اتر پردیش بی جے پی کی ریاستی ورکنگ کمیٹی کے ممبر اور سابق ایم ایل اے رام اقبال سنگھ نے کہا کہ مرکزی حکومت کوایم ایس پی گارنٹی قانون بنا دینا چاہیے اور اس قیمت پر خریداری نہ ہونے کوقابل اعتنا جرم قرار دینا چاہیے۔
نئی دہلی: اتر پردیش میں مقتدرہ بی جے پی کی ریاستی ورکنگ کمیٹی کے ممبر اورسابق ایم ایل اے رام اقبال سنگھ نے نئےزرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے کسانوں کے مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے جمعرات کو ایم ایس پی گارنٹی قانون بنانے کی پرزور وکالت کی۔
سنگھ نے بلیا میں نامہ نگاروں سے کہا کہ مرکز کی نریندر مودی سرکار کو نئےزرعی قانون بنانے سے پہلے کسانوں سے رائے مشورہ کرنا چاہیے تھا۔ اگر کسانوں کو اعتماد میں لےکریہ قانون بنائے گئے ہوتے تو وہ احتجاج نہیں کرتے۔
سابق ایم ایل اے نے کہا، ‘مرکزی حکومت کوایم ایس پی گارنٹی قانون بنا دینا چاہیے اور اس قیمت پر خریداری نہ ہونے کوقابل اعتنا جرم قرار دینا چاہیے۔’
انہوں نے کہا کہ اس وقت کسانوں کو نقصان ہو رہا ہے۔ سرکار نے پچھلے سال کے مقابلےایم ایس پی پرمحض 50 روپے کا اضافہ کیا ہے، جبکہ ڈیزل اور کھاد کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے زرعی پیداوار کے اخراجات کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔
خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق سنگھ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یوگی آدتیہ ناتھ کی سرکار کے تحت اتر پردیش میں پولیس اسٹیشنوں اور تحصیلوں کی حالت خراب ہے۔
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں لکھنؤ میں ہوئی بی جے پی کی ریاستی ورکنگ کمیٹی کی بیٹھک میں انہوں نے اس مدعے کو اٹھایا تھا۔
بتا دیں کہ اس سے پہلے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے کسانوں کی حمایت کرتے ہوئے میگھالیہ کے گورنر ستیہ پال ملک نے کہا تھا کہ مرکزی حکومت ایم ایس پی کو قانونی منظوری دے دیتی ہے تو مظاہرہ کر رہے کسان مان جائیں گے۔
معلوم ہو کہ معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کی جانب سے زراعت سے متعلق تین بل– کسان پیداوارٹرید اور کامرس(فروغ اور سہولت)بل، 2020، کسان (امپاورمنٹ اورتحفظ) پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل، 2020 اور ضروری اشیا(ترمیم)بل، 2020 کو گزشتہ27 ستمبر کو صدر نے منظوری دے دی تھی، جس کے خلاف کسان مظاہرہ کر رہے ہیں۔
کسانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ سرکار ان قوانین کے ذریعےایم ایس پی دلانے کے نظام کو ختم کر رہی ہے اور اگراس کو لاگو کیا جاتا ہے تو کسانوں کو تاجروں کے رحم پر جینا پڑےگا۔دوسری جانب مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی سرکار نے باربار اس سے انکار کیا ہے۔ سرکار ان قوانین کو ‘تاریخی زرعی اصلاح’ کا نام دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زرعی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل نظام بنا رہے ہیں۔
ان قوانین کے آنے سے بچولیوں کا رول ختم ہو جائےگا اور کسان اپنی اپج ملک میں کہیں بھی بیچ سکیں گے۔دوسری طرف مظاہرہ کر رہے کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان قوانین سے ایم ایس پی کا سکیورٹی کوراور منڈیاں بھی ختم ہو جائیں گی اورکھیتی بڑے کارپوریٹ گروپوں کے ہاتھ میں چلی جائےگی۔
اس کولےکرسرکار اور کسانوں کے بیچ 11 دور کی بات چیت ہو چکی ہے، لیکن ابھی تک کوئی حل نہیں نکل پایا ہے۔ کسان تینوں نئےزرعی قوانین کو پوری طرح واپس لیے جانے اورایم ایس پی کی قانونی گارنٹی دیےجانے کی اپنی مانگ پر پہلے کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)