سلگتا بستر: امن مذاکرات کے لیے نکسلیوں کی تجویز

حال ہی میں نکسلائٹس کی سینٹرل کمیٹی نے کہا ہے کہ اگر حکومت نکسلیوں کے خلاف  جاری کارروائیوں کو  روک دیتی ہے تو وہ غیر مشروط امن مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ چھتیس گڑھ کے بستر میں نکسل ازم کے خلاف مرکزی حکومت کی جنگ اور اس کے سماجی نتائج پر دی وائر کے پالیٹکل ایڈیٹر اجئے آشیرواد کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہے ہیں دی وائر ہندی کے مدیر آشوتوش بھاردواج۔

حال ہی میں نکسلائٹس کی سینٹرل کمیٹی نے کہا ہے کہ اگر حکومت نکسلیوں کے خلاف  جاری کارروائیوں کو  روک دیتی ہے تو وہ غیر مشروط امن مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ چھتیس گڑھ کے بستر میں نکسل ازم کے خلاف مرکزی حکومت کی جنگ اور اس کے سماجی نتائج پر دی وائر کے پالیٹکل ایڈیٹر اجئے آشیرواد کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہے ہیں دی وائر ہندی کے مدیر آشوتوش بھاردواج۔

Next Article

سائن بورڈ پر اردو کا جواز پیش کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا؛ آئیے  اردو اور تمام زبانوں سے دوستی کریں

سپریم کورٹ نے مہاراشٹر میں میونسپل  کے سائن بورڈ پر اردو کے استعمال کو چیلنج کرنے والی ایک عرضی کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا  کہ ‘قانون کی کسی بھی شق کے تحت اردو کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ مراٹھی اور اردو کو آئین ہند کے شیڈول آٹھ کے تحت یکساں مقام حاصل ہے۔’

فوٹو: دی وائر

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے منگل (15 اپریل) کو مہاراشٹر میں میونسپل آفس کے سائن بورڈ پر اردو زبان کے استعمال کو صحیح ٹھہرایا ۔

جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن کی بنچ نے پاتور میونسپل کے سائن بورڈ پر اردو کے استعمال کے خلاف ایک سابق کونسلر کی عرضی کو خارج کر دیا۔  عدالت نے کہا، ‘2022 کے ایکٹ یا قانون کی کسی بھی شق کے تحت اردو کے استعمال پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ مراٹھی اور اردو کو آئین ہند کے شیڈول آٹھ کے تحت یکساں مقام  حاصل ہے۔ ‘

یہ فیصلہ اس لیے اہم ہے کیونکہ عدالت نے کئی معنی خیز مشاہدات  پیش کیے ہیں کہ آج کے ہندوستان میں اردو کو کس طرح غلط طریقے سے پیش کیا جا رہا ہے۔

حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سمیت ہندوستان کی  ہندوتوا تنظیمیں طویل عرصے سے اردو کو ایک غیر ملکی زبان کے طور پر پیش کرتی رہی ہیں اور باور کراتی رہی ہیں کہ اسے’مسلم حملہ آوروں نے ملک پر تھوپا تھا۔’

معلوم ہو کہ رواں سال فروری میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اردو پڑھنے والوں، بالخصوص مسلمانوں کے لیے تضحیک آمیز ’کٹھ ملا‘لفظ کا استعمال کیا تھا ۔

اس تناظرمیں عدالت عظمیٰ کے مشاہدات، جو ذیل میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں، اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔

‘نوآبادیاتی سیاست’

یہ اردو کے عروج و زوال پر تفصیل سے بات کرنے کا موقع نہیں ہے، لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندی اور اردو کے اس انضمام کو دونوں  جانب کے شدت پسندوں  کی صورت میں ایک رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑا اور ہندی سنسکرت سے ملتی جلتی اردو زیادہ فارسی آمیز ہو گئی۔ استعماری طاقتوں نے مذہب کی بنیاد پر دو زبانوں کو تقسیم کرکےاس کا فائدہ اٹھایا۔

