی نہیں دیکھی اس میں۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ پتھر یا گولی چلا سکتا ہے۔ ‘
دی وائر سے بات چیت میں بجنور ایس پی سنجیوتیاگی کا دعویٰ ہے کہ شرپسندوں میں سے کچھ لوگوں نے ایک پولیس اہلکار کی بندوق چھین لی اور جب پولیس نے بندوق واپس لینے کے لئے ان کا پیچھا کیا تو سلیمان نے گولی چلائی۔ بعد میں پولیس نے دفاع میں سلیمان پر گولی چلا دی اور ان کی موت ہو گئی۔
20 دسمبرکو نہٹور میں ہی تشدد کے دوران محمد انس کی موت ہو گئی تھی
سلیمان کے گھر سے تقریباً500 میٹر کی دوری پر مین سڑک سےکافی اندر چلکر ایک گلی میں 20 دسمبر کو ہوئے تشدد کے دوران مرنے والے 23 سالہ محمد انس کا گھر ہے۔ ایک کمرے کے گھر میں انس کے والد، ان کی بیوی، دو بیٹیاں،ایک بیٹا اور انس کی دادی رہتی ہیں۔
ان کے کمرے کی دیواروں پر پلاسٹر نہیں ہو پایا ہے۔ اس کمرے میں ہی ایک کونے میں ایک چھوٹی میز رکھکر چولہا رکھکر کچن تیار کیا گیا ہے۔فرش ابھی بھی مٹی کا ہے۔ گھر کے اوپر ٹن کا چھجہ ڈالکر ایک نیا کمرہ بنایا گیاہے، جس میں انس کو رہنا تھا، لیکن اب وہ بند پڑا رہتا ہے۔
انس ہی اپنے گھر کا خرچ چلاتا تھا۔ والدشہر میں ہی درزی کا کام کرتے ہیں، لیکن اب بہت کم کام کر پاتے ہیں۔ جب ہم ان کےگھر پہنچے تو اس وقت رات کے 10 بجے رہے تھے۔ انس کے والد ارشد حسین چارپائی پراداس لیکن ایک دم خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے چائے پوچھی اور پھر بات چیت شروع کی۔
حسین نے کہا، ‘تقریباً تین بجے (20 دسمبر) کا وقت تھا۔ ہم نماز کی تیاری کر رہے تھے۔ میں مسجد کے پاس ہی کھڑا تھا۔ میرے لڑکے (انس) نے پوچھاکہ کیا وہ دودھ لےکر آئے۔ میں نے بولا، ڈیری بند ہے اب نہیں ملےگا۔ اس نے کہا میں بغل سے لےکر آتا ہوں۔ اس نے دودھ لینے کے لئے پاس والی گلی جب پار کی تو ادھرفائرنگ ہو رہی تھا۔ جیسے ہی اس نے دوسری طرف دیکھا ایک گولی سیدھے آکر اس کی آنکھ پرلگی۔ ادھر سے آواز آئی، کالے کوٹ میں کسی کو گولی لگ گئی ہے۔ جب میں بھاگکر گیاتو دیکھا کہ میرا لڑکا وہاں پڑا ہوا تھا۔ ‘
ارشد حسین اور ان کے بھائی بائیک پر بٹھاکر انس کو ہاسپٹل لے گئے۔ پرائیویٹ ہاسپٹل والے نے انس کو بھرتی کرنے سے منع کر دیا۔ ارشد حسین کےمطابق، ہاسپٹل والوں نے گولی لگنے کی بات کہہکر بھرتی کرنے سے منع کر دیا۔ اس کےبعد وہ انس کو بجنور لے گئے۔
انس کے والد نے بتایا،’بجنور جاتے-جاتے میرے سامنے ہی میرے بیٹے نے دم توڑ دیا۔ پھر بھی ہمیں سکون نہیں ملا تو ہم نے ڈاکٹر سے دیکھنے کوکہا۔ ڈاکٹر نے بھی اس کی موت کااعلان کر دیا۔ ‘
