ذات پر مبنی مردم شماری کے مخالفین کا اصرار ہے کہ یہ ایک تفرقہ انگیز اقدام ہے کیونکہ اس سے نسلی تفاخر کے احساس کو بڑھاوا ملےگا اور یہ معاشرے میں نسلی تعصب کا موجب بھی بنے گی۔ یہ دلیل صدیوں پرانی ہے اور جدوجہد آزادی کے زمانے سے ہی مقتدرہ حلقوں نے اس کا سہارا لیا ہے۔ یہ نام نہاد ‘اشرافیہ’ کا نظریہ ہے، خواہ اس پر ترقی پسندی کا لبادہ ڈال دیا گیا ہو۔
(السٹریشن بہ شکریہ:پکسابے)
(مضمون نگار کی جانب سے نوٹ : یہ مضمون دینک بھاسکر کی درخواست پر تحریر کیا گیا تھا، لیکن اس کو اس قدر تکلیف دہ پایا گیا کہ اس کی اشاعت سے انکار کر دیا گیا۔)
آج کی زبان میں مردم شماری معاشرے کی ہمہ گیر سیلفی ہے،مگرانتہائی خاص سیلفی؛ کیونکہ اس میں ہمارے ملک کا ہر باشندہ شامل ہوتاہے،جس کے باعث ملک و قوم کا اجتماعی سیلف پورٹریٹ بنتا ہے اور خاص اس لیے بھی کہ اس سیلفی کو ہم آپ نہیں صرف حکومت لے سکتی ہے۔ لیکن سیلفی کے اس دور میں مردم شماری پر تنازعہ کیوں؟
دراصل تنازعہ مردم شماری کے حوالےسے نہیں ذات پر مبنی مردم شماری کے سلسلے میں ہے۔ ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ پرانا ہے، لیکن گزشتہ تین دہائیوں میں یعنی 1990-91 کے منڈل—موڑ کے بعداس نے زور پکڑا ہے۔
حامیوں کا کہنا ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری کے حوالے سےجامع اور درست معلومات کی دستیابی سے ترقیاتی پروگراموں اور فلاحی اسکیموں کو صحیح سمت دی جا سکتی ہے۔ سیاسی عزائم یہ بھی ہیں کہ ذات پر مبنی اعداد و شمار سے عدم مساوات کی حقیقی تصویرسامنے آئے گی، جس کی وجہ سے تحریکوں اور سیاسی جماعتوں کو نئی توانائی ملے گی اور اجتماعی وسائل کی منصفانہ تقسیم بھی ممکن ہوگی۔
یہاں، لگ سے کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ نام نہاد ‘نچلی’ اور ‘درمیانی’ ذات کے لوگوں کا مسئلہ ہے۔
مخالفین کا اصرار ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری ایک تفرقہ انگیز اقدام ہے کیونکہ اس سے نسلی تفاخر کے احساس کو بڑھاوا ملے گا، اور یہ معاشرے میں نسلی تعصب اور تنازعات کا موجب ہو گی۔ یہ دلیل تقریباً سو برس پرانی ہے اور جدوجہد آزادی کے زمانے سے اب تک ملک کے مقتدر حلقوں نے ہمیشہ اس کا سہارا لیا ہے۔ آزادی کے بعد مردم شماری سے ذات یا کاسٹ کو ہٹانے کی بھی یہی وجہ بتائی گئی۔ کہنے کی ضرورت ہے – کیونکہ یہ سچائی آنکھوں کے سامنے رہ کر بھی پوشیدہ رہتی ہے – کہ یہ نام نہاد ‘اشرافیہ’ کا نقطہ نظر ہے، بھلے ہی اس پر ترقی پسندی یا قوم پرستی کا لبادہ ڈال دیا گیا ہو۔
عوامی بحث ومباحثہ کی شدت میں پیدا ہونے والی فطری مبالغہ آرائی دونوں طرف پائی جاتی ہے۔ ذات پر مبنی مردم شماری کے حامیوں کی مبالغہ آرائی ان کی اس خوش فہمی میں پنہاں ہے کہ اعداد و شمار کےدستیاب ہوتے ہی سماجی انصاف کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ یہ درست ہے کہ اعداد و شمار کی کمی ایک رکاوٹ تھی اور ہے، لیکن سماجی انصاف بالآخر اقتدارسے متعلق سوال ہے، جس کا جواب محض اعدادوشمار کی دستیابی سے نہیں ملتا۔
دوسری طرف ان کے اس دعوے میں دم ہے کہ جب مردم شماری جیسے سرکاری ذرائع سے مختلف ذاتوں کے تقابلی اعدادوشمار دستیاب ہوں گے تو ذات پر مبنی مساوات کی سیاست کو حقائق کی بنیادوں کے علاوہ نیا جوش وجذبہ ملے گا۔ لیکن یہ دلیل صحیح ہونے کے باوجود نامکمل ہے۔
نامکمل اس لیے کہ اس دلیل کی نظریاتی جڑیں ذات پات کے اسرار اور منبع تک رسائی حاصل نہیں کر سکی ہیں۔ ‘کاسٹ’ نامی سماجی ادارے کی بنیادی سچائی یہی ہے کہ یہ ایک غیر فعال عنصر نہیں بلکہ ایک متحرک شے ہے۔ عوالناس کی عام سمجھ میں، ذات ایک طرح سے کردار کی خوبی یا اخلاقی وصف ہے جو ہر طبقہ خاص کے فرد خاص کی تعریف وضع کرتی ہے۔ یعنی، قد کاٹھی یا شکل و صورت جیسے ذات کا ایک عنصر ہے (بھلے ہی یہ تجریدی ہے) جو ہر فرد میں مضمر ہے۔
