مرکز کی مودی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے گجرات، چھتیس گڑھ، راجستھان، ہریانہ اور پنجاب کے 13اضلاع میں رہ رہے افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان کے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہری کے طور پررجسٹر کرنے کی ہدایت دی ہے۔
(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: ایک طرف شہریت قانون کے لیے مرکز کی مودی حکومت کی جانب سے ابھی اصول و ضوابط طے کیے جانے ہیں، وہیں دوسری طرف اس نے پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے اقلیتی کمیونٹی کے لوگوں کی شہریت کی درخواست کو قبول کرنے، ان کی توثیق اور منظوری دینے کے لیے گجرات، چھتیس گڑھ، راجستھان، ہریانہ اور پنجاب کے 13اضلاع کواختیارات فراہم کرتے ہوئے جمعہ کو گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔
وزارت داخلہ نے شہریت قانون 1955 اور 2009 میں قانون کےتحت بنائے گئےضابطوں کے تحت اس آرڈرپر فوری عمل درآمد کے لیے اس بارے میں ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔
وزارت داخلہ کی نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے، ‘شہریت قانون 1955 کی دفعہ 16 کے تحت ملے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے قانون کی دفعہ پانچ کے تحت یہ قدم اٹھایا ہے۔ اس کےتحت مذکورہ صوبوں اور ضلعوں میں رہ رہے افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان کے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہری کے طور پررجسٹرکرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔’
ہندوستانی شہریت کے لیے درخواست دینے کے وہ لوگ اہل ہوں گے جو اس وقت گجرات کے موربی، راج کوٹ، پاٹن اور وڈودرا، چھتیس گڑھ میں درگ اور بلودبازار، راجستھان میں جالور، ادے پور، پالی، باڑمیر اور سروہی اور ہریانہ کے فریدآباد اور پنجاب کے جالندھر میں رہ رہے ہیں۔
نوٹیفکیشن میں شامل ضلعوں میں اسی طرح کے یکساں اختیارات ہریانہ اور پنجاب کے ہوم سکریٹریوں کو بھی دی گئی ہے۔نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے، ‘ہندوستان کے شہری کے طور پر رجسٹریشن کے لیے آن لائن اپلائی کیا جائےگا۔’ ضلع مجسٹریٹ یا سکریٹری ضرورت پڑنے پر معاملوں کے حساب سے درخواست کی جانچ کرائیں گے۔
معلوم ہو کہ سرکار نے 2019 میں نافذشہریت ترمیم قانون کے تحت ضابطوں کو ابھی تک تیار نہیں کیا ہے۔انڈین ایکسپریس کی
رپورٹ کے مطابق، اس نوٹیفکیشن میں ہندوؤں، سکھوں، بودھوں، جین، پارسی اور عیسائیوں کو ان کمیونٹی کے طور پردرج کیا گیا ہے، جنہیں شامل کیا جائےگا۔
وزارت داخلہ سے وابستہ ذرائع کے مطابق، اس آرڈر کو شہریت ایکٹ 1955 اور شہریت کےاصول و ضوابط 2009 کے تحت جاری کیا گیا ہے، کیونکہ شہریت ترمیم ایکٹ 2019 کے تحت اس کے ضابطوں کا مسودہ ابھی تک تیار نہیں کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، اسی طرح کی نوٹیفکیشن 2018 میں کئی صوبوں کے دیگر ضلعوں کے لیے بھی جاری کیے گئے تھے۔
اس نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے، کلکٹریاسکریٹری عرضی گزار کی اہلیت سے مطمئن ہونے پر انہیں ہندوستان کی شہریت فراہم کریں گے اوررجسٹریشن کا سرٹیفکیٹ جاری کریں گے۔ یہ سرٹیفکیٹ آن لائن پورٹل سے صحیح طرح سے پرنٹیڈ ہوگا اور ضابطوں کے تحت اس پر کلکٹر یا سکریٹری کے دستخط ہوں گے۔
کلکٹریاسکریٹری کو آن لائن فارمیٹ میں اور ساتھ ہی آف لائن طور پر رجسٹر بنانے کو کہا گیا ہے، جس میں ہندوستان کے شہری کے طور پر رجسٹرڈ تمام لوگوں کی پوری تفصیلات ہوگی اور اس کی ایک کاپی رجسٹریشن کے سات دنوں کے اندر مرکزی حکومت کو دینی ہوگی۔
سال 2018 میں مرکزی حکومت نے چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، گجرات، راجستھان، اتر پردیش اور دہلی جیسےصوبوں کے کلکٹر اورہوم سکریٹری کو بھی اسی طرح کے اختیارات دیے تھے۔معلوم ہو کہ 11 دسمبر 2019 کو پارلیامنٹ سے شہریت قانون پاس ہونے کے بعد سے ملک بھر میں مظاہرے ہوئے تھے۔ صدر کی منظوری ملنے کے ساتھ ہی یہ بل قانون بن گیا۔
اس کے تحت افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے مذہبی طور پر استحصال کی وجہ سے ہندوستان آئے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کا اہتمام ہے بشرطیکہ وہ 31 دسمبر 2014 تک ہندوستان آئے ہوں۔
سال2019 میں جب سی اے اے نافذ ہوا تو ملک کےمختلف حصوں میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرہ ہوا اور انہی مظاہروں کے بیچ 2020 کی شروعات میں دہلی میں دنگے ہوئے تھے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)