گاؤں والوں نے گولی نہیں چلائی، ان کے ماؤوادی ہونے کا ثبوت نہیں: چھتیس گڑھ ’انکاؤنٹر‘ جانچ رپورٹ

چھتیس گڑھ کے بیجاپور ضلع کے سرکےگوڈا گاؤں میں جون 2012 کو ہوئے مبینہ انکاؤنٹر میں چھ نابالغ سمیت 17 لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔ جانچ رپورٹ میں سکیورٹی فورسز پر سنگین سوال اٹھائے گئے ہیں۔

چھتیس گڑھ کے بیجاپور ضلع کے سرکےگوڈا گاؤں میں جون 2012 کو ہوئے مبینہ انکاؤنٹر میں چھ نابالغ سمیت 17 لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔ جانچ  رپورٹ میں سکیورٹی فورسز پر سنگین سوال اٹھائے گئے ہیں۔

(علامتی تصویر : پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: چھتیس گڑھ کے بیجاپور ضلع کے سرکےگوڈا گاؤں میں جون 2012 کو ہوئے مبینہ انکاؤنٹر کی تفتیش میں پتہ چلا ہے کہ گاؤں والوں کی طرف سے گولی باری نہیں کی گئی تھی۔ مارے گئے لوگوں کے ماؤوادی  ہونے کے بھی ثبوت نہیں ملے ہیں۔ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، 2012 میں ہوئے اس مبینہ انکاؤنٹر کی جانچ  رپورٹ میں یہ انکشاف  ہوا ہے، جس کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے سبکدوش جج جسٹس وی کے اگروال کی صدارت والے کمیشن نے اس مہینے کی شروعات میں ریاستی حکومت کو سونپ دیا۔ اس مبینہ انکاؤنٹر  میں چھ نابالغ سمیت 17 لوگوں کی موت ہوئی تھی۔

ایک رکنی جوڈیشیل  کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گاؤں والوں پر ظلم و ستم  کیا گیا اور بعد میں ان کو کافی قریب سے گولی ماری گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے ہڑبڑاہٹ میں فائرنگ کی۔ رات میں کئی گھنٹوں کے مبینہ انکاؤنٹر کے بعد ان میں سے حراست میں لئے ایک گاؤں والے کو اگلی صبح گولی ماری گئی۔

اس رپورٹ میں کہا گیا کہ انکاؤنٹر کے دوران جو چھ سکیورٹی اہلکار ہ زخمی ہوئے ہیں، وہ شاید ساتھی سکیورٹی اہلکار  کے ذریعے کی گئی کراس فائرنگ میں زخمی ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جانچ  میں جان بوجھ کر گڑبڑی کی گئی۔ حالانکہ، گاؤں والوں  کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ تہوار کے بارے میں چرچہ  کرنے کے لئے اکٹھا ہوئے تھے، یہ بھی بےحد مشکوک ہے۔

غور طلب ہے کہ ماؤوادیوں کے ہونےکی اطلاع ملنے کے بعد 28 جون 2012 کی رات کو سی آر پی ایف اور چھتیس گڑھ پولیس کی ٹیموں نے آپریشن شروع کیا تھا۔ سکیورٹی فورسز  کے مطابق، دو ٹیمیں باساگڈا سے روانہ ہوئیں اور تین کلومیٹر دور سرکےگوڈا میں ایک ماؤوادی میٹنگ میں پہنچی تھیں۔ اس میٹنگ میں حصہ لے رہے گاؤں والوں  نے پولیس والوں کو دیکھ‌کر ان پر گولیاں چلانی شروع کر دی تھی، جواب میں پولیس نے بھی ان پر گولیاں چلائیں۔

حالانکہ گاؤں والوں  کا کہنا ہے کہ وہ ‘ بیج پنڈم ‘ تہوار پر گفتگو کرنے کے لئے اکٹھا ہوئے تھے کہ تبھی حفاظتی دستہ نے ان کو گھیر لیا اور ان پر گولیاں چلا دی۔ گاؤں والوں  کا کہنا ہے کہ اگلے دن ارپا رمیش نام کے شخص کو پولیس نے اس کے گھر سے اٹھا لیا اور اس کا قتل کر دیا گیا۔ چھتیس گڑھ کی اس وقت کی رمن سنگھ حکومت نے 11 جولائی 2012 کو اس واقعہ کی جوڈیشیل  جانچ‌کے حکم دئے تھے۔

جسٹس اگروال کے ذریعے رپورٹ سونپنے کی تصدیق کرتے ہوئے چھتیس گڑھ حکومت کے ایک سینئر افسر نے کہا، ‘ ایک رپورٹ ملی ہے۔ اس کو اب کابینہ  کے سامنے پیش کیا جائے‌گا۔ وہاں سے منظور ہونے کے بعد اس کو اسمبلی میں پیش کیا جائے‌گا۔ ‘ رپورٹ میں کہا گیا کہ دونوں فریقوں کی طرف سے گواہوں کے بیانات میں گڑ بڑی ہیں۔ ریکارڈ میں درج ثبوتوں اور حالات پر دوبارہ غور کرنے اور ان پر چرچہ کرنے کی ضرورت ہے۔

Next Article

مسافروں کو لے کرجا رہا ایئر انڈیا کا طیارہ احمد آباد ہوائی اڈے کے قریب حادثے کا شکار

لندن جارہا ایئر انڈیا کا طیارہ احمد آباد ایئرپورٹ سے ٹیک آف کے فوراً بعد حادثے کا شکار ہو گیا۔ طیارے میں 242 مسافر سوار تھے۔ ایئر انڈیا نے مسافروں اور ان کے اہل خانہ کو معلومات فراہم کرنے کے لیے ایک خصوصی ہیلپ لائن نمبر 1800 5691 444 جاری کیا ہے۔