اب ہندی ہندوؤں کی زبان اور اردو مسلمانوں کی زبان سمجھی جانے لگی، جو حقیقت سے، لسانی تنوع  کےتصور سے اور بھائی چارے کی روایت کے منافی ہے۔

اگر لوگ زبان جانتے ہیں…

عدالت نے کہا؛ موجودہ کیس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا ضروری ہے کہ میونسپل علاقے کی مقامی کمیونٹی کو خدمات فراہم کرنے اور ان کی روزمرہ کی فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لیےہوتا ہے۔ اگر میونسپل کےتحت آنے والے علاقے میں رہنے والے لوگ یا لوگوں کا ایک گروپ اردو سے واقف ہے تو کم از کم میونسپل کے سائن بورڈز پر سرکاری زبان یعنی مراٹھی کے علاوہ اردو استعمال کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ زبان خیالات کے تبادلے کا ایک ذریعہ ہے جو مختلف نظریات اور عقائد رکھنے والے لوگوں کو قریب لاتی ہے۔ اس کو ان کی تقسیم کی وجہ نہیں بننی چاہیے۔

‘اسی زمین سے پیدا ہوئی…’

اردو کے خلاف تعصب اس غلط فہمی کی وجہ سے ہے کہ اردو ہندوستان کے لیے غیر ملکی ہے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ رائے غلط ہے، کیونکہ اردو، مراٹھی اور ہندی کی طرح ہند آریائی زبان ہے۔ یہ وہ زبان ہے جس نے اس سرزمین میں جنم لیا۔ اردو ہندوستان میں مختلف ثقافتی پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ضرورت کی وجہ سے ترقی اور پروان چڑھی، جو خیالات کا تبادلہ اور ایک دوسرے سے بات چیت کرنا چاہتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس نے اور بھی شہرت حاصل کی اور صدیوں کے دوران بہت سے مشہور شاعروں کی پسندیدہ زبان بن گئی۔

‘کوئی نئی بحث نہیں’

زبانوں کی بحث کوئی نئی بات نہیں۔ درحقیقت یہ آزادی سے پہلے ہی شروع ہو چکی تھی اور تحریک آزادی کے دوران بھی ہندوستانی زبانوں کے زیادہ استعمال کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا تھا۔ ہندوستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے تسلیم کیا کہ ہندی، اردو اور پنجابی جیسی مختلف ہندوستانی زبانوں کے اتحاد سے بننے والی زبان کو ‘ہندوستانی’ کہا جاتا ہے، جو اس ملک کا ایک بڑا حصہ بولتا ہے۔

شاعر اقبال اشہر کی نظم

کسی بھی زبان کے بارے میں ہمارے اندر جو بھی غلط فہمیاں یا تعصبات ہیں، ہمیں ان کو ہمت اور ایمانداری کے ساتھ حقیقت کی کسوٹی  پر پرکھنا ہوگا،  جو ہمارے ملک کا عظیم الشان تنوع ہے۔ ہماری طاقت کبھی ہماری کمزوری نہیں بن سکتی۔ آئیے  اردو اور ہر زبان سے دوستی کریں۔

اگر اردو خود اپنے لیے بولتی تو کہتی؛

اردو ہے مرا نام میں خسروؔ کی پہیلی

کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ

میں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں مانا

دیکھا تھا کبھی میں نے بھی خوشیوں کا زمانہ

اپنے ہی وطن میں ہوں مگر آج اکیلی

اردو ہے مرا نام میں خسروؔ کی پہیلی

زبان کا تعلق کمیونٹی سے ہے

آئیے اپنے تصورات کو واضح کریں۔ زبان مذہب نہیں ہے۔ زبان مذہب کی نمائندگی بھی نہیں کرتی۔ زبان کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہوتا بلکہ کسی برادری، علاقے اور لوگوں سے ہوتا ہے۔ زبان ثقافت ہے۔ یہ کسی کمیونٹی اور اس کے لوگوں کے تہذیبی سفر کو ماپنے کا ایک پیمانہ ہے۔

