مدھیہ پردیش ہائی کورٹ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی سرگرمیوں میں سرکاری ملازمین کی شرکت سے متعلق ایک عرضی کی سماعت کر رہی تھی۔ اس دوران اس نے کہا کہ آر ایس ایس جیسی بین الاقوامی شہرت یافتہ تنظیم کو غلط طریقے سے ملک کی کالعدم تنظیموں میں رکھا گیا تھا، جس کی وجہ سے پانچ دہائیوں تک مرکزی حکومت کے ملازمین ملک کی خدمت نہیں کر سکے۔
(علامتی تصویر بہ شکریہ: Wikimedia Commons/Suyash Dwivedi/CC BY-SA 4.0)
نئی دہلی: مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے جمعرات (25 جولائی) کو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ‘ایسی باوقار تنظیم کو غلط طریقے سے ملک کی ممنوعہ تنظیموں ڈال دیا گیا تھا۔’
عدالت نے سرکاری افسران کے آر ایس ایس کی سرگرمیوں میں شامل ہونے یا اس میں حصہ لینے پر پابندی کے خلاف دائر کی گئی 2023 کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔
جسٹس سشروت اروند دھرمادھیکاری اور جسٹس گجیندر سنگھ کی بنچ نے کہا، ‘مرکزی حکومت کو اپنی غلطی کا احساس کرنے میں تقریباً پانچ دہائیاں لگ گئیں۔ حکومت کو یہ تسلیم کرنے میں اتنا وقت لگا کہ آر ایس ایس جیسی بین الاقوامی شہرت یافتہ تنظیم کو غلط طریقے سے ملک کی کالعدم تنظیموں میں رکھا گیا تھااور اسے
وہاں سے ہٹانا ضروری ہے ۔ اس پابندی کی وجہ سے ان پانچ دہائیوں میں کئی طرح سے ملک کی خدمت کرنے کے مرکزی حکومت کے ملازمین کے جذبے میں کمی آئی۔‘
بتا دیں کہ مرکزی حکومت کے ریٹائرڈ ملازم پرشوتم گپتا نے 1966 کی ہدایت کے خلاف ستمبر 2023 میں مدھیہ پردیش ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
دی ہندو کے مطابق ، پابندی ہٹائے جانے کے بعد یونین ڈپارٹمنٹ آف پرسنل اینڈ ٹریننگ (ڈی او پی ٹی)نے ایک حلف نامہ داکرتے ہوئے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کو اپنے 9 جولائی کو جاری کردہ میمورنڈم کے بارے میں مطلع کیا، جس میں آر ایس ایس کو کالعدم تنظیموں کی فہرست سے ہٹا دیا گیاتھا۔
‘آر ایس ایس کی سرگرمیوں کو کس بنیاد پر سیکولرازم کے خلاف سمجھا گیا؟’
عدالت نے سوال اٹھایا کہ آخرپابندی کیوں لگائی گئی تھی ۔عدالت نے
پوچھا ، ‘سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس مطالعہ یا بنیاد پر 1960 اور 70 کی دہائیوں میں آر ایس ایس کی سرگرمیوں کو فرقہ وارانہ یا سیکولرازم کے خلاف سمجھاگیا؛ وہ کون سی رپورٹ تھی، سروے تھا، جس کی بنیاد پر اس وقت کی حکومت اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ مرکزی حکومت کے ملازمین کی آر ایس ایس سے وابستگی ہے۔‘ عدالت نے آر ایس ایس کی معاون غیر سیاسی تنظیموں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک پر بھی سوال اٹھایا۔
عدالت نے ڈی او پی ٹی اور مرکزی وزارت داخلہ کو ہدایت دی کہ وہ 9 جولائی کے اپنے حکم کواپنی ویب سائٹس کے ہوم پیج پر اپلوڈ کرے اور تمام محکموں کو 15 دنوں کے اندر مطلع کرے۔
پابندی اور آر ایس ایس
آر ایس ایس ایک ہندو قوم پرست نیم فوجی تنظیم ہے، جس پر پہلی بار آزادی سے قبل جنوری 1947 میں پابندی عائد کی گئی تھی۔ اس وقت اسی طرح کی ایک اور نیم فوجی تنظیم مسلم نیشنل گارڈ پر بھی حکمران یونینسٹ پارٹی کے سربراہ ملک خضر حیات ٹوانہ نے پابندی لگا دی تھی۔ پابندی صرف 4 دن کے بعد ہٹا لی گئی تھی۔
مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد 1948 میں آر ایس ایس پر دوسری بار پابندی لگائی گئی تھی۔ تاہم، آر ایس ایس نے یہ ماننے سے انکار کردیا کہ قاتل ناتھورام گوڈسے ان کی تنظیم کا رکن ہے۔ لیکن اس وقت سردار پٹیل نے کہا تھا، ‘میرے ذہن میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ ہندو مہاسبھا کا ایک انتہا پسند طبقہ اس سازش (گاندھی کے قتل کی) میں ملوث تھا۔
آر ایس ایس کی سرگرمیاں حکومت اور ملک کے وجود کے لیے واضح خطرہ ہیں ۔ ہماری رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ پابندی کے باوجود، سرگرمیوں میں کمی نہیں آئی ہے۔ درحقیقت، جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، آر ایس ایس کے لوگ اور زیادہ جارح ہوتے گئے اور اپنی تباہ کن سرگرمیوں میں اضافہ کرتے چلے گئے۔‘
آر ایس ایس سے 11 جولائی 1949 کو اس شرط کے ساتھ پابندی ہٹا ئی گئی تھی کہ وہ ہندوستانی آئین اور قومی پرچم سے اپنی وفاداری کا اظہار کرے گی۔