احمد آباد ہوائی اڈے کے قریب طیارہ کے حادثے کا شکار ہونے کے بعد منظر، جمعرات، 12 جون، 2025 ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: لندن جانے والا ایئر انڈیا کا طیارہ آج احمد آباد ہوائی اڈے کے قریب حادثے کا شکار ہو گیا ۔کئی  لوگوں کے ہلاک اور زخمی ہونے کا اندیشہ ہے، حالاں کہ سرکاری طور پر اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔

ریاستی پولیس کنٹرول روم نے بتایا ہے کہ طیارے میں 242 مسافر سوار تھے۔ ٹی وی9گجراتی نے اطلاع دی ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ وجئے روپانی بھی اس میں سوار تھے۔

ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن نے کہا ہے کہ طیارہ احمد آباد سے ٹیک آف کے فوراً بعد گر کر تباہ ہو گیا۔ اس نے تصدیق کی ہے کہ طیارے میں دو پائلٹ اور 10 کیبن کریو سمیت 242 افراد سوار تھے۔ طیارے کی کمانڈ کیپٹن سمت سبھروال اور فرسٹ آفیسر کلائیو کندر کے ہاتھوں میں تھی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ 242 افراد میں 217 بالغ اور 11 بچے شامل ہیں۔

ایئر انڈیا نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ، ‘ آج احمد آباد سے لندن گیٹوک جا رہی فلائٹ اے آئی171 ٹیک آف کے بعد حادثے کا شکار ہوگئی۔ یہ پرواز احمد آباد سے دوپہر 1:38 پر روانہ ہوئی تھی اور  بوئنگ 787-8 طیارے میں کل 242 مسافر اور عملے کے ارکان سوار تھے ۔ ان میں سے 169 ہندوستانی شہری ، 53 برطانوی شہری ، 1 کینیڈین شہری اور 7 پرتگالی شہری تھے۔ زخمیوں کو قریبی اسپتالوں میں لے جایا جا رہا ہے۔ ایئر انڈیا نے مسافروں اور ان کے اہل خانہ کو معلومات فراہم کرنے کے لیے ایک خصوصی ہیلپ لائن نمبر 1800 5691 444 جاری کیا ہے ۔ ایئر انڈیا اس واقعے کی تحقیقات کرنے والے اہلکاروں کے ساتھ مکمل تعاون کر رہا ہے۔ ‘

تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے شہری ہوابازی کے وزیر رام موہن نائیڈو نے ایکس پر لکھا ، ‘احمد آباد میں فلائٹ حادثے کی خبر سے صدمے میں ہوں اور غمزدہ ہوں۔ ہم نے اعلیٰ سطح کی چوکسی اختیار کی ہے۔ میں خود صورتحال کی نگرانی کر رہا ہوں اور تمام ہوا بازی اور ہنگامی اداروں کو فوری اور مربوط کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ریسکیو ٹیمیں موقع پر روانہ کر دی گئی ہیں اور زخمیوں کو فوری طبی امداد اور ریلیف فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ میری تعزیت اور دعائیں طیارے میں سوار تمام لوگوں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔’

واقعے کے ویڈیو میں میگھانی نگر کے قریب دھارپور علاقے سے شدید دھوئیں کا غبار اٹھتے دیکھا جا سکتا ہے۔ کچھ اکاؤنٹس کا کہنا ہے کہ حادثہ فرانزک کراس روڈ پر پیش آیا۔

گجرات کے وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل نے ایکس پر پوسٹ کیا کہ زخمی مسافروں کو علاج کے لیے لے جانے کے لیے گرین کوریڈور کا انتظام کرنے اور اسپتال میں علاج کے تمام انتظامات کو ترجیحی بنیادوں پر یقینی بنانے کی ہدایات دی گئی ہیں۔

پٹیل نے اموات پر غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ‘وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی مجھ سے بات کی اور اس طیارہ حادثے میں بچاؤ اور امدادی کارروائیوں کے لیے این ڈی آر ایف ٹیموں اور مرکزی حکومت کے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔’

مرکزی شہری ہوابازی کے وزیر رام موہن نائیڈو کنجراپو نے بھی ایکس پر ایک پیغام پوسٹ کیا ؛ ‘احمد آباد میں ہوائی جہاز کے حادثے کے بارے میں جان کر صدمے میں ہوں۔’

انہوں نے کہا، ‘ہم ہائی الرٹ پر ہیں۔ میں ذاتی طور پر صورتحال کی نگرانی کر رہا ہوں اور تمام ایوی ایشن اور ایمرجنسی رسپانس ایجنسیوں کو فوری اور مربوط کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ریسکیو ٹیمیں تعینات کر دی گئی ہیں، اور طبی امداد اور راحت کے کام کو جائے وقوعہ پر پہنچانے کو یقینی بنانے کی تمام کوششیں کی جا رہی ہیں۔ میری تعزیت اور دعائیں طیارے میں سوار تمام افراد اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔’