اردو کا بھی یہی معاملہ ہے۔ یہ گنگا جمنی تہذیب، یا ہندوستانی تہذیب کی ایک بہترین مثال ہے، جو شمالی اور وسطی ہندوستان کے میدانی علاقوں کی مشترکہ ثقافتی ورثہ ہے۔ لیکن سیکھنے کا ذریعہ بننے سے پہلے زبان ہمیشہ رابطے کا ذریعہ رہی ہے اور یہی اس کا پہلا اور بنیادی مقصد تھا۔

اب واپس آتے ہیں اپنے معاملے کی طرف… یہاں اردو استعمال کرنے کا مقصد صرف رابطہ ہے۔ میونسپل صرف موثر مواصلات قائم کرنا چاہتا تھا۔ یہ کسی بھی زبان کا بنیادی مقصد ہے، جس پر بامبے ہائی کورٹ نے بھی زور دیا ہے۔

‘تنوع میں لطف حاصل کیجیے’

ہمیں اپنے تنوع کا احترام کرنا چاہیے اور اس سے لطف اندوز ہونا چاہیے… بالخصوص اپنی  بہت سی زبانوں کے تنوع کا۔ ہندوستان میں سو سے زیادہ اہم  زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ سیکڑوں زبانیں ایسی بھی ہیں جنہیں بولیاں یا ‘مادری زبان’ کہا جاتا ہے۔

سال 2001 کی مردم شماری کے مطابق، ہندوستان میں کل 122 اہم  زبانیں تھیں، جن میں 22 شیڈول زبانیں شامل تھیں، اور کل 234 مادری زبانیں درج تھیں۔ اردو ہندوستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی چھٹی زبان تھی۔ درحقیقت، شاید شمال- مشرقی ریاستوں کے علاوہ یہ تقریباً ہر ریاست اور یونین ٹیریٹری کے کسی نہ کسی حصے میں ضرور بولی جاتی ہے۔

سال 2011 کی مردم شماری میں مادری زبانوں کی تعداد بڑھ کر 270 ہو گئی۔ تاہم، یہ بات اہم ہے کہ یہ اعداد و شمار صرف ان مادری زبانوں کو شامل کر کے تیار کیے گئے جنہیں  دس ہزار سے زیادہ لوگ بولتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہندوستان میں حقیقی مادری زبانوں کی تعداد ہزاروں میں ہوسکتی ہے۔

ہندوستان کا لسانی تنوع واقعی حیرت انگیز اور عظیم الشان  ہے!

رواداری

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ زبان صرف ایک ذریعہ نہیں ہے، یہ ایک ثقافت کی نمائندہ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زبان پر کوئی بھی بحث نہ صرف حساس ہوتی ہے بلکہ انتہائی نازک بھی ہوتی ہے۔ ایسی صورت حال میں ‘رواداری’ کا کردار، جو ہمارے آئین کی ایک بنیادی قدر ہے، انتہائی اہم ہو جاتا ہے۔

ہم ہندوستان کے لوگوں نے، مرکزی سطح پر زبان کے مسئلے کو حل کرنے کی بہت کوششیں کی ہیں، اور یہ ہماری ایک منفرد کامیابی ہے، خاص طور پر جب ہم اس ملک کے لسانی تنوع کے بارے میں بار بار بات کر رہے ہیں۔

عدالت کی زبان پر اثر

دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو الفاظ کا عدالتی زبان پر گہرا اثر ہے، چاہے وہ فوجداری قانون ہو یا دیوانی قانون۔ عدالت سے  لے کرحلف نامہ اور پیشی تک… ہندوستانی عدالتوں کی زبان میں اردو کا اثر واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اگرچہ آئین کے آرٹیکل 348 کے مطابق سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی سرکاری زبان انگریزی ہے لیکن ان عدالتوں میں اب بھی اردو کے بہت سے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں وکیل نامہ، دستی وغیرہ شامل ہیں۔

ریاستوں کے ذریعے استعمال

ایک اور نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو، اردو زبان کو دوسری سرکاری زبان کے طور پر ہندوستان کی کئی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے آئین کے آرٹیکل 345 کے تحت دیئے گئے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اپنایا ہے۔ جن ریاستوں میں اردو کو سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے وہ ہیں آندھرا پردیش، بہار، جھارکھنڈ، تلنