سی بی آئی کسی بھی ملزم کو  پاس ورڈ بتانے کے لیے مجبور نہیں کر سکتی: کورٹ

بدعنوانی سے متعلق ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے دہلی کی ایک عدالت نے کہا کہ ملزم کو اس طرح کی جانکاری دینے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا اور اس سلسلے میں اس کو آئین ہند کے آرٹیکل 20(3) کے ساتھ–ساتھ ضابطہ فوجداری کی دفعہ161(2) کے ذریعے تحفظ حاصل ہے۔

بدعنوانی سے متعلق ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے دہلی کی ایک عدالت نے کہا کہ ملزم کو اس طرح کی جانکاری  دینے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا اور اس سلسلے میں اس کو آئین ہند کے آرٹیکل 20(3) کے ساتھ–ساتھ ضابطہ فوجداری کی دفعہ161(2) کے ذریعے تحفظ حاصل ہے۔

علامتی تصویر: Marco Verch/Flickr CC BY 2.0

علامتی تصویر: Marco Verch/Flickr CC BY 2.0

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے حال ہی میں ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کسی ملزم کو اپنا پاس ورڈ دینے کے لیے مجبور نہیں کر سکتا اور اس کی رضامندی کے بغیر یہ جانکاری  حاصل کرنا اپنے جرم کے خلاف حاصل حق کی خلاف ورزی ہو گی۔

رپورٹ کے مطابق، خصوصی جج نریش کمار لاکا نے بدعنوانی کے ایک معاملے میں ملزم کی تحویل سے ضبط کیے گئے کمپیوٹرز کے پاس ورڈ اور یوزر آئی ڈی مانگنے والی  سی بی آئی کی عرضی  کو مسترد کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔

غورطلب ہے کہ29  اکتوبر 2022 کو سنائے گئے فیصلے میں، جج نے کہا، …ملزم کو ایسی جانکاری دینے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا اور اس سلسلے میں اس کو ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 20 (3) کے ساتھ–ساتھ (ضابطہ فوجداری کی) دفعہ 161(2) کے ذریعےتحفظ حاصل ہے۔’

آئین کے آرٹیکل 20(3) میں یہ اہتمام  ہے کہ ‘کسی بھی جرم کےملزم کواپنے خلاف گواہ بننے کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا’، جبکہ سی آر پی سی کی دفعہ 161(2) میں کہا گیا  ہے کہ کوئی بھی شخص ایسے سوالوں کا جواب نہیں دے گا، ‘جس کی نوعیت  اسے مجرمانہ الزام یا سزا یا ضبطی کے لیےبے نقاب کرنے کی ہو’۔

عدالت نے واضح کیا کہ تفتیشی افسر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ماہر ایجنسی یا شخص کی مدد سے کمپیوٹر سسٹم اور اس کے سافٹ ویئر کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کر سکتا ہے حتیٰ کہ ملزم کے ڈیٹا ضائع ہونے کے خطرے کی صورت میں بھی۔

عدالت نے خصوصی طور پرپاس ورڈ اور بایو میٹرک جانکاری جیسے فنگر پرنٹس، چہرے یا آنکھوں کی پہچان  کے درمیان ایک لکیر کھینچی۔ جج نے کہا،… حال ہی میں نافذ فوجداری طریقہ کار (شناخت) ایکٹ، 2022 کے پیش نظر … اس عدالت کا خیال ہے کہ ملزم کے پاس ورڈ اور بایو میٹرکس کے لیے ایک الگ طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ کیس ستمبر 2020 میں سی بی آئی کی جانب سے کی گئی ان گرفتاریوں سے متعلق ہے، جب سینٹرل بورڈ آف ان ڈائریکٹ  ٹیکس (سی بی آئی ٹی) کے ایک سابق ڈپٹی کمشنر اور دو دیگر پر رشوت لینے کا الزام لگایا گیا تھا۔ انہوں نے حکام کے ذریعے روکی گئی امپورٹیڈ کھلونوں کی ایک کھیپ کو منظوری دلانے کے لیے مبینہ طور پر سرکاری ملازمین کو لالچ دینے کی   سازش کی تھی۔

سی بی آئی پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم کو اس شرط پر ضمانت پر رہا کیا گیا ہے کہ وہ جانچ میں تعاون کرے گا اور مانگی گئی جانکاری  سے منصفانہ تفتیش ہوسکےگی۔

بتادیں کہ48 صفحات کے فیصلے میں، سی بی آئی عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس بات کی نشاندہی کے لیے ایک ٹیسٹ طے کیا ہے کہ کیا کوئی خاص حقیقت، معلومات، گواہی یا ثبوت ‘ بیان سے متعلق حقائق ‘ یا ‘مادی مواد یا ثبوت’ کے زمرے میں آتا ہے۔

پہلے زمرے کو آئین کے آرٹیکل 20(3) کے ذریعے تحفظ حاصل ہے اور اس وجہ سے ملزم یہ جانکاری  فراہم کرنے کومجبور نہیں ہے، لیکن دوسرے زمرے میں  تحفظ حاصل نہیں ہے اور یہ کسی ملزم شخص کومجبور کر کے حاصل کی جا سکتی ہے۔

لائیو لاءکی طرف سے دستیاب کرائی گئی فیصلے کی کاپی میں کہا گیا ہے، موجودہ درخواست میں، سی بی آئی /جانچ  افسر ملزم سے اس کے کمپیوٹر کا پاس ورڈ مانگ رہے ہیں، تاکہ اس کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کی جا سکے، یہ موازانہ یا پہچان کے مقصد کے لیے نہیں ہے۔ اس لیے انکوائری آفیسر کی مذکورہ درخواست پہلےزمرے میں آتی ہے۔

سپریم کورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے فیصلے میں کہا گیا کہ چونکہ جھوٹ کا پتہ لگانے کے ٹیسٹ کے نارکو تجزیہ میں ملزم کی ذاتی معلومات شامل ہوتی ہیں اور یہ طریقہ کار ملزم کی رضامندی کے بغیر نہیں اپنایاجا سکتا، یہی منطق پاس ورڈ پر بھی لاگو ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ، عدالت نے کہا کہ کسی ملزم کو ایسا سکیورٹی پیٹرن بنانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، جو ایک  فون یا کسی دوسرے الکٹرانک ڈیوائس کو ان لاک کرتا ہے کیونکہ اس کے لیے ذہن اور ذاتی معلومات کے استعمال کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ پاس ورڈ کی طرح ہوتا ہے۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان میں غیر قانونی طریقوں سے یا قانون کے عمل کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حاصل کیے گئے شواہد کو اب بھی بعض حالات میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لہذا، یہ خطرہ ہے کہ اگر کسی ملزم کو اپنا پاس ورڈ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اس تک رسائی حاصل کردہ ڈیٹا سے کچھ پتہ چلتا ہے جو ‘ملزم کے خلاف جا سکتا ہے’، تو اس سے اپنے خلاف  جرم کرنے کےسلسلے میں حاصل  حق کے خطرے میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