ایئر انڈیا کے چیئرمین این چندر شیکھرن نے بھی غم کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘میں انتہائی دکھ کے ساتھ تصدیق کرتا ہوں کہ احمد آباد سے لندن گیٹوک کے لیے اڑان بھرنے والی ایئر انڈیا کی فلائٹ 171 آج ایک المناک حادثے کا شکار ہوگئی۔ ہماری تعزیت اس تباہ کن واقعے سے متاثرہ تمام افراد کے اہل خانہ اور پیاروں کے ساتھ ہے۔ اس وقت، ہماری بنیادی توجہ تمام متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کی مدد پر ہے۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘ہم سائٹ پر ایمرجنسی رسپانس ٹیموں کی مدد کرنے اور متاثرہ افراد کو تمام ضروری مدد اور دیکھ بھال فراہم کرنے کے لیے اپنے  اختیارات میں ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ جیسے ہی ہمیں مزید تصدیق شدہ معلومات موصول ہوں گی مزید اپڈیٹس کا اشتراک کیا جائے گا۔ ایک ہنگامی مرکز کو فعال کر دیا گیا ہے اور معلومات حاصل کرنے والے خاندانوں کے لیے ایک امدادی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔’

دریں اثنا، احمد آباد ہوائی اڈے کے آپریٹر اڈانی گروپ نے کہا کہ وہ حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

اڈانی گروپ کے چیئرمین گوتم اڈانی نے جمعرات کو کہا کہ احمد آباد ہوائی اڈے کے قریب ایئر انڈیا کے طیارہ  کے حادثے کا شکار ہونے کےبعد گروپ حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

احمد آباد ہوائی اڈہ اڈانی گروپ کے ماتحت چلایا جاتا ہے۔

گوتم اڈانی نے ایکس پر پوسٹ کیا، ‘ایئر انڈیا فلائٹ 171 کے سانحے سے ہم صدمے میں ہیں۔ ہماری تعزیت ان خاندانوں کے ساتھ ہے جنہیں ناقابل تصور نقصان پہنچا ہے۔ ہم تمام حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور زمین پر موجود خاندانوں کو مکمل تعاون فراہم کر رہے ہیں۔’

اس کے ساتھ ہی ایئر انڈیا کے طیارے کے حادثے کی وجہ سے احمد آباد کے سردار ولبھ بھائی پٹیل انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر فلائٹ آپریشن کو عارضی طور پر روک دیا گیا ہے۔

ایس وی پی آئی اےکے نمائندے نے اعلان کیا، ‘سردار ولبھ بھائی پٹیل بین الاقوامی ہوائی اڈہ(ایس وی پی آئی اے)، احمد آباد ایئر انڈیا کے طیارے کے حادثے کے نتیجے میں فی الحال کام نہیں کر رہا ہے۔ تمام فلائٹ آپریشنز کو اگلے نوٹس تک عارضی طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔’

Next Article

ہریانہ پولیس نے محمود آباد کی گرفتاری پر نوٹس کا اب تک جواب نہیں دیا: ہیومن رائٹس کمیشن

این ایچ آر سی نے اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کی گرفتاری کا از خود نوٹس لیتے ہوئےاسے پہلی نظر میں استاد کے انسانی حقوق اور آزادی کی  خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ اب کمیشن نے بتایا ہے کہ ہریانہ پولیس نے ایک ہفتہ کی ڈیڈلائن ختم ہونے کے باوجود اس کے نوٹس کا جواب نہیں دیا ہے۔

علی خان محمود آباد۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (این ایچ آر سی) نے کہا ہے کہ ہریانہ پولیس نے آپریشن سیندور پر تبصرے کے لیے اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کی حال ہی میں ہوئی گرفتاری پر کمیشن کی طرف سے جاری نوٹس کا جواب نہیں دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ، گزشتہ ماہ این ایچ آر سی نے محمود آباد کی گرفتاری کا از خود نوٹس لیا تھا اور کہا تھا کہ پہلی نظر میں محمود آباد کے انسانی حقوق اور آزادی کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

اس سلسلے میں دی ہندو کی جانب سے دائر کردہ حق اطلاعات قانون 2005 کے تحت ایک درخواست کے جواب میں این ایچ آر سی نے کہا کہ ہریانہ پولیس نے ایک ہفتہ کی ڈیڈ لائن کے اندر اس کے نوٹس کا جواب نہیں دیا، جو 27 مئی کو ختم ہوگئی ۔

اخبار کو دیے گئے جواب میں این ایچ آر سی نے کہا کہ کمیشن نے سوموار (10 جون) کو ہریانہ پولیس کو ایک ریمائنڈر بھیجا ہے اور معاملہ ابھی بھی زیر سماعت ہے۔

اس سے قبل، این ایچ آر سینے 21 مئی کو ایک پریس ریلیز میں کہا تھا، ‘نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن(این ایچ آر سی)، انڈیا کو ہریانہ میں اشوکا یونیورسٹی (ایک ڈیمڈ یونیورسٹی) کے پروفیسر کی گرفتاری اور حراستی ریمانڈ کے حوالے سے  20 مئی 2025 کو  ایک رپورٹ ملی ہے۔’

کمیشن نے مزید کہا تھا کہ ‘کمیشن نے پایا ہے کہ یہ رپورٹ، جس میں ان الزامات کا خلاصہ ہے جن کی بنیاد پر اسے گرفتار کیا گیا ہے، پہلی نظر میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ مذکورہ پروفیسر کے انسانی حقوق اور آزادی کے حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اس لیے کمیشن نے رپورٹ شدہ واقعے کا ازخود نوٹس لینا مناسب سمجھا ہے۔’

معلوم ہو کہ 18 مئی کو ہریانہ پولیس نے محمود آباد کو پاکستان کے خلاف ہندوستان کے آپریشن سیندور پر تبصرے پرسیڈیشن اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

اس کے بعد 21 مئی کو سپریم کورٹ نے محمود آباد کو سخت شرائط کے ساتھ عبوری ضمانت دی تھی۔ عدالت نے ان کی دو سوشل میڈیا پوسٹ کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا بھی حکم دیا تھا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ وہ اس  معاملے سے متعلق مسائل پر نہ تو لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی تقریر کر سکتے ہیں۔

