الزام ہے کہ شمال مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ کشیدگی سےمتعلق ایک واقعہ کور کرنے گئے کارواں میگزین کےتین صحافیوں پر بھیڑ نےحملہ کیا۔مارپیٹ کرنے کےعلاوہ ان پرفرقہ وارانہ تبصرےکیے گئےاورخاتون صحافی کو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔ تینوں صحافیوں نے اس سلسلے میں دہلی پولس سے شکایت کی ہے، لیکن پولیس نے اب تک ایف آئی آر درج نہیں کی ہے۔
نئی دہلی: گزشتہ11 اگست کی شام شمال مشرقی دہلی کےسبھاش محلہ میں کارواں میگزین کے تین صحافیوں پر بھیڑ کی جانب سے حملہ اور ٹیم کے ساتھ گئیں ایک خاتون صحافی کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا معاملہ سامنا آیا ہے۔ یہ صحافی رواں سال فروری مہینے میں ہوئے دہلی فسادات سے متعلق ا سٹوری کور کر رہے تھے۔
تینوں صحافی حال ہی میں پربھ جوت سنگھ اور شاہدتانترے کی جانب سے کی گئی ایک رپورٹ کا فالو اپ کر رہے تھے، جہاں دہلی فسادکی ایک متاثرہ خاتون شکایت گزار نے الزام لگایا تھا کہ گزشتہ آٹھ اگست کی رات کوبھجن پورہ پولیس اسٹیشن کے پولیس اہلکاروں نے انہیں اور ان کی17سال کی بیٹی کو پیٹا اور جنسی طو رپر ہراساں کیا۔
خاتون نے دو دن پہلے درج کی گئی شکایت کو لےکر ایف آئی آر درج کرنے کی مانگ کرنے کے لیے اس رات پولیس اسٹیشن کا دورہ کیا تھا۔رپورٹ کے مطابق، گزشتہ پانچ اور چھ اگست کے بیچ کی رات میں کچھ لوگوں نے فرقہ وارانہ نعرے لگائے اور ایودھیا میں رام مندر بھومی پوجن تقریب کے جشن کے طور پر پڑوس کے مسلم علاقے کے گیٹ پر بھگوا جھنڈا لگا دیا تھا۔
پولیس نے خواتین کو شکایت کی ایک دستخط شدہ کاپی دے دی تھی، لیکن جب انہوں نے ایف آئی آر کی کاپی مانگی توالزام ہے کہ پولیس اہلکاروں نے شکایت گزار، ان کی بیٹی اور ایک دوسری خاتون کی پٹائی کی اور جنسی طور پر ہراساں کیا۔کارواں کے اسسٹنٹ فوٹو ایڈیٹر شاہد تانترے، کانٹری بیوٹر پربھ جوت سنگھ اور ایک خاتون صحافی(اسٹافر)قریب ڈیڑھ گھنٹے تک بھیڑ سے گھرے رہے۔الزام ہے کہ ان پر فرقہ وارانہ تبصرے کیے گئے، قتل کرنے کی دھمکی دی گئی اورجنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔
میگزین کی رپورٹ کے مطابق، وہ ایک گلی میں لگے بھگوا جھنڈوں کی فوٹو لے رہے تھے کہ اسی بیچ کچھ لوگ جمع ہو گئے اور انہیں ایسا کرنے سے روکنے لگے۔ ان میں سے ایک بھگوا کرتا اور ہاتھ میں کلاوہ پہنے شخص نے کہا کہ وہ ‘بی جے پی جنرل سکریٹری’ہے اور اس نے تانترے سے آئی ڈی دکھانے کو کہا۔
الزام ہے کہ جیسے ہی انہیں پتہ چلا کہ تانترےمسلمان ہیں، ویسے ہی بھیڑ نے ان سے ہاتھاپائی کی ، حملہ اور ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا۔ اس بیچ حملے سے بچنے کے لیےخاتون صحافی نے وہاں سے دور ہٹنے کی کوشش کی،تبھی کچھ لوگوں نے ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی اور ان کوجنسی طور پر ہراساں کیا۔
پربھ جوت سنگھ نے دی وائر سے کہا، ‘ہم نے انہیں بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم آپ سے بات کرنے آئے ہیں، آپ اپنی بات رکھیے، لیکن اس میں سے ایک نے خود کو بی جے پی کا جنرل سکریٹری بتاتے ہوئے کہا کہ تیرے جیسے بہت صحافی دیکھے ہیں، اب دیکھ ہم تیرے ساتھ کیا کریں گے۔ تجھے اندر کروائیں گے ہم۔’
اس نے کہا، ‘تمہاری طرح فٹیچرصحافی بہت دیکھے ہیں۔ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تم۔’