سلیمان کی طرح ہی پولیس نے انس کو بھی نہٹور میں دفن کرنےکی اجازت نہیں دی۔اہل خانہ کا الزام ہے کہ انس کی تجہیز وتکفین کے دوران پولیس نےان سے کافی بدسلوکی کی اور بدتمیزی سے پیش آئے۔
یہ بھی پڑھیں: بجنور میں حراست میں لئے گئے نابالغ بولے-پولیس پیشاب کرانے کے بہانے پیٹتی تھی
ارشد حسین نے کہا، ‘میرے بیٹے کی لاش پوسٹ مارٹم کے لئےبھیج دی گئی۔ ہم لاش مانگنے گئے تو انہوں نے کہا کہ صبح دس بجے کے بعد آنا۔ جیسےہی ہم گھر پہنچے، اچانک سے فون آیا کہ پوسٹ مارٹم کرا لو، ابھی پوسٹ مارٹم ہوگا۔ہم پھر سے کرایہ کی گاڑی لےکر بجنور گئے تو دیکھا کہ وہاں پہلے سے ہی پولیس کی چارپانچ گاڑیاں کھڑی تھیں۔ ہم نے کہا کہ ہم لاش لینے کے لئے آئے ہیں تب پولیس والوں نےکہا کہ لاش تو مل جائےگی لیکن دفن یہیں کرنا پڑےگا۔ ‘
اہل خانہ نے پولیس سے کہا کہ بجنور میں ان کی کوئی رشتہ داری ہے نہیں، ان کو نہٹور لے جانا پڑےگا۔ ان کے مطابق، پولیس نے اس سے صاف منع کر دیا بعد میں پولیس نے انس کی نانی کے گھر مٹھان میں لاش دفن کرنے کی اجازت دی۔وہاں پولیس بھی ساتھ میں گئی۔
ارشد حسین کے بھائی مشرف حسین نے کہا، ‘جب مٹھان پہنچےتو پولیس انس کی لاش دے ہی نہیں رہی تھی۔ پولیس نے کہا کہ پہلے بتاؤ قبرستان کہاں ہے جب ہم نے کہا کہ سامنے قبرستان ہے تو پولیس نے کہا کہ کھودو گڑھا، دباؤفورا…اس پر ہم نے اعتراض کیا کہ مسلم رسم و رواج سے تجہیز و تکفین کرنے دینےکی گزارش کی۔ بعد میں پولیس والوں میں شامل ایک مسلم آدمی نے ہماری مدد کی۔ ‘
فیملی والوں کو اب تک پوسٹ مارٹم رپورٹ نہیں ملی ہے۔
انس کے تین بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ وہ دہلی میں رہکر کیٹرنگ سے جڑا کام کرتا تھا اور نہٹور میں وہ پلمبر کے طور پر ٹنکی فٹنگ وغیرہ کا کام کیاتھا۔ انس کی شادی ہو چکی تھی اور ان کا سات مہینے کا ایک بچہ ہے۔
انس کی ماں شاہین پروین کمبل اوڑھکر سامنے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ بیٹے کو کھو دینے کا غم ان کی آواز میں صاف جھلک رہا تھا۔
وہ کہتی ہیں،’بیس سال لگاکر اس کو اتنا بڑا کیا تھا۔پولیس والوں نے بیس منٹ بھی نہیں لگایا اس کو مارنے میں۔ کیا یہی انصاف ہے پولیس کا؟کیا پولیس اسی کے لئے بنی ہے؟ کیا ان کی کوئی اولاد نہیں ہیں؟ کیا وہ کسی کی اولادنہیں ہے؟ کیا ان کے ماں باپ نہیں ہیں؟’
یہ کہتے-کہتے ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ تھوڑی دیر رککر وہ آگے بتاتی ہیں، میرا جو جانا تھا، وہ تو چلا گیا۔ وہ اب تو واپس نہیں آئےگا۔ لیکن کم سے کم جو پھنسے ہوئے ہیں، جو جیل میں ہیں، ان کو تو چھوڑ دیاجائے۔