محمود آباد کو سیڈیشن اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا

غور طلب ہے کہ محمود آباد کو سیڈیشن اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس سے قبل ہریانہ اسٹیٹ ویمن کمیشن نے محمود آباد کو پاکستان کے خلاف ہندوستان کے آپریشن سیندور کے بعد سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے پر طلب کیا تھا۔

ان کے خلاف ہریانہ میں بی جے پی کے یووا مورچہ کے جنرل سکریٹری یوگیش جٹھیری نے شکایت درج کروائی تھی۔ پولیس کی طرف سے درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق، جٹھیری ہریانہ کے ایک گاؤں کے سرپنچ ہیں، اور محمود آباد کے تبصرے سے انہیں تکلیف ہوئی  ہے۔

محمود آباد پر بھارتیہ نیائے سنہتا کی دفعہ 152 کے تحت ‘ہندوستان کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والے اقدامات’ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

ان پر قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے، شہریوں کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کے ارادے سے دانستہ اور متعصب کام کرنے، مذہب، نسل، مقام پیدائش، رہائش، زبان، ذات یا برادری کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی یا دشمنی، نفرت یا بغض و عداوت کے جذبات کو فروغ دینے یا فروغ دینے کی کوشش کرنے کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔

واضح ہو کہ محمود آباد پر حساس وقت میں لوگوں کو ملک کے خلاف اکسانے کا الزام ہے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ‘ایسے حساس وقت میں بیرونی طاقتوں کے خلاف لڑنے کے لیے لوگوں کو متحد کرنے کے بجائے پروفیسر جذبات کو بھڑکاتے رہے اور مذہب کے نام پر بیرونی یا غیر ملکی طاقتوں کو فائدہ پہنچانے کا کام کرتے رہے۔’

وہ تبصرہ کیا تھا؟

آٹھ  مئی کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے اشوکا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ محمود آباد نے کرنل صوفیہ قریشی کی ستائش کرنے والے ہندوتوایوں کے تضاد کو اجاگر کیا تھا۔ محمود آباد نے کہا تھا کہ کرنل قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کی پریس بریفنگ ایک علامت کے طور پر اہم تھی، لیکن اسے زمینی حقیقت میں بدلنا ہوگا، ورنہ یہ محض منافقت ہے۔

اس کے بعد ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے دعویٰ کیا تھا کہ محمود آباد کے تبصرے نے ہندوستانی مسلح افواج میں خواتین افسران کی توہین کی اور فرقہ وارانہ منافرت کو فروغ دیا۔

خواتین کمیشن کے جواب میں محمود آباد نے کہا تھا کہ ‘میرے تبصرے کو مکمل طور پر غلط سمجھا گیا ہے اور کمیشن کے پاس اس معاملے میں کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے… مجھے جاری کیے گئے سمن اس بات کو اجاگر کرنے میں ناکام رہے کہ میری پوسٹ کس طرح خواتین کے حقوق یا قوانین کے خلاف ہے۔’

محمود آباد کے مطابق، ‘میں نے کرنل قریشی کی حمایت کرنے والے دائیں بازو کے لوگوں کی بھی تعریف کی اور ان سے عام ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ  بھی یہی رویہ اپنانے کے لیے کہا، جو روزانہ ہراسانی  کا سامنا کرتے ہیں… میرا تبصرہ شہریوں اور فوجیوں دونوں کی سلامتی کے بارے میں تھا۔ اس کے علاوہ، میرے تبصروں میں دور دور تک کوئی بدگمانی نہیں ہے۔’

Next Article

کانگریس نے جس یو اے پی اے قانون کو پاس کیا تھا، اب اسی کے ’غلط استعمال‘ پر اٹھائے سوال

کانگریس نے مودی حکومت پر یو اے پی اے کا غلط استعمال کرتے ہوئے اختلاف رائے کو دبانے کا الزام لگایا ہے۔ پارٹی کے سینئر لیڈر پون کھیڑا نے طلبہ، صحافیوں اور کارکنوں کی گرفتاریوں پرتشویش کا اظہار کیا۔ تاہم، اقتدار میں رہتے ہوئے کانگریس  نے ہی اس قانون کی بنیاد رکھی تھی اور اس میں سخت دفعات شامل کیےتھے۔

(السٹریشن : دی وائر)

نئی دہلی: کانگریس نے بدھ (11 جون) کو غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) پر سخت تنقید کی اور الزام لگایا کہ نریندر مودی حکومت نے اختلاف رائے کی آوازوں کو دبانے کے لیے اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔

دی ٹیلی گراف نے لکھا ہے کہ المیہ یہ ہے کہ اس قانون کو کانگریس ہی لے کر آئی تھی اور ان دفعات کو شامل کیا تھا، جنہیں وہ اب ‘سفاک’ اور ‘خطرناک طور پر غلط استعمال’ کا ہتھیار قرار دے رہی ہے۔

کانگریس لیڈر پون کھیرا نے ایکس پر لکھا،’مودی حکومت کے دور میں اختلافات کو دبانے اور انصاف میں تاخیر کے لیے قانون کے استعمال میں  اضافہ ہوا ہے۔ 2014 سے 2022 کے درمیان یو اے پی اےکے 8719 مقدمات میں سے صرف 2.55فیصد میں سزا سنائی گئی- جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس قانون کا استعمال ناقدین، طالبعلموں، صحافیوں اور کارکنوں  کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا۔ مقدمے کی سماعت سے پہلے ہی مجرم مان لینا، سوشل میڈیا اور میڈیا کی جانب سے فیصلہ کر دینا، اور سپریم کورٹ کی طرف سے حال ہی میں ہیبیس کارپس کی درخواستوں کو مسترد کر دینا- یہ سب نظام انصاف میں بحران کو شدید کررہے ہیں۔’

