مصر نے مغربی ایشیا میں جاری تنازع میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور غزہ میں جاری انسانی بحران کا حل تلاش کرنے کی کوشش میں قاہرہ امن سربراہی اجلاس کی میزبانی کی، لیکن اس کا نتیجہ جیسا کہ امید کی جارہی تھی کچھ زیادہ خوش آئند نہیں رہا اور نہ ہی اس میں کوئی حکمت عملی وضع کی گئی۔
قاہرہ امن سربراہی اجلاس میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس، فوٹو بہ شکریہ: یو این
قاہرہ امن اجلاس، مصر کی میزبانی میں اور مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے مشرق میں نئے انتظامی دارالحکومت میں منعقد ہوا، جس کی صدارت مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے کی۔
اس میں تقریباً ہر عرب ملک اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل
انتونیو گوتریس نے شرکت کی، جنہوں نے ‘اس خوفناک ڈراؤنے خواب کو ختم کرنے’ کے لیے کارروائی کا مطالبہ کیا، تین فوری اہداف کے ذریعے؛ غزہ کی پٹی میں محصور شہریوں کو بلا روک ٹوک انسانی امداد، فوری اور غیر مشروط رہائی۔ اور تنازع کو بڑھنے سے روکنے کے لیے تشدد پر قابو پانے کی کوششوں کا عزم ظاہر کیا۔
انہوں نے کہا کہ تنازعہ صرف دو ریاستی حل سے ہی حل ہو سکتا ہے، ایک اسرائیلیوں کے لیے اور دوسرا فلسطینیوں کے لیے۔
جیسا کہ امید کی جارہی تھی، سمٹ میں
اسرائیل کی نمائندگی نہیں تھی، کیونکہ وہ خود کو جارح نہیں بلکہ مظلوم کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے۔
اگرسربراہی اجلاس میں کی گئی تقریروں کا تجزیہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ ان کے ذریعے خطے میں بڑھتے ہوئے غصے کی عکاسی کی گئی، حتیٰ کہ اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے والے ممالک میں بھی جو اکثر ثالث کے طور پر اسرائیل کے لیے کام کرتے ہیں، انھوں نے بھی اسرائیل کے خلاف آواز بلند کی، لیکن یہ آوازیں بظاہر نقار خانے میں طوطی کی طرح ہی رہیں۔
گزشتہ 20 اکتوبر کو، اسرائیلی وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے تین مرحلوں پر مشتمل ایک فوجی منصوبہ پیش کیا، جس میں فضائی حملے اور زمینی حملے شامل تھے۔ لیکن اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اسرائیل کس طرح چھپ کر اور احتیاط کے ساتھ غزہ کے علاقے میں فلسطینی شہریوں جن میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں، ان پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔
اور حماس کے حملے کے بیس دن بعد یعنی 25 اکتوبر کی رات کو اس نے پہلی مرتبہ زمینی جنگ کے لیے کچھ کارروائیاں شروع کیں جن کا اصل مقصد کم سے کم اسرائیلی فوجیوں کے مارے جانے کو یقینی بنانا تھا۔اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں ایسے بہت سے شواہد مل جائیں گے کہ یہ قوم پشت سے ہی حملہ کرتی ہے، کبھی سامنے آکر سینہ بہ سینہ لڑنے کی اس میں جرأت نہیں ہوئی۔
دوسری طرف یورپی ممالک جو اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں، وہ عجیب طور پر فلسطینیوں کے زندہ رہنے کے حق،اپنے دفاع کے حق اور مادر وطن کے حق اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے بارے میں مکمل طور پر فراموش کردیتے ہیں۔
مزیدبرآں، اجلاس میں شامل وزراء کی تقاریر نے اجلاس کے میزبان سمیت یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ ہر عرب ملک فلسطینیوں کی اپنی سرزمین میں بڑی تعداد میں آمد کے بارے میں تشویش رکھتا ہے، کیونکہ اس عمل سے اسے خدشہ ہے کہ دوسری چیزوں کے علاوہ، فلسطینی ریاست کی امیدوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔
مصر کو خدشہ ہے کہ بڑے پیمانے پر اخراج سے عسکریت پسندوں کو سینائی میں لانے کا خطرہ ہو سکتا ہے، جہاں سے وہ اسرائیل پر حملے شروع کر سکتے ہیں، جس سے اسرائیل کے ساتھ اس کے امن معاہدے کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
اسی طرح، اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے، جن کا ملک اسرائیل کے ساتھ سفارتی روابط رکھتا ہے، فلسطینیوں کی جبری بے گھری کو ‘غیر واضح طور پر مسترد’ کرنے کا اعلان کیا۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق یہ جنگی جرم ہے اور ہم سب کے لیے سرخ لکیر ہے۔ انہوں نے کہا، لیکن فلسطینی کاز کی حمایت میں کوئی ٹھوس بیان دینے سے گریز کیا۔