ذات کے اسی مادی تصور سے وہ فہم و فراست پیدا ہوتی ہے جس کے تحت ہم سماج کو مختلف ذاتوں میں بٹا ہوا خیال کرتے ہیں۔ افراد کی طرح، ہر ذات کی اپنی خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں، اور جیسا کہ ایک فرد کے ساتھ اچھا یا برا ہو سکتا ہے، اسی طرح ہر ذات کے مقدر میں نشیب وفراز آتے ہیں۔
اس مادی فہم و فراست کو سرکاری فلاحی پروگراموں کے تناظر میں رکھتے ہی ہم فوراً اپنے معاشرے کی عام زندگی، روزمرہ کی سیاست اور اخباروں کی سرخیوں تک پہنچ جاتے ہیں۔فلاں ذات برادری اس نوع کے ریزرویشن کا مطالبہ کر رہی ہے، تو کسی دوسری ذات برادری نے نئی سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان کیا ہے، وغیرہ وغیرہ ۔جوڑ توڑ، نفع نقصان اور مسابقتی عزائم کے جدوجہد کی اس دنیا میں ہمیں اچانک معلوم ہوتا ہے کہ ‘ذات’ کا اصل مفہوم اب ‘نچلی ذات’ میں بدل گیا ہے۔
جیسےانگریزی کے متعدد الفاظ میں کچھ حروف کا تلفظ ادانہیں کیا جاتا، اسی طرح آج کل کی ‘ذات’ میں ‘نیچ’ سائلنٹ(ساکت) ہے – ہم کہتے ہیں ‘ذات’ لیکن سمجھتے ہیں ‘نچلی ذات’ ۔ اس نوع کی فہم کا سفر اپنےازلی حریف یعنی احساس تفاخر کی اندھی گلی میں ختم ہوتا ہے۔
ذات پر مبنی مردم شماری کے مخالفین بھی ذات کے اسی تصور کے پیروکار ہیں، لیکن وہ اس کی مدد سے غلط نتائج اخذ کرتے ہیں کیونکہ ان کا نظر یہ نام نہاد ‘اشرافیہ’ کا نظریہ ہے۔ آزاد ہندوستان کے نئے آئین اور اقتدار کے تحت ان ذاتوں کو ایک نوع کی ظاہری پابندی کے عوض براہ راست نعمت حاصل ہوگئی۔
پابندی یہ تھی کہ وہ عوامی اور سیاسی میدان میں کھل کر اپنے نسلی تفاخرکا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ اس نعمت غیر مترقبہ کے دو پہلو تھے۔ اول یہ کہ انہیں اپنے روایتی ذات پات پر مبنی اثاثوں اور سماجی سرمائے کو ماڈرن کاسٹ لیس اثاثوں اور اہلیت یا’ میرٹ’ میں تبدیل کرنے کے لیے بھرپور سرکاری وسائل فراہم کیے گئے۔ دوسرا پہلو یہ کہ ’دیگر طبقے‘ یا ’جنرل کٹیگری‘ کی آڑ میں ذات ظاہر نہ کرنے کی یقین دہانی۔
ان برادریوں کو اپنےنسلی تفاخر کا فائدہ اٹھانے کے لیے انتخابی سیاست کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں پڑی، بلکہ انھیں نچلی ذات کی جدوجہد کی سطح سے اٹھا کر معاشی اور سماجی ترقی کی طرف لے جانے کے لیے خصوصی ‘فلائی اوور’ بنائے گئے ۔ اسی کی دہائی تک اس کمیونٹی کی تیسری نسل کو احساس ہونے لگا کہ ‘ذات’ – جس کا عملی مفہوم اب ‘نچلی ذات’ میں بدل چکا تھا – کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طبقے کو ذات پر مبنی مردم شماری میں کوئی فائدہ نظر نہیں آئے گابلکہ اب تک کی گمنامی سے محروم ہوجانے کی فکر ستائے گی۔
اگراس مادیت پسندانہ تفہیم کے برعکس ہم ذات پات کے باہمی تعلق کاتصور کریں تو دنیا بالکل مختلف نظر آئے گی۔ یہاں نہ میری ذات مجھ میں ہے نہ آپ کی آپ میں،بلکہ ذات ہمارے باہمی رشتے میں موجود ہے۔ ذات کے اس تصور کو ہم کبیر کی پریم گلی کا متضاد تصور کر سکتے ہیں– ذات کی گلی سے کوئی تنہا نہیں گزر سکتا، یہاں دونوں فریقوں کا ہونا لازمی ہے۔
جب تک ہمارے معاشرے کا حکمراں طبقہ خود کو ذات سے بالاتر سمجھے گا، جب تک نام نہاد نچلی ذات کے لوگوں کو یہ لگے گاکہ ان کا واحد مقصد اپنی برادری کی فلاح و بہبود ہے، تب تک یہ ‘مسئلہ’ کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہے گا۔ ہم ذات پات سے نجات اسی وقت حاصل کر سکیں گے جب عام آدمی اور اشرافیہ، دونوں کو ریزرویشن اور میرٹ ایک ہی سکے کے دو رخ نظر آئیں۔
وہ دن ابھی دور ہے۔ لیکن ذات پر مبنی مردم شماری اس منزل تک لے جانے والے راستے کا پہلا پڑاؤ بن سکتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ ملک کے ہر باشندہ سے پوچھا جائے کہ اس کی ذات کیا ہے؟ اعداد و شمار سے کوئی فائدہ ہو نہ ہو، یہ توصاف نظر آئے گا کہ اس سیلفی میں ہم سب کی ذات ہے۔
(ستیش دیش پانڈےدہلی یونیورسٹی کے سابق ٹیچر ہیں اور اس وقت انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف سوشل اینڈ اکنامک چینج، بنگلور سے وابستہ ہیں۔)