کھیڑا نے بھیما کورےگاؤں کیس، دہلی فسادات کی سازش، نیوز کلک پورٹل پر کارروائی اور صحافیوں اور کارکنوں کی گرفتاری جیسے معاملات کا ذکر کیا۔

کھیڑا نے جیل میں بند انسانی حقوق کے کارکن عمر خالد کے لکھے گئے ایک حالیہ خط کا لنک بھی شیئر کیا۔ عمر 2020 سے دہلی فسادات کی سازش کیس میں بغیر کسی ٹرائل کے جیل میں ہیں۔

کھیڑا نے لکھا، ‘دراصل، ان میں سے زیادہ تر مقدمات ان لوگوں کے خلاف انتقامی جذبے سے درج کیے گئے ہیں جو اس حکومت کو چیلنج کر رہے تھے۔ عدالتیں اس غلط استعمال کو بارہا بے نقاب کر چکی ہیں۔ دہلی ہائی کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ ‘احتجاج دہشت گردی نہیں ہے’ اور اسی بنیاد پر دیوانگنا کلیتا، نتاشا نروال اور آصف تنہا کو رہا کیا۔ سپریم کورٹ نے صحافی محمد زبیر اور ماحولیاتی کارکن دیشا روی کو رہا کر تے ہوئے گرفتاری پر تنقید کی اورکہا کہ یہ اظہار رائے کی آزادی کو دبانے کی کوشش ہے۔’

‘ہندوستان کی جمہوریت کی حفاظت پرامن اختلاف رائے اور اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ سے شروع ہوتی ہے۔ لیکن یواےپی اےجیسے قوانین کا خطرناک اور غلط استعمال بنیادی آزادی کو ہی خطرے میں ڈال رہا ہے، اور یہ آئین پر بی جے پی کے وسیع حملے کا حصہ ہے،’ انہوں نے مزید کہا۔

قابل ذکر ہے کہ یو اے پی اے کو پہلی بار کانگریس حکومت نے 1967 میں پاس کیا تھا۔ اسے 2004 میں مزید سخت کیا گیا تھا جب منموہن سنگھ حکومت نے اس میں پچھلے پوٹا قانون کی کئی دفعات شامل کی تھیں۔ 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد یو پی اے حکومت نے کچھ دفعات شامل کیں جو ناقدین کے مطابق ‘من مانی گرفتاری’ کی حوصلہ افزائی کرتی تھیں۔ ان ترامیم کے تحت دفعہ 43ڈی (5) کے ذریعے ضمانت حاصل کرنا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ۔

سال 2019 میں جب مودی حکومت نے لوگوں کو ‘دہشت گرد’ قرار دینے اور قانون کے دائرہ کار کو بڑھانے کے لیے یواے پی اےمیں ترمیم کی تجویز پیش کی، تو کانگریس نے لوک سبھا میں اس کی مخالفت کی۔ لیکن اس نے راجیہ سبھا میں ان ترامیم کی حمایت کی، شاید اس کا مقصد پارٹی کی شبیہ کو انسداد دہشت گردی کے طور پر برقرار رکھنا تھا۔ اس حمایت نے کانگریس کے کچھ اتحادیوں کو ناراض بھی کر دیاتھا۔

اس کے بعد 2021 میں، جب بھیما کورےگاؤں کیس میں گرفتار قبائلی حقوق کے کارکن اسٹین سوامی کی عدالتی حراست میں موت ہو گئی، تو کانگریس رہنما (بعد میں ایم پی) ششی کانت سینتھل نے پارٹی میگزین کانگریس سندیش میں ایک تعزیتی مضمون لکھا اور اسے ‘انسٹی ٹیوشنل مرڈر’ قرار دیا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ کانگریس اس وقت مہاراشٹر میں شیو سینا (ادھو ٹھاکرے) کی حکومت میں شریک تھی، جب اسٹین سوامی کو پانی پینے کے لیے سیپر استعمال کرنے کی اجازت لینے کے لیے عدالت سے رجوع کرنا پڑا تھا — وہ پارکنسن کے مرض میں مبتلا تھے۔

تاہم، کانگریس نے ادھو ٹھاکرے کے  کیس کو این آئی اے (نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی) کے حوالے کرنے کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

سینتھل نے لکھا، ‘حالیہ برسوں میں ہم نے یواے پی اےیا سیڈیشن جیسی دفعات کے تحت کئی گرفتاریاں دیکھی ہیں، جن کا مقصد احتجاج کی آوازوں کو دبانا یا سیاسی انتقام لینا تھا۔ ہر گرفتاری موجودہ حکومت کے نظریے کو بے نقاب کرتی ہے… اسٹین سوامی کی گرفتاری اور ادارہ جاتی قتل نے عام لوگوں کے ذہنوں میں تین اہم سوالوں کو گہرا کر دیا ۔’

انہوں نے تین مسائل درج کیے؛(الف) قبائلیوں کی حالت زار، (ب) ہندو راشٹر کے پوشیدہ ایجنڈے کو نافذ کرنے میں موجودہ حکومت کی سفاکیت (ج) ہمارے نظام انصاف کی قابل رحم حالت۔

جنوری 2023 میں جب منی پور میں دومدیر کو گرفتار کیا گیا، تو کانگریس نے یو اے پی اے کو’سفاک’ کہا۔