پربھ جوت سنگھ نے بتایا کہ دھیرے دھیرےاور بھیڑ جمع ہو گئی اور باہر کے کچھ لوگوں کو بھی بلا لیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہاں قریب 200 لوگوں کی بھیڑ جمع ہو گئی تھی۔سنگھ نے کہا، ‘کچھ خواتین تھیں جو اپنے شوہروں کو دور کر رہی تھیں اور یہ سب کرنے سے منع کر رہیں تھیں۔ حالانکہ تھوڑی دیر بعد وہ بھی ہم پر حملہ آور ہو گئیں۔’
Local police personnel subsequently managed to take the staffers to the nearby Bhajanpura station. In his complaint, @Prabhtalks wrote that were he not present, “the mob led by that saffron-clad man would have lynched Shahid for his Muslim identity.” pic.twitter.com/7XLpzmscwv
— The Caravan (@thecaravanindia) August 11, 2020
خاتون صحافی نے بھیڑ سے نکل کر گلی کے گیٹ سے باہر بھاگنے کی کوشش کی، لیکن اس بیچ بھیڑ نے گیٹ لاک کر دیا۔صحافی نے درخواست کی کہ انہیں جانے دیا جائے، لیکن ایک شخص نے انہیں کھینچ کر اندر کر لیا۔اس سے بچنے کے لیےخاتون صحافی کو ایک گلی سے نکل کر دوسری گلی میں جانا پڑا۔ جب وہ ایک جگہ بیٹھ کرخود کوپرسکون کرنے کی کوشش کر رہی تھیں، تب 20-25 سال کی عمر کے لڑکے وہاں جمع ہو گئے اور ویڈیو بنانے لگے اور فوٹو کھینچنے لگے۔
صحافی کے مطابق ان میں سے کچھ نے کہا، ‘دکھاؤ، دکھاؤ۔’اس معاملے کو لےکر پولیس کو ایک تفصیلی شکایت دائر کی گئی ہے۔ خاتون صحافی نے اپنی شکایت میں کہا ہے، ‘جیسے ہی میں وہاں سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی کہ تبھی ایک شخص، جس نے ٹی شرٹ اور دھوتی پہن رکھی تھی اور وہ گنجا تھا، میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔’
انہوں نے آگے کہا، ‘اس نے میرے سامنے اپنی دھوتی کھول کر اپنے پرائیویٹ پارٹ کو دکھایا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے قابل اعتراض تبصرہ کیا، اس کے چہرے پر عجیب طرح کا احساس تھا اور وہ لگاتار ہنستا بھی رہا۔’اس شخص سے دور بھاگنے کے بعد انہیں تانترے کا فون آیا اور انہوں نے صحافی کو بھجن پورہ پولیس اسٹیشن آنے کے لیے کہا۔ اس وقت تک تانترے اور سنگھ کو پولیس کے ذریعے اسٹیشن پر لے جایا جا رہا تھا۔ جب وہ پولیس اسٹیشن کے لیے راستہ پوچھ رہی تھیں، تو بھیڑ نے انہیں پھر سے ڈھونڈ لیا اور ان کی پٹائی کی۔
حالانکہ پولیس نے اب تک کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی ہے۔ پربھ جوت سنگھ نے دی وائر کو بتایا،‘ہم نے ان سے کئی بار کہا کہ آپ ایف آئی آر درج کیجیے اور اس کی ایک کاپی دیجیے،لیکن پولیس نے اب تک ایف آئی آر درج نہیں کی ہے۔’وہیں الزام ہے کہ بھیڑ نے تانترے کو مسلمان جاننے کے بعد کہا، ‘تو تو کٹوا ملا ہے۔ ملا سالا کٹوا۔ سالے جان سے مار دیں گے۔’
قریب90 منٹ تک بھیڑنےصحافیوں کو گھیرے رکھا اور ان پرفرقہ وارانہ تبصرےکیے۔ انہوں نے ان کا کیمرا پھوڑنے کی بھی دھمکی دی اور تانترے سے پوری فوٹو ڈی لٹ کروائی اور پٹائی بھی کی۔
Today afternoon some journalists were taking photographs and interviews in the communally sensitive area to which local people objected. Police acted swiftly to pacify the situation. Complaints filed by both sides and being enquired into. @DelhiPolice
— DCP North East Delhi (@DCPNEastDelhi) August 11, 2020
بعد میں دو پولیس والے ایڈیشنل سب انسپکٹر اور ہیڈ کانسٹبل جائے وقوع پر پہنچے اورمعاملہ کو ختم کرانے کی کوشش کی۔ حالانکہ پولیس کی موجودگی کے باوجود بھیڑ مشتعل بنی ہوئی تھی۔اس کی وجہ سے بعد میں اور پولیس والوں کو آنا پڑا اور وہ صحافیوں کو بھیڑ سے دور لے گئے۔ پربھ جوت سنگھ نے کہا، اگر میں وہاں نہیں ہوتا تو مسلمان ہونے کی وجہ سے بھیڑ نے شاہد کو ہلاک کر دیا ہوتا۔’