انہوں نے کہا، ‘ہمارا گھر تو گلی کے اتنا اندر ہے۔ یہاں تو کوئی مظاہرہ بھی نہیں ہوا تھا۔ جو بھی ہوا وہ کافی دور پر ہو رہا تھا۔ کیاحکومت سارے مسلمانوں کو مار دےگی؟ اس کی ایک ڈھائی سال اور ایک 14 سال کی بہن ہے۔والد کا بڑھاپا آ گیا ہے۔ اب کس طریقے سے ان کی پرورش ہو پائےگی۔ ‘
اس معاملے کو صحیح سے کور نہ کرنے کو لےکر میڈیا پرناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پروین کہتی ہیں،’ہمارا بچہ بھی گیا، ہم خود تماشہ بنکر رہ گئے۔ ہم مسلمانوں کی اتنی فوٹو بھی تو نہیں کھنچتی تھی۔ انتظامیہ اور میڈیا یہاں آتے ہیں تسلی دےکر جا رہے ہیں۔ کوئی کارروائی تو نہیں کر رہا ہے۔ ‘
ان کے مطابق، انس نے کچھ دن پہلے ہی چھت پر ٹین کی چادرڈالکر اپنا کمرہ تیار کیا تھا۔ ابھی کمرے کی پوری طرح سے صفائی بھی نہیں ہو پائی ہے۔ جو برتن وغیرہ خریدکر لائے گئے تھے وہ ابھی کھلے بھی نہیں ہیں۔
انس کے چچا مشرف حسین نے کہا، ‘یہ ساری چیزیں دیکھ دیکھ کر ہمیں اس کی یاد آتی ہے۔ کمرہ بنانے میں اس کے دوستوں نے کافی مدد کی تھی۔دوستوں کو انس سے اتنی محبت تھی کہ انہوں نے کہا کہ مزدور کیوں بلاؤگے، ہم ہی پورا کام کرا دیںگے۔ اپنا کمرہ تو اس نے بنا لیا، لیکن اس میں رہ نہیں پایا۔ ‘
اس معاملے کو لےکر جب دی وائر نے اے ڈی جی اویناش چندرسے سوال کیا تو انہوں نے کہا، ‘کیا ہوا، کون ذمہ دار ہے، قصوروار کون ہے وہ توالگ چیز ہے۔ آگے ایسا نہ ہو ہماری یہ کوشش ہے۔ ‘
معاملے کی تفتیش پر انہوں نے کہا، ‘ دیکھتے ہیں۔ ہم کڑی سے کڑی جوڑ رہے ہیں۔ ‘حالانکہ اب تک پولیس نے اس معاملے میں کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔
انس کے والد، چچا اور کچھ پڑوسی گھر سے نکلکر ہمارےساتھ اس گلی تک آئے جہاں پر انس کو گولی لگی تھی۔ ابھی بھی وہاں پر خون کے کچھ نشان بچے تھے۔ بغل میں ہی ایک مسجد تھی۔
انس کے والد اپنے بیٹے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں،’مذاق میں کہتا تھا کہ کب شادی کراؤگے میری، جلدی شادی کراؤ۔ ایک دن محلے کی لڑکی سے ہی محبت کی شادی کر لی۔ لیکن محبت اس کی تو ایسے ہی پڑی رہ گئی۔ اب اس بچی(انس کی بیوی)کو کون سنبھالےگا؟ ‘
پوری بات چیت میں وہ بےحد سکون سے تھے، ایک بار بھی غصہ نہیں کیا۔ لیکن سینے میں دبا درد آہستہ آہستہ باہر آ گیا۔ اپنے آنسوؤں کو وہ روک نہیں پائے اور رندھے ہوئے گلے سے کہتے ہیں،’برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الوکافی تھا، ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہوگا۔ ‘