حالیہ مہینوں میں عام آدمی پارٹی کی حکمت عملی ‘ایکلا چلو’ میں تبدیلی آئی ہے، اور اروند کیجریوال نے کئی اپوزیشن لیڈروں سے ملاقات کی ہے۔ ان میں کانگریس کے ساتھ اتحادمیں شامل جماعتوں کے لیڈر بھی شامل ہیں۔
دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا، جو وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کے دائیں ہاتھ اور دہلی میں تعلیمی اصلاحات کا چہرہ سمجھے جاتے ہیں، اب ایکسائز گھوٹالے میں سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ یہ جھٹکا عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے لیے کسی بڑے بحران کی آہٹ تو نہیں ہے۔
مئی 2022 سے دہلی کے سابق وزیر صحت ستیندر جین مبینہ منی لانڈرنگ کے الزام میں جیل میں ہیں۔ صحت اور تعلیم میں اچھی کارکردگی کے کیجریوال کے دعوے کے پس پردہ دونوں چہرے اب جیل میں ہیں اور اپنے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے چکے ہیں۔
اس کے باعث حکومت کو درپیش مسائل کو ایک طرف رکھ کر دیکھیں تو کیا عام آدمی پارٹی کو اس بات کی فکر ہے کہ سسودیا کے خلاف بدعنوانی کے الزامات سے بدعنوانی مخالف تحریک کے سہارے بنی ان کی پارٹی کی امیج خراب ہو گی؟
اس کے برعکس عآپ کا استدلال ہے کہ اس سے ملک بھر میں پارٹی کے لیے عوامی ہمدردی میں اضافہ ہوگا۔ ان کے مطابق، سسودیا کی گرفتاری— جن کی صاف ستھرے کارکن سے لے کرکیجریوال حکومت کے مصروف ترین وزیرکی امیج ہے— کی گرفتاری اپوزیشن پارٹیوں کے لیے مرکزی حکومت کے ایجنسیوں کے یک طرفہ استعمال پرمتحد ہونے کا وقت ہے۔
دراصل، کانگریسی اور سپریم کورٹ کے مشہور وکیل ابھیشیک منو سنگھوی، جو اہم معاملات پر عدالت عظمیٰ میں دہلی حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں،کی دلیل ہے کہ اپوزیشن طاقتوں کے ‘قانونی گٹھ بندھن (اتحاد)’ کا وقت آ گیا ہے۔
عآپ نے اب تک کئی مشکل امتحانات دیے ہیں اور کیجریوال کے سہارے وہ دہلی میں ایک بہادر پارٹی بنی ہوئی ہے۔ حال ہی میں دسمبر 2022 میں اس نے بی جے پی کے خلاف پورے دم خم سے لڑے گئے کارپوریشن انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ مینڈیٹ پائے سیاسی جماعتوں کو حکومت کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے، لیکن یہ بہت ہی بنیادی آئینی اصول ہے جس کو مرکزی حکومت کے منتخب کردہ لیفٹیننٹ گورنر کے دفتر نے دہلی میں واضح طور پر چیلنج کیا ہے۔
بی جے پی حکومت نے 2012 میں بنی اس نو عمر پارٹی کو ہر قدم پر روکنے کی کوشش کی ہے۔
مثال کے طور پر، میونسپل انتخابات میں جیت کے بعد بی جے پی نے ہر ممکن کوشش کی کہ عآپ کو کارپوریشن پر کنٹرول کرنے سے روکا جائے۔ کیجریوال خود بتاتے ہیں کہ 2015 میں 70 میں سے 67 سیٹوں کے تاریخی مینڈیٹ کے ساتھ دہلی میں اقتدار میں آنے کے بعد سے49 ایم ایل اے کے خلاف 169 کیس درج کیے گئے ، جن میں سے 134خارج کر دیے گئے ہیں۔ خود کیجریوال کے خلاف 16 مقدمات درج ہوئے ہیں،جن میں سے اکثر کو خارج کر دیا گیا ہے۔
عآپ کا کہنا ہے کہ سسودیا کی گرفتاری کی کانگریس (جسے عآپ بی جے پی کی بی ٹیم کہتی ہے) کے علاوہ تمام اپوزیشن پارٹیوں نے مذمت کی ہے۔عآپ کا خیال ہے کہ اس کے خلاف بی جے پی کی لگاتار کارروائیوں سے بی ٹیم والی بات کی سختی سے تردیدہوتی ہے۔
پھر بھی عآپ کا ارادہ دوسری ریاستوں میں اپنی توسیع کو روکنے کا نہیں ہے۔ وہ مدھیہ پردیش میں مواقع تلاش کر رہے ہیں، چھتیس گڑھ، راجستھان اور یہاں تک کہ کرناٹک، ان تمام ریاستوں میں جہاں اس سال انتخابات ہونے والے ہیں، وہ مواقع ڈھونڈ رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا ارادہ عآپ برانڈ کے بارے میں پورے ہندوستان میں بیداری پھیلانے کی ہے کیونکہ سروے بتاتے ہیں کہ کیجریوال کی امیج کل ہند رہنما کی ہے۔
حال کے مہینوں میں عآپ کی حکمت عملی ‘ایکلا چلو’ میں تبدیلی آئی ہے، اورکیجریوال نے جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین اور شیو سینا لیڈر ادھو ٹھاکرے سمیت کئی اپوزیشن لیڈروں سے ملاقات کی، جو کانگریس کے ساتھ اتحاد میں شامل ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن سے ملاقات کی تھی۔ کیجریوال کو تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ کے سی آر کے ساتھ اسٹیج شیئرکرنے کے لیے بھی مدعو کیا گیا تھا، جو کانگریس کی قیادت والے اپوزیشن کےگٹھ بندھن (جس میں عآپ اور ٹی ایم سی شامل نہیں ہے) سے باہر ہیں۔
ٹھاکرے سے ملاقات کے بعد کیجریوال نے میڈیا سے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کو بی جے پی سے لڑنے کے لیے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ اڈانی گروپ/ہنڈن برگ ریسرچ رپورٹ کا تذکرہ کیے بغیر انہوں نے یہ بھی کہا کہ ‘ایل آئی سی جلد ہی خسارے میں چلی جائے گی۔’ دریں اثنا، راجیہ سبھا میں عآپ کے ایم پی سنجے سنگھ اڈانی گھوٹالے سے توجہ ہٹانے کے لیے گرفتاریوں کے استعمال کے بارے میں لگاتار بول رہے ہیں۔
عآپ کا استدلال ہے کہ اس سے اپوزیشن اتحاد کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ اس کا ماننا ہے کہ کانگریس ان ریاستوں میں عام انتخابات میں کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے گی جہاں اس کا براہ راست مقابلہ بی جے پی سے ہوگا۔ درحقیقت، عآپ کا استدلال ہے کہ کانگریس کے سب سے بڑے نظریاتی حلیف – بائیں بازو 2024 میں کیرالہ میں اس کے خلاف ہوں گے، اس لیے کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
بہر حال، عزائم اور حکمت عملی کچھ بھی ہو، سسودیا کی غیر موجودگی کیجریوال کے لیے دہلی کی حکمرانی کی ذمہ داریوں کو مشکل بنا دے گی۔سسودیا کی گرفتاری نے پارٹی کے ان ارکان کو بہت متاثر کیا ہے جو سسودیا کے لیے ہمدردی اور احترام کا جذبہ رکھتے ہیں۔ وہ نہ صرف کیجریوال کے بلکہ تمام عآپ ممبران کی پسندیدہ شخصیت ہیں۔
(صبا نقوی سینئر صحافی ہیں۔)
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)