شہریت قانون کو لےکر 2003 اور اس کے بعد ہوئی بحث میں نہ صرف کانگریس اور لیفٹ بلکہ بی جے پی رہنماؤں اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشن اڈوانی نے بھی مذہبی طورپر مظلوم پناہ گزینوں کو لےکرمذہب کی بنیاد پر جانبداری نہ کرنے کی پیروی کی تھی۔
اٹل بہاری واجپائی، منموہن سنگھ، لال کرشن اڈوانی اورپرکاش کرات(فوٹو : رائٹرس)
شہریت ترمیم قانون کے خلاف ملک گیر احتجاج اور مظاہرہ کےبعد بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں نے منموہن سنگھ کا ایک پرانا ویڈیو شیئر کیاتھا۔ دسمبر، 2003 کے اس ویڈیو میں منموہن سنگھ راجیہ سبھا میں پڑوسی ممالک کےمظلوم اقلیتوں کو شہریت عطا کرنے کے لئے قانون میں ترمیم کی مانگکر رہے ہیں۔لیکن 2003 میں واجپائی کابینہ میں سینئر ممبر رہے بی جےپی کے ایک رہنما نے دی وائر کو بتایا کہ ہمیشہ کی طرح پارٹی ہمیں پوری سچائی نہیں بتا رہی ہے۔ غیر رسمی بات چیت میں اس بی جے پی رہنما نے بتایا کہ موجودہ قانون میں ترمیم سے متعلق منموہن سنگھ کی مانگ اور موجودہ شہریت ترمیم قانون میں کوئی یکسانیت نہیں ہے۔
شہریت ترمیم قانون کے برعکس جس میں چنندہ پڑوسی ممالک اور چنندہ مذہبی گروہوں کے ناموں کا ذکر کیا گیا ہے، منموہن سنگھ نے بنا کوئی ایسی حد بنائے پڑوسی ممالک کے تمام مظلوم اقلیتوں کو شہریت دینے پر غور کرنے کی بات کی تھی۔دسمبر، 2003 کو راجیہ سبھا نے اس وقت کے نائب وزیراعظم لال کرشن اڈوانی کے ذریعے لائے گئے شہریت ترمیم بل پر مختصر چرچہ کی تھی۔ اس بل میں قانونی کاغذات کے بغیر ہندوستان میں آنے والے اور رہنے والے تمام لوگوں کو ‘ غیرقانونی مہاجرین ‘ قراردینے کا اہتمام تھا۔
راجیہ سبھا کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق منموہن سنگھ نے کہاتھا :
‘اس موضوع پر رہتے ہوئے محترم میں پناہ گزینوں کے ساتھ ہونے والے برتاؤ کے بارے میں کچھ کہنا چاہوںگا۔ ہمارے ملک کی تقسیم کے بعد، بنگلہ دیش جیسے ممالک کے اقلیتوں کو ظلم و ستم کاسامنا کرنا پڑا ہے اور یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اگرحالا ت ایسے بدقسمت لوگوں کو ہمارے ملک میں پناہ مانگنے پر مجبور کرتے ہیں، تو ان بدقسمت لوگوں کو شہریت عطا کرنے کو لےکر ہمارا رویہ زیادہ نرم ہونا چاہیے۔
مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کہ محترم نائب وزیراعظم شہریت قانون کو لےکر مستقبل میں کوئی قدم اٹھاتے وقت اس بات کا خیال رکھیںگے۔ ‘
بحث کا جواب دیتے ہوئے اڈوانی نے کہا کہ وہ منموہن سنگھ کی بات سے متفق ہیں اور انہوں نے غیر قانونی مہاجر اور قانونی پناہ گزینوں کےدرمیان فرق واضح کیا۔ قانونی مہاجر کو انہوں نے ‘ مذہبی استحصال کی وجہ سے بھاگنےوالے افراد’ کے طور پر متعارف کیا۔ :
‘ ہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ مذہبی استحصال کی وجہ سے بھاگنے پر مجبور ہونے والا ایک پناہ گزیں، ایک قانونی پناہ گزیں ہے اور اس کو غیر قانونی مہاجر کے برابر نہیں رکھا جاسکتا ہے، جو کسی بھی وجہ سے یہاں تک کہ اقتصادی وجہوں سے آئے ہوئے ہو سکتے ہیں۔
اگر وہ ایک غیر قانونی مہاجر ہے، تو وہ غیر قانونی مہاجرہے۔ اس لئے جو کہا گیا ہے، میں اس کو اپنے علم میں لیتا ہوں اور اس کی حمایت کرتا ہوں۔ ‘
سینئر بی جے پی رہنما نے دی وائر کو بتایا کہ اڈوانی کافارمولہ اس اعتماد پر مبنی تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے شیعہ، احمدیہ جیسے مظلوم مسلم اقلیت بھی ہندوستان کی ہمدردی کے حقدار ہیں۔
سینئر بی جے پی رہنما نے کہا کہ انہوں نے خود منموہن سنگھ کے جذبے کا عوامی طور پر حمایت کی تھی۔ یہاں تک کہ واجپائی بھی مظلوم اقلیتوں کو شہریت دینے پر غور کرنے کرنے کے حق میں تھے۔’ اصل میں واجپائی جی اکثر طالبان سمیت مختلف حکومتوں کے دوران ملک چھوڑنے والے اورہندوستان میں بنا شہریت کے رہنے والے افغانی پناہ گزینوں (تمام مذاہب اورپیروکاروں کے)کی بربادی کے بارے میں کافی ہمدردانہ طریقے سے بات کیا کرتے تھے۔ اس بی جے پی رہنما نے بتایا کہ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہمیں ان کے لئے ضرور کچھ کرناچاہیے۔ ‘
المیہ یہ ہے کہ شہریت ترمیم قانون کے تحت شاید ان کوواپس افغانستان جانے پر مجبور ہونا پڑےگا۔یہ دلچسپ ہے کہ لیفٹ پارٹیوں نے بھی پڑوسی ممالک سے آنے والی مظلوم اقلیتوں کے لئے نرم شہریت پالیسی کے منموہن سنگھ کی مانگ کی حمایت کی تھی۔ 2012 میں سی پی ایم کے اس وقت کے جنرل سکریٹری پرکاش کرات نے اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کو ان کے 2003 کے بیان کی یاد دلاتے ہوئے خط لکھا تھااور ان سے ‘ اقلیتی کمیونٹی کے پناہ گزینوں’ کو آسانی سے شہریت دینے کے لئےضروری ترمیم لانے کی مانگ کی تھی۔
منموہن اوراڈوانی کی ہی طرح کرات نے بھی خاص مذہبی کمیونٹی کا ذکر نہیں کیا تھا، کیونکہ پڑوس میں جبر واستحصال کی حقیقت مودی حکومت کی شہریت ترمیم قانون کے تصور سے کہیں زیادہ وسیع گروہوں سے جڑ ا ہے۔
حکومت کو دی گئی تھی مذاہب کی فہرست بنانے کے خلاف صلاح
دلچسپ بات یہ ہے کہ 2016 میں اسٹینڈنگ کمیٹی کے ذریعےشہریت ترمیم بل کی تفتیش کرنے کے لئے مدعو کئے گئے آئینی ماہرین کا نظریہ بھی منموہن سنگھ کی طرح ہی تھا-یعنی قانون کی تشکیل خاص مذاہب کی جگہ پڑوسی ممالک کی ‘ مظلوم اقلیتوں’ کو شہریت کا فائدہ دینے کے لئے کیا جائے۔انڈین ایکسپریس میں آئی ایک رپورٹ کے مطابق لوک سبھا کےسابق سکریٹری جنرل سبھاش کشیپ نے تو خاص مذاہب کے نام کا ذکر کرنے کے خلاف تنبیہ بھی کی تھی۔ جے پی سی کے سامنے ثبوت پیش کرتے ہوئے سبھاش کشیپ نے یہ خیال رکھا کہ’ مظلوم اقلیتوں’ان سب کو شامل کر لینے کے لئے کافی ہے، جن کو یہ قانونی تحفظ عطا کرنا چاہتا ہے۔
کشیپ نے 2016 میں جے پی سی کو کہا،’آئین میں اقلیت لفظ کی تشریح نہیں کی گئی ہے۔ میں یہ کہنا چاہوںگا کہ اقلیت کا مطلب صرف مذہبی اقلیت ہی نہیں ہیں۔ دوسری بنیادوں پر بھی اقلیت ہو سکتے ہیں۔ ‘ ظاہر ہے کہ مودی-شاہ نےاس خیال کو قبول نہیں کیا اور اس کی وجہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہے۔مودی نے نہ صرف آئینی ماہرین کی صلاح کو نظرانداز کیا،بلکہ انہوں نے شعوری طورپر واجپائی حکومت کے سینئر بی جے پی رہنماؤں کے ذریعےاظہار کئے گئے خیالات سے دور جانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