اترپردیش کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گزشتہ 15 دسمبر کو شہریت قانون اور نئی دہلی میں جامعہ کے طلبا پر پولیس کی بربریت کے خلاف ہو رہا مظاہرہ پر تشدد ہو گیا تھا،جس میں 100 لوگ زخمی ہو گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: اے ایم یو میں جامعہ سے بھی زیادہ بربریت سے اسٹوڈنٹ کو پولیس نے پیٹا: فیکٹ فائنڈنگ ٹیم
امر اجالاکے مطابق، عرضی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مظاہرے کے دوران طلبا پر پولیس کارروائی کی جانچ ہائی کورٹ کے جج یا ایس آئی ٹی سے کرانے کی مانگ کی گئی تھی۔ کہا گیا ہے کہ پر امن مظاہرہ کر رہے طلبا کے ساتھ پولیس اور آراے ایف کے جوانوں نے بے رحمی کے ساتھ برتاؤ کیا۔ساتھ ہی عرضی میں گرفتار طلبا کو رہا کرنے، ان پر لگا مقدمہ ہٹانے،زخمی طلبا کا علاج کرانے، معاوضہ دیے جانے، مجرم پولیس اہلکاروں کو سزا دینے سمیت کئی مانگ کی گئی ہیں۔ وہیں ریاستی حکومت کی طرف سے جوابی حلف نامہ داخل کیا گیا اور پولیس کارروائی کا بچاؤ کیا گیا ہے۔ریاست نے دلیل دی کہ یونیورسٹی کا گیٹ طلبا کے ذریعے توڑ دیا گیا تھا اور یونیورسٹی انتظامیہ کی گزارش پر پولیس تشدد میں ملوث طلبا کو قابو میں کرنے کے لیے یونیورسٹی کیمپس میں داخل ہوئی اور اس کارروائی کے دوران کوئی اضافی فورس استعمال نہیں کی گئی۔ آئی جی اور ایس ایس پی کی طرف سے داخل حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ مظاہرین نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی تھی۔پبلک پراپرٹی کونقصان سے بچانے کے لیے کارروائی کی گئی تھی۔ 26 لوگوں کو تشدد کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس نے قانون کے مطابق کارروائی کی ہے۔ غور طلب ہے کہ گزشتہ 15 دسمبر کو شہریت قانون اور نئی دہلی کے جامعہ کے طلبا پر پولیس کی بربریت کے ساتھ کی گئی کارروائی کے خلاف مظاہرہ ہو رہا تھا،جو پر تشدد ہو گیا۔طلبا اور پولیس اہلکاروں کی جھڑپ میں میں 100 لوگ زخمی ہو گئے تھے۔ان میں کچھ پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