چیف آف ڈیفنس اسٹاف (سی ڈی ایس) بپن راوت نے جمعرات کو کہا تھا کہ ملک میں شدت پسندی سے آزادی دلانے والے کیمپ چل رہے ہیں کیونکہ یہ ویسے لوگوں کو الگ کرنے کے لئے ضروری ہے، جن کی سوچ میں شدت پسندی شامل ہو چکی ہے۔ وہیں، مرکزی وزیر جی کشن ریڈی نے راوت کے تبصرہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ فوج لمبے عرصے سے شدت پسندی سے آزادی دلانے والے کیمپ چلا رہی ہے۔
نئی دہلی: اے آئی ایم آئی ایم کے رہنما اسدالدین اویسی نے چیف آف ڈیفنس اسٹاف (سی ڈی ایس) بپن راوت سے سوال کیا ہے کہ مسلمانوں اور دلتوں پر حملہ کرنے والے لوگوں کو وہ شدت پسند سوچ سے کیسے آزادی دلوائیںگے۔ دراصل راوت نے جمعرات کو کہا تھا کہ ملک میں شدت پسندی سے آزادی دلانے والے کیمپ چل رہے ہیں کیونکہ یہ ویسے لوگوں کو الگ کرنے کے لئے ضروری ہے، جن کی سوچ میں شدت پسندی شامل ہو چکی ہے۔
حیدر آباد سے رکن پارلیامان اویسی نے جمعرات کو عادل آباد میں ایک جلسہ کو خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ شدت پسندی سے آزادی ان لوگوں کو دلانے کی ضرورت ہے جو پیٹ پیٹ کر مار ڈالتے ہیں اور بےقصور دلتوں اور مسلمانوں کا قتل کرتے ہیں۔
اویسی نے کہا، ‘ میں چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل صاحب کو یہ مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ شدت پسندی سے آزادی دلانا ہی چاہتے ہیں تو سنیے، پہلے آپ جووینائل جسٹس قانون کو پڑھیں۔ انڈین پینل کوڈ بچوں پر نافذ نہیں ہوتا ہے۔ آپ شدت پسندی سے کس طرح آزادی دلانے کی بات کر رہے ہیں۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ جنرل صاحب کہتے ہیں کہ وہ بچوں کو شدت پسندی سے آزادی دلانے کے لئے نیا قانون لائیںگے۔ میرٹھ کے ایس پی مسلم رہائشی علاقوں میں کہتے ہیں کہ وہ (مسلمان ) یہاں کا کھاتے ہیں اور گانے پاکستان کے گاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان جاؤ۔ ایسے افسروں کو شدت پسند سوچ سے آزادی کون دلائےگا۔ دلتوں اور مسلمانوں کا پیٹ-پیٹکر قتل ہو رہا ہے، ان حملہ آوروں کو سوچ سے آزادی کون دلائےگا؟ ‘
ایم آئی ایم چیف نے کہا کہ آسام میں پانچ لاکھ بنگالی ہندوؤں اور اتنی ہی تعداد میں مسلمانوں کے نام غائب ہیں لیکن ہندوؤں کو سی اے اے کے تحت شہریت مل جائےگی لیکن مسلمانوں کو نہیں ملےگی۔ اویسی نے کہا کہ سابق صدر فخرالدین علی احمد کے کچھ رشتہ داروں کے نام بھی آسام میں غائب ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ اس غلطی کے ذمہ دار لوگوں کو شدت پسندسوچ سے آزادی کون دلائےگا۔
انہوں نے کہا، ‘ یہ پہلی بار نہیں ہے جب انہوں نے بےتکا بیان دیا ہے۔ پالیسی کا تعین کوئی جنرل نہیں بلکہ غیرفوجی انتظامیہ کرتا ہے۔ پالیسی اور سیاست پر بولکر وہ غیرفوجی انتظامیہ کو کمزور کر رہے ہیں۔ ‘
اویسی نے کہا ‘ پیٹ پیٹ کر جان لینے والوں کو اور ان کے سیاسی آقاؤں کو شدت پسند سوچ سے کون آزاد کرائےگا؟ آسام کے بنگالی مسلمانوں کو شہریت دئے جانے کی مخالفت کرنے والوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟ کیا ان کی شدت پسند سوچ بدلی جا سکتی ہے جو ہم پر این پی آر اور این آر سی کے ذریعے پریشانیاں تھوپ رہے ہیں؟ ‘
وہیں، سی پی ایم رہنما سیتارام یچوری نے جمعرات کو ٹوئٹ کر کہا کہ یہ قابل مذمت اور چونکانے والا بیان ہے۔ ایک فوجی کمانڈر کو ایسے بیان دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ہماری سیاسی قیادت کی کمزوری کو دکھاتا ہے جو کشمیر معاملے کے لئے نقصان دہ ہے۔
شدت پسندی سے آزادی دلانے والے کیمپ نئے نہیں : مرکزی وزیر
مرکزی وزیر جی کشن ریڈی نے سی ڈی ایس جنرل بپن راوت کے تبصرہ کی حمایت کرتے ہوئے جمعہ کو کہا کہ فوج لمبے عرصے سے شدت پسندی سے آزادی دلانے والے کیمپ چلا رہی ہے۔ بیان کو لےکر حزب مخالف پارٹیوں کے نشانے پر آئے راوت کا بچاؤ کرتے ہوئے ریڈی نے کہا کہ شدت پسندی سے آزادی دلانے والے کیمپ کا مدعا فوج سے جڑا ہے، یہ ایک شہری مدعا نہیں ہے۔
حزب مخالف جماعتوں نے یہ کہتے ہوئے راوت پر حملہ کیا تھا کہ یہ شہری مدعا ہے اور فوجی خدمات سے ہونے کی وجہ سے وہ اس پر تبصرہ نہیں کر سکتے۔ ریڈی نے کہا انہوں نے کبھی شہری مدعوں پر بات نہیں کی۔ انہوں نے ملک کی حفاظت کے نقطہ نظر پر بات کی۔ وہ کبھی سیاسی اور شہری مدعوں پر بات نہیں کرتے۔
ریڈی نے کہا، ‘ یہ (شدت پسندی سے آزادی) فوج کی ذمہ داری ہے۔ یہ (یہ کیمپ) بہت لمبے عرصے سے ہیں۔ یہ ان کی (فوج) خدمات کا حصہ ہے۔ ‘ انہوں نے کہا، ‘ وہ شدت پسند مقامات کے طور پر نشان زد جگہوں پر جاتے ہیں اور وہاں طبی کیمپ منعقد کرتے ہیں، ان کو تعلیمی رہنمائی عطا کرتے ہیں اور ماں باپ کی کاؤنسلنگ کرتے ہیں۔ ہمارے فوجی ہمیشہ ایسا کرتے ہیں۔ ‘ وزیر نے آگے کہا کہ یہ تمام خدمات نوجوانوں کو شدت پسندی سے آزادی دلانے کے پروگرام کا حصہ ہیں۔
پاکستان نے سی ڈی ایس راوت کے بیان کی مذمت کی
پاکستان نے سی ڈی ایس جنرل بپن راوت کے اس بیان کی مذمت کی ہے، جس میں جنرل راوت نے کشمیر میں حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وادی میں 10 اور 12 سال کے لڑکے-لڑکیوں کو شدت پسند بنایا جا رہا ہے، جو تشویش کا موضوع ہے۔
جنرل راوت کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان کے فارین ڈپارٹمنٹ نے کہا، ‘ یہ تبصرہ انتہا پسند ذہنیت اور دیوالیہ سوچ کو دکھاتا ہے جو واضح طور پر ہندوستان کے سرکاری اداروں میں پھیل چکی ہے۔ ‘
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)