کھیڑا نے تب کہا تھا، ‘پریس کی آزادی کو کچلنے، صحافیوں کو چن چن کر نشانہ بنانے اور یواے پی اے جیسے سخت قوانین کا غلط استعمال کرنے کا مودی حکومت کا ریکارڈ واضح طور پرآمرانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔’

Next Article

اپنے مذہب سے باہر شادی کرنے پر جیل  رسید نہیں کیا جا سکتا: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے ایک ایک ہندو خاتون سے شادی کرنے کے بعد تقریباً چھ ماہ سے  جیل میں بند ایک مسلمان شخص کو ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ دو بالغ افراد کے آپسی رضامندی سے ساتھ رہنے پر صرف اس لیے اعتراض نہیں کر سکتا کہ وہ الگ الگ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے ایک ہندو خاتون سے شادی کرنے کے بعد تقریباً چھ ماہ سےجیل میں بند ایک مسلمان شخص کو ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ ریاست دو بالغ افراد کےآپسی رضامندی سے ساتھ رہنے پر صرف اس لیے اعتراض نہیں کر سکتی کہ وہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس بی وی ناگرتنا اور ستیش چندر شرما کی بنچ نے ایک شخص کی اپیل کو قبول کرتے ہوئے یہ حکم دیا، جنہیں اتراکھنڈ ہائی کورٹ نےفروری 2025 میں ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا ۔

درخواست گزار کو اتراکھنڈ فریڈم آف ریلیجن ایکٹ 2018 اور انڈین جسٹس کوڈ 2023 کی دفعات کے تحت اپنی مذہبی شناخت چھپانے اور دھوکہ دہی سے ہندو رسم و رواج کے تحت خاتون سے شادی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ایک حالیہ فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا، ‘مدعا علیہ-ریاست کو اپیل کنندہ اور ان کی بیوی کے ساتھ رہنے پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا، کیونکہ انہوں نے اپنے والدین اور خاندانوں کی مرضی کے مطابق شادی کی ہے۔’

بنچ نے مزید واضح کیا کہ جاری فوجداری کارروائی جوڑے کی اپنی مرضی سے ساتھ رہنے کی راہ میں آڑےنہیں آئے گی۔

عدالت نے درخواست گزار کو ضمانت پر رہا کرنے کی ہدایت دی، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ وہ تقریباً چھ ماہ سے جیل میں ہیں اور ان کے خلاف چارج شیٹ پہلے ہی داخل کی جا چکی ہے۔ بنچ نے کہا،’ریکارڈ پر موجود حقائق کو دیکھتے ہوئے ہمارے خیال میں ضمانت کا معاملہ بنتا ہے۔’

عدالت نے درخواست گزار کے سینئر وکیل کی طرف سے پیش کی گئی دلیل پر بھی غور کیا، جنہوں نے استدلال کیا کہ کچھ افراد اور تنظیموں کی جانب سے بین المذاہب شادی پر اعتراضات اٹھائے جانے کے بعد ہی ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ شادی دونوں خاندانوں کی مکمل معلومات اور موجودگی میں ہوئی اور صدیقی نے شادی کے اگلے دن حلف نامہ دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کرے گا اور وہ اپنے مذہب کی پیروی کرنے کے لیے آزاد ہوگی۔

جوڑے نے 10 دسمبر کو شادی کی تھی، جس کے صرف دو دن بعد متعلقہ ایف آئی آر اتراکھنڈ کے ادھم سنگھ نگر ضلع کے رودر پور تھانے میں 12 دسمبر 2024 کو درج کی گئی تھی۔ اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے پہلے صدیقی کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا، یہ کہتے ہوئے کہ اس کے مذہب سے متعلق حقائق مبینہ طور پر اس کے خاندان کو ظاہر نہیں کیے گئے تھے اور شادی سے پہلے اس کے خاندان کو نہیں بتایا گیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ 28 فروری کو ضمانت مسترد کرنے کے اپنے فیصلے میں ہائی کورٹ نے استغاثہ کی اس دلیل کو قبول کیا کہ اس شخص کی مذہبی شناخت کو جان بوجھ کر چھپایا گیا تھا۔ ہائی کورٹ نے پایا کہ شادی ہندو رسم و رواج کے تحت کی گئی تھی، لیکن درخواست گزار اور اس کے خاندان نے شادی کے بعد تک اپنی مسلم شناخت ظاہر نہیں کی۔

شکایت خاتون کے ایک چچازاد کی طرف سے درج کروائی گئی تھی، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ خاندان کو دولہے کے مذہبی پس منظر کے بارے میں دہلی میں اس کے گھر جانے کے بعد ہی معلوم ہوا جہاں انہوں نے دیکھا کہ ‘زیادہ تر لوگ دوسری برادری کے تھے۔’ 11 دسمبر کو صدیقی کی طرف سے داخل کردہ حلف نامہ کے باوجود اگلے ہی دن ایف آئی آر درج کی گئی، جس میں انہوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اپنی بیوی کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کریں گے اور ان کی مذہبی خودمختاری کا احترام کریں گے۔

جبکہ صدیقی کے وکیل نے اس بات پرزور دیا کہ ان کی والدہ ہندو ہیں اور وہ ہندو ماحول میں پلے بڑھے ہیں، ہائی کورٹ کو اس سے اتفاق نہیں تھا۔ اس نے نوٹ کیا کہ جوڑے نے اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت شادی نہیں کی تھی، جو کہ ہندوستان میں بین مذہبی شادیوں کو کنٹرول کرتا ہے، اور یہ کہ اہم حقائق مبینہ طور پر خاتون کے خاندان سے چھپائے گئے تھے، حلف نامے کو ثبوت کے طور پر نشان زد کرتے ہوئے کہا کہ ‘صحیح حقائق کا انکشاف نہیں کیا گیا تھا۔’

