پہلی جنوری کو سرکاری چینی میڈیا کے ایک صحافی نے اپنے ٹوئٹ میں دعویٰ کیا کہ گلوان میں چینی قومی پرچم لہرایا گیا ہے۔ لداخ میں واقع یہ وہی وادی ہے جہاں جون 2020 میں چین اور ہندوستان کے فوجیوں کے درمیان خونریز تصادم ہوا تھا۔شین شیوئی نام کےاس صحافی کوسوشل میڈیا پر اپنی تحریروں کے ذریعے چینی پروپیگنڈے کی قیادت کے لیے جانا جاتا ہے۔
نئی دہلی: کانگریس رہنما راہل گاندھی نے اتوار کو وزیر اعظم نریندر مودی سے مشرقی لداخ کے گلوان علاقے میں چینی’دراندازی’ پر ‘چپی توڑنے’ کہا ہے۔
کانگریس مشرقی لداخ اور اروناچل پردیش میں مبینہ چینی دراندازی سے نمٹنے کو لے کر مرکزی حکومت پر حملہ آور رہی ہے۔
خبر رساں ایجنسی یونائیٹڈ نیوز آف انڈیا (یو این آئی)کی رپورٹ کے مطابق، سرکاری چینی میڈیا کے ایک صحافی کی جانب سےٹوئٹر پر ویڈیو پوسٹ کرنے کے بعد کانگریس رہنما راہل گاندھی نے یہ ٹوئٹ کیا ہے۔
پہلی جنوری کو ایک سرکاری چینی میڈیا کے صحافی نے اپنے ٹوئٹ میں دعویٰ کیاتھاکہ گلوان میں چینی قومی پرچم لہرایا گیا ہے۔لداخ میں واقع یہ وہی وادی ہے جہاں جون 2020 میں چین اور ہندوستان کے فوجیوں کے درمیان خونریز تصادم ہوا تھا۔
راہل گاندھی نے ٹوئٹر پر کہا،’گلوان پر ہمارا ترنگا ہی اچھا لگتا ہے۔ چین کو جواب دیا جاناچاہیے۔ مودی جی، چپی توڑو۔
गलवान पर हमारा तिरंगा ही अच्छा लगता है।
चीन को जवाब देना होगा।
मोदी जी, चुप्पी तोड़ो!— Rahul Gandhi (@RahulGandhi) January 2, 2022
ویڈیو میں کچھ چینی فوجیوں کو نئے سال کے موقع پر کسی چٹانی علاقےمیں اپنا قومی پرچم لہراتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ حالاں کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ جھنڈا وادی گلوان میں لہرایا گیاہے۔
اس سلسلے میں حکومت ہند کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
چینی سرکاری میڈیا کے صحافی شین شیوئی نے ٹوئٹ کیا تھا، گلوان وادی میں چینی پی ایل اے فوجیوں نے 2022 کے نئے سال کے دن چینی عوام کو نئے سال کی مبارکباد بھیجی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ،شیوئی سوشل میڈیا پر اپنی تحریروں کے ذریعے چینی پروپیگنڈے کی قیادت کے لیےمعروف ہے۔
At the Galwan Valley, Chinese PLA soldiers sent New Year greetings to the Chinese people on the New Year Day of 2022. pic.twitter.com/dImZ3IpkYz
— Shen Shiwei沈诗伟 (@shen_shiwei) January 1, 2022
اس سےقبل شیوئی نے ہندوستانی فضائیہ کے افسر گروپ کیپٹن ابھینندن ورتھمان کا بھی مذاق اڑایا تھا کہ فروری 2019 کے بالاکوٹ فضائی حملے کے بعدانہیں پاکستانی فوجیوں کی قیدمیں رہنا پڑا تھا۔
شیوئی نے صدر جمہوریہ سے ویر چکر لیتے ہوئے ابھینندن کی تصویر کے ساتھ پاکستانی فوجیوں کی مبینہ قید میں ان کی ایک اور تصویر لگائی تھی۔
اس سےقبل کانگریس کےسابق صدر راہل گاندھی نےاروناچل پردیش میں 15 مقامات کے نام تبدیل کرنے کے چین کے اقدام پر حکومت کو نشانہ بنایا تھا۔
چین کےسرکاری اخبارگلوبل ٹائمز نے 30 دسمبر کو رپورٹ کیا کہ چین کے شہری امور کی وزارت نے بدھ (29 دسمبر) کو اعلان کیا ہےکہ اس نے ژانگنان (اروناچل پردیش کے لیے چینی نام)میں 15 مقامات کے ناموں کوچینی، تبتی اور رومن میں لکھنے کی منظوری دی ہے۔ چین اروناچل کے تبت کے جنوب میں ہونے کا دعویٰ کرتا رہا ہے۔
اس وقت راہل گاندھی نے ٹوئٹ کیا تھا اور کہا تھا، ‘ابھی کچھ دن پہلے ہم 1971 کی جنگ میں ہندوستان کی شاندار جیت کو یاد کر رہے تھے۔ ملکی سلامتی اور فتح کے لیےسوجھ بوجھ اور مضبوط فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کھوکھلے جملوں سے جیت نہیں ملتی۔
دریں اثنا کانگریس کےچیف ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے مودی حکومت کو ‘کمزور’قرار دیا اور وزیر اعظم مودی پر ہندوستان کی علاقائی سالمیت کے لیےچینی خطروں پر خاموشی اختیار کرنے کا الزام لگایا۔
حالاں کہ، ہندوستان نے چین کی طرف سے 15 مقامات کے نام رکھنے پر سخت ردعمل ظاہر کیا تھا اور اروناچل پردیش کو اپنا اٹوٹ حصہ بتایا تھا۔
وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا، ‘ہم نے ایسی رپورٹس دیکھی ہیں۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ چین نے اروناچل پردیش میں جگہوں کے نام تبدیل کرنے کی کوشش کی ہو۔ چین نے اپریل 2017 میں بھی اس طرح نام تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔
انہوں نے کہا، اروناچل پردیش ہندوستان کا اٹوٹ حصہ تھا اور ہمیشہ رہے گا۔ اروناچل پردیش میں جگہوں کے نام گڑھنے سے یہ حقیقت نہیں بدلے گی۔
چین کی طرف سے یہ تازہ ترین کارروائی مئی 2020 میں مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی)پر دونوں ممالک کے درمیان جاری تعطل کے پس منظر کے خلاف کی گئی ہے۔ جون 2020 میں وادی گلوان میں ایک پرتشدد جھڑپ میں ایک درجن سے زیادہ ہندوستانی اور چینی فوجی مارے گئے تھے۔
لداخ کے وادی گلوان میں15 جون 2020 کو جھڑپ کے دوران ہندوستانی فوج کے 20 اہلکار شہید ہوئے تھے۔ بعد میں چین نے بھی تسلیم کیا تھاکہ اس کے پانچ فوجی افسران اور سپاہی اس میں مارے گئے تھے۔ یہ تقریباً 45 سالوں میں ہندوستان اور چین کی سرحد پر سب سے زیادہ پرتشدد جھڑپ تھی۔
اس کے بعد سےکئی سفارتی اور فوجی سطح پر مذاکرات ہو چکے ہیں۔تنازعہ کے بعض مقامات سےدونوں فریقوں نے کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش میں فوجیوں کی تعداد کم کر دی ہے، اس کے باوجود مشرقی لداخ میں تعطل کے دیگر مقامات پر ہندوستانی اور چینی فوجی ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