مجموعی طور پر جو بیان بازیاں مختلف عرب ممالک فلسطین اور اس کے عوام کے حق میں کررہے ہیں وہ محض کھوکھلی باتوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ انہی کی پشت پناہی کی وجہ سے اسرائیل کی دفاعی سازو سامان کی تجارت دن بہ دن وسعت پا رہی ہے۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ سال اسرائیل کے دفاعی برآمدات کا پچیس فیصد حصہ ان عرب ممالک نے خریدا تھا۔ یعنی کہ ایک طریقے سے یہ عرب ممالک اسرائیلی حکومت اور اس کی کمپنیوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ کیونکہ انھیں مختلف مغربی ممالک سے یہ جتایا جاتا ہے کہ انھیں ایک دوسرے سے خطرہ ہے۔
اگر یہی تمام عرب ممالک اس بات کا اعلان کردیں کہ جب تک مسئلہ فلسطین کا کوئی مثبت حل نہیں نکلتا ہے یا دوبارہ سے فلسطینی مملکت قائم نہیں ہوتی ہے تب تک وہ اسرائیل سے اسلحہ نہیں خریدیں گے تو پھر دیکھیے کہ اس کا کیا اثر ہوتا ہے۔
دوسری جانب اس عالمی مسئلے کا اثر ہندوستان میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے اور جس طریقے سے ملک کی دائیں بازو کی طاقتیں اسرائیل کے حق میں اپنی حمایت کا اعلان کررہی ہیں وہ نہ صرف فلسطینی کاز کے خلاف ہے بلکہ خود حکومتِ ہند کے دیرینہ اور موجودہ موقف کے بھی برخلاف ہے۔
اس کی ایک وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ ذہنی طور پر ان دائیں بازو کی طاقتوں اور اسرائیلی حکومت کی سوچ میں بہت یکسانیت پائی جاتی ہے اور دونوں کے مشترکہ دشمن عام مسلمان ہیں۔
بات مسلمانوں کی ہورہی ہے تو ایک بات اور قابلِ ذکر ہے کہ مختلف غیر سرکاری اورملی تنظیمیں فلسطینیوں کی مدد کے نام پر عام افراد سے مالی اور مادی مدد کرنے کی اپیل کررہی ہیں۔ تو یہاں ایک بات واضح ہو جانی چاہیے کہ جس طریقے سے اسرائیل نے فلسطینی علاقوں کو ہر طرف سے گھیرا ہوا ہے تو اس پس منظر میں کوئی بھی تنظیم اتنا اثر و رسوخ نہیں رکھتی ہے کہ وہ کسی بھی طریقے کی مالی و مادی امداد فلسطینی عوام یا فلسطینی حکومت تک پہنچا سکے۔
اس لیے ہوش سے کام لیتے ہوئے اپنی امداد اقوامِ متحدہ کی مختلف ایجنسیوں جیسے کہ
یو این آر ڈبلیو اے اور یونیسف جیسی تنظیموں کو پہنچانی چاہیے، جس سے یہ یقین رہے کہ یہ امداد ضرورت مندوں تک پہنچ سکے گی۔
ساتھ ہی یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ جو مالی امداد ملکی یا غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں کو دی جاتی ہیں وہ اس میں سے 32 فیصد تنظیمی اخراجات کے لیے اپنے پاس رکھ لیتی ہیں یعنی کہ ایک روپے میں سے صرف 68 پیسے یا اس سے بھی کم مستحق افراد تک پہنچ سکتے ہیں۔
تو اپنی امداد ان تنظیموں کو دی جانی چاہیے جو یقینی طور پر اسےمستحق لوگوں تک پہنچا سکتی ہوں۔
اس کے علاوہ بہت ہی احتیاط کے ساتھ مغربی اور صہیونی انفارمیشن پروپیگنڈے کا بھی سامنا کرنا ہوگا، جس طریقے سے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر فلسطینیوں کےحق میں بات کرنے والوں کو ٹرول کیا جارہا ہے اس کا مثبت طریقے سے صحیح معلومات کے ذریعے جواب دیا جانا چاہیے۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ 1974 سے لے کر 2023 تک امریکہ میں فلسطینی مسئلے کے حل کے لیے اقوام متحدہ میں پیش کی گئی 36 قراردادوں کوویٹو یا نامنظور کیا ہے۔ جس سے کہ امریکہ کا اصلی چہرہ بالکل واضح ہوجاتا ہے۔
اسی درمیان جس طریقے سے امریکہ نے اپنے دو جنگی بحری جہاز مغربی ایشیا کے مختلف علاقائی سمندروں میں بھیجے ہیں ان کے جواب میں چین نے اپنے پانچ جنگی بحری جہاز ان علاقوں میں بھیج دیے ہیں۔ اور اگر یہ دونوں ممالک سرکردہ طور پر کوئی بھی جنگی اقدام لیتے ہیں تو اس کا منفی اثر نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن پر بھی بہت دورتک پڑے گا۔
اس لیے کوشش یہی کی جانی چاہیے خاص طور سے امریکہ کو اور مختلف مغربی ممالک کو کہ وہ فلسطینی عوام کے حق میں اپنے موجودہ موقف میں تبدیلی لائیں اور اس مسئلے کو ثالثی کے ذریعے حتمی طور پر حل کیا جائے تو یہ سب کے لیے بہتر رہے گا۔ اور اس کے ذریعے عالمی امن کو قائم کرنے میں بھی وسعت حاصل ہوسکتی ہے۔
(اسد مرزا سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار ہیں، وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز دبئی سے وابستہ رہے ہیں۔)