اس دفاع کو مسترد کرتے ہوئے کہ یہ باتیں دونوں فریقوں کو معلوم تھیں، ہائی کورٹ نے نتیجہ اخذ کیا، ‘درخواست گزار ضمانت کا حقدار نہیں ہے۔’

اس کے برعکس، سپریم کورٹ نے اس معاملے کو ذاتی آزادی اور ازدواجی خود مختاری کے نقطہ نظر سے دیکھا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ ریاست مذہبی اختلافات کی بنیاد پر بالغ افراد کے ساتھ رہنے کے حق کو سلب نہیں کر سکتی۔

بنچ نے کہا، ‘یہ ایک موزوں کیس ہے جس میں ضمانت کی راحت ملنی چاہیے۔’ بنچ نے عرضی گزار کی دلیل کو نوٹ کیا کہ جوڑے اپنے خاندانوں سے الگ رہنے کا انتخاب کر سکتے ہیں اور بغیر کسی رکاوٹ کے سکون سے رہ سکتے ہیں۔

Next Article

ڈرائنگ رومز اور وہاٹس ایپ جرنیلوں کے نام

شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے  ڈرائنگ رومز کو جنگی ہیڈکوارٹر کے بجائے امن کے مراکز میں بدلیں۔ جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں، ذہنوں سے بھی لڑی جاتی ہے۔ اگر ہم صرف نفرت، افواہوں اور پوائنٹ اسکورنگ میں الجھے رہے، تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے بچے فلمی اور اصلی جنگ کا فرق بھول جائیں گے۔

علامتی تصویر: پی ٹی آئی

مئی کے مہینے میں، جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالات اس قدر کشیدہ ہو گئے کہ جنگ کی گھنٹیاں بجنے لگیں،  سرحدوں پر فوجیں صف آرا تھیں اور میزائل سرحد پار کر رہے تھے،  تو اصل لڑائی شہروں، محلوں، چائے خانوں اور ڈرائنگ رومز میں لڑی جا رہی تھی۔ نہ وردی کی ضرورت تھی، نہ تربیت کی۔ ہر شخص وہاٹس ایپ پر جرنیل بنا بیٹھا تھا۔ ہر دوسرا فرد اسٹریٹجک تجزیہ کار بن کر عسکری مشورے دے رہا تھا۔

جیسے کرکٹ میچ کے دوران ہر شائق ماہر کوچ بن جاتا ہے، ویسے ہی مئی کی اس کشیدگی کے دوران ہر فرد اپنی رائے دے رہا تھا—کب، کہاں، اور کیسے حملہ ہونا چاہیے۔

دہلی کی ہماری رہائشی سوسائٹی گروپ میں ایک آنٹی نے بیلسٹک میزائل ٹکنالوجی پر ایک لمبی پوسٹ شیئر کی ۔ دعویٰ کیا گیا کہ یہ معلومات انہیں اپنے کزن سے ملی، جو فضائیہ میں کام کرتا تھا۔

بعد ازاں پتہ چلا کہ وہ کزن دراصل تنخواہوں والے اکاؤنٹس سیکشن میں تھا، اور اس کا میزائلوں سے اتنا ہی تعلق تھا جتنا ایک اکاؤنٹنٹ کا میزائل لانچر سے ہو سکتا ہے۔

اسی گروپ میں ایک انکل جو جنگی مشورہ دے رہے تھے سے پوچھا گیا کہ ان کی عسکری قابلیت کیا ہے؟، تو انہوں نے اعلان کیا ؛’میں نے ‘بارڈر’ اور ‘اوڑی’ فلمیں دس بار دیکھی ہیں، مجھے جنگ کی باریکیاں بخوبی معلوم ہیں ‘ اعتراضات کرنے والوں پر انہوں نے ملک دشمنی کا الزام لگا کر چپ کروادیا۔

دہلی کے ایک پوش علاقے کے وہاٹس ایپ گروپوں میں گویا جنگ چھڑ گئی تھی ،جب پاکستان پر ہندوستان نے میزائلوں سے حملے کیے ،ٹی وی پر جب وہ جگہیں دکھائی جا رہی تھیں۔ ایک آنٹی نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا،’ارے بھئی، عمارت تو جوں کی توں کھڑی ہے! مرنے والے بھی وردی میں نہیں تھے۔’

ان کی سب سے بڑی شکایت یہ تھی کہ میزائل نے عمارت پر عمودی حملہ نہیں کیا تھا، بلکہ قوس کی شکل میں گرا۔’یہ کیا طریقہ ہوا؟ میزائل تو اوپر سے سیدھا مارنا چاہیے تھا!’ انہوں نے لکھا تھا۔

ابھی دفاعی ترجمان کی پریس کانفرنس مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ سوشل میڈیا پر دفاعی حکمت عملی طے ہونے لگی تھی۔ ایک پان والے نے پوسٹ کیا تھا،’بھائی صاحب، وہ ہدف درست نہیں تھا۔ ہمیں ان کا تیل کا ذخیرہ ملتان میں اڑا دینا چاہیے تھا!’

ایک خاتون نے ٹوئٹر پر مشورہ دیا کہ انڈین ایئر فورس کو ملتان میں تھوکر نیاز بیگ کو نشانہ بنانا چاہیے، کیونکہ وہاں مبینہ طور پر ہندوستان مخالف عناصر موجود ہیں۔ بعد میں جب کسی نے ان کی تصحیح کی کہ تھوکر نیاز بیگ تو لاہور میں ہے، تو انہوں نے خاموشی سے پوسٹ ڈیلیٹ کر دی—اور اگلے دن اسٹریٹجک خاموشی اختیار کر لی۔

ہندوستانی نیوز چینلوں پر ایسا ماحول بن گیا تھا گویا گلیڈیئیٹرز کا میدان ہو۔ ایک خود ساختہ جنرل صاحب میز پر بیٹھے فرما رہے تھے؛

‘اگر میرے مشورے پر حملہ ہوتا، تو آج دشمن ہتھیار ڈال چکا ہوتا۔’

ایک شادی کی تقریب میں، دولہا ابھی ہال میں داخل بھی نہیں ہوا تھا کہ ایک ماموں صاحب نے گھونٹ بھرتے ہوئے کہا؛

‘یہ جو حملہ ہوا ہے نا، یہ الیکشن اسٹنٹ ہے۔ اصل حملہ تب ہوتا جب ہم ان کا ریڈار سسٹم تباہ کرتے۔’

دلہن کی خالہ نے کان میں سرگوشی کی؛

‘ارے چھوڑو حملہ، یہ بتاؤ، لڑکا کس رجمنٹ میں ہے؟’

جنوبی دہلی کے لاجپت نگر علاقے کے شرما جی، جو دن بھر لائف انشورنس کی پالیسیاں بیچتے ہیں، شام کو عسکری ماہر بن جاتے ہیں۔ وہ بھارتی فوج کو جیسلمیر کے قریب تعیناتی کی اسٹریٹجی سمجھا رہے تھے؛

‘اگر میں جنرل ہوتا، تو میں برہموس میزائل شمال مشرق سے چلاتا، مغرب سے نہیں۔ پھر دیکھتے وہ کیا کرتے!’

پھر فرمایا؛’ہائپرسانک میزائل استعمال کرنے چاہیے، جیسا روس نے کیا۔ سب سے پہلے پاکستان کے ڈرون ہیک کرو۔ میرے بیٹے کو ہیکنگ آتی ہے۔ ایرفورس کو اس کی خدمات لینی چاہیے !’

جب حقیقی جرنیل خطرات کا حساب لگا رہے تھے، تب وہاٹس ایپ کے سِم کارڈ جرنیل مشورے دے رہے تھے؛

‘بھائی، کراچی پر ایٹم بم پھینکو اور کھیل ختم کرو!’

ایک بابو نے مشورہ دیا؛

‘ریورس میزائل استعمال کرو، اگر انٹرسیپٹ ہو جائے تو واپس آ جائے گا!’

ایک خاتون نے صبح جھاڑو دیتے ہوئے دوسری سے کہا؛

‘بی بی، رات کے حملے کی آواز سنی؟’

جواب آیا؛

‘وہ میزائل نہیں تھا، میرا شوہر خراٹے مار رہا تھا!’

مگر سچ یہ ہے کہ سرحدوں پر جب گولیاں چلتی ہیں، جب لاشیں گرتی ہیں، تب صرف سپاہی نہیں، انسانیت بھی مرتی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ 2016 میں سرجیکل اسٹرائک کے بعد ایک معروف چینل کے ایڈیٹر جو خود کو اسٹریٹجک امور کے ماہر سمجھتے ہیں، کیونکہ ماضی میں پتہ نہیں کیوں پاکستان نے ان کو قبائلی علاقوں میں ڈاکو مینٹری بنانے کی اجازت دی، نے سرینگر کے ڈل گیٹ علاقے میں لائن آف کنٹرول کھینچ کر ایک کرنل کے ساتھ ایک گھنٹے کا لائیو شو کیا۔

وہ کرنل سے پوچھ رہے تھے کہ مظفر آباد تک پہنچنے میں فوج کو کتنا وقت لگے گا۔ ان کا جواب تھا کہ بس سترہ گھنٹوں میں قبضہ ہو جائےگا اگر راستہ میں ٹریفک جام نہ ہوا۔

ایسے ماحول میں، جہاں جوش کو حب الوطنی سمجھا جائے، وہاں اگر کوئی تجزیہ کار احتیاط کا مشورہ دے، تو اسے دشمن کا ایجنٹ سمجھا گیا۔ سفارت کار اگر جنگ سے بچنے کی بات کریں تو انہیں بزدل، اور صحافی سوال کریں تو غدار قرار دیا گیا۔

کیا ہم جانتے ہیں کہ آسٹریا کے آرچ ڈیوک فرڈیننڈ کے ایک قتل نے پہلی جنگ عظیم چھیڑ دی تھی؟

کیا ہم بھول گئے کہ نازی جرمنی کے فالس فلیگ حملے سے دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تھی، جس میں کروڑوں افراد مارے گئے؟

اور کیا ہم یاد رکھتے ہیں کہ جب واجپائی کو مشورہ دیا گیا کہ نیپال سے دہلی آنے والے اغوا شدہ طیارے کو لاہور میں تباہ کر دیں، تو انہوں نے انکار کیا؟ انہوں نے تین سو جانوں کو بچانے کو ترجیح دی، محض سفارتی پروپیگنڈے کی خاطرانہوں نے جانیں قربان کرنے سے انکار کردیا تھا۔

شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے ڈرائنگ رومز کو جنگی ہیڈکوارٹر کے بجائے امن کے مراکز میں بدلیں۔ جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں، ذہنوں سے بھی لڑی جاتی ہے۔ اگر ہم صرف نفرت، افواہوں اور پوائنٹ اسکورنگ میں الجھے رہے، تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے بچے فلمی اور اصلی جنگ کا فرق بھول جائیں گے۔

تب ہمیں احساس ہوگا کہ میزائل صرف پاکستان پر ہی نہیں، ہمارے شعور پر بھی گرے تھے۔