دہلی پولیس کی انٹرنل جانچ میں پتہ چلا ہے کہ دو پولیس اہلکاروں نے اےسی پی رینک کے ایک آفیسر کے سامنے طلبا پر گولیاں چلائی تھیں۔ ابھی تک دہلی پولیس 15 دسمبر کو جامعہ مظاہرہ کے دوران مظاہرین پر فائرنگ کرنے سے انکار کرتی رہی ہے۔
نئی دہلی :شہریت قانون کے خلاف دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں احتجاج اور مظاہرہ کے دوران نیو فرینڈس کالونی میں 15 دسمبر کو ہوئے تشدد کی جانچ میں پتہ چلا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے تین گولیاں چلائی تھیں۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، ساؤتھ ایسٹ ضلع پولیس نے معاملے کی جانچ کے بعد ایک کیس ڈائری تیار کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ دو پولیس اہلکاروں نے تین گولیاں مظاہرین پر چلائی تھیں۔ یہ گولیاں اےسی پی رینک کے ایک افسرکے سامنے ہی پولیس اہلکاروں نے چلائی تھیں۔
واضح ہو کہ 15 دسمبر کو ہوئے مظاہرہ کے دوران اس وقت تشدد بھڑک گیا تھا، جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا اور مقامی لوگوں سمیت مظاہرین کے ایک گروپ نے پارلیامنٹ کی جانب مارچ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن متھرا روڈ پر ہی پولیس نے انہیں روک لیا تھا۔اس دوران کچھ مظاہرین نے پتھراؤ کیا اور بسوں اور نجی گاڑیوں میں آگ لگا دی، جس کے بعد پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا اور جامعہ کے کیمپس کے اندر گھس کر طلبا کی بے رحمی سے پٹائی کی۔
مظاہرہ کے کچھ گھنٹوں بعد جامعہ کے دو طالبعلم اعجاز احمد (20) اور محمد شعیب (23) کوصفدرجنگ ہاسپٹل اور تیسرے طالبعلم کو ہالی فیملی ہاسپٹل میں بھرتی کرایا گیا، تینوں کو گولی لگی تھی۔ ان طلباکے بیانات کو ہاسپٹل کے ایم ایل سی(میڈکو- لیگل کیس)رپورٹ میں بھی درج کیا گیا ہے۔حالانکہ، پولیس ایک بھی گولی چلائے جانے سے انکار کرتی رہی ہے۔
ڈی ایس پی (ساؤتھ ایسٹ) چنمے بسوال نے کہا تھا، ‘ہالی فیملی ہاسپٹل کی ایم ایل سی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیر علاج طالبعلم کو گولی سے زخم ہوا ہے۔ یہ رپورٹ زخمی کے بیان کے بنیاد پر درج ہے۔ ہم نے کسی بھی طالبعلم پر گولی نہیں چلائی۔ کسی بھی طرح کی دھات اور پلاسٹک سے زخم ہو سکتا ہے۔ صفدرجنگ ہاسپٹل میں زیر علاج دو زخمی طالبعلم بھی مبینہ طور پر گولی لگنے سے زخمی ہوئے ہیں لیکن اگر کسی کو بھی گولی لگی ہوتی تو ایمبولینس اسے ہالی فیملی یا فورٹس لے جاتی جو نزدیک ہیں۔’
ذرائع کے مطابق، 15 دسمبر کی جھڑپ کے بعد ساؤتھ ویسٹ ضلع کے پولیس اہلکاروں سے سینئر حکام نے پوچھا تھا کہ کیا ان میں سے کسی نے گولی چلائی۔ سب نے کہا کہ انہوں نے گولی نہیں چلائی۔ 18 دسمبر کو وائرل ایک ویڈیو میں دو پولیس اہلکاروں کو فائرنگ کرتے ہوئے اور تیسرے سینئر افسر کو پاس میں کھڑے ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔
ذرائع نے کہا، ‘ساؤتھ ویسٹ ضلع پولیس نے ان دونوں پولیس اہلکاروں اور اےسی پی کی پہچان کر لی ہے اور اس کی تصدیق ہو چکی ہے کہ فائرنگ ہوئی تھی۔ پولیس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ کچھ مظاہرین کے تشدد کے بعد انہوں نے دفاع میں فائرنگ کی۔’
ان پولیس اہلکاروں کے بیان تب کیس ڈائری میں درج کئے گئے تھے۔
جامعہ نگر اور نیوفرینڈس کالونی میں ہوئے تشدد سے متعلق دو ایف آئی آر درج ہوئی ہیں، جس میں پولیس فائرنگ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔حکام نے کہا، ‘اس کیس ڈائری کو ابھی کرائم برانچ ایس آئی ٹی کو سونپا نہیں گیا ہے۔ ایس آئی ٹی پولیس کمشنر امولیہ پٹنایک کی ہدایات کے بعد فساد سے جڑے 10 معاملوں کی جانچ کر رہی ہے۔’
یہ پوچھنے پر کہ کیا پولیس نے فائرنگ کی تھی؟ اس پر ڈی ایس پی بسوال نے کہا کہ وہ اس پر کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ جانچ جاری ہے۔اس بیچ جامعہ کے تینوں طالبعلم کو ہاسپٹل سے ڈسچارج کر دیاگیا اور ایس آئی ٹی جلد ہی ان کے بیان درج کر سکتی ہے۔
صفدرجنگ ہاسپٹل کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر سنل گپتا نے کہا، ‘مناسب علاج کے بعد دونوں طالبعلم کو ہاسپٹل سے ڈسچارج کر دیا گیا۔ ان کے بدن سے بھی باہری عناصر کو نکالا گیا ہے، اسے دہلی پولیس کو بھیج دیا گیا ہے۔ ہمارا کام صرف مریض کو بنیادی علاج مہیا کرانا ہے۔’وہیں، ہالی فیملی ہاسپٹل کے ڈائریکٹر فادر جارج پی اے نے کہا، ‘طلبا کے بدن سے نکالی گئی چیز کو ہم نے جانچ کے لیے دہلی پولیس کو سونپ دیا ہے۔ پولیس اس کی جانچ کرےگی کہ کیا وہ گولی تھی یا ٹیئرگیس شیل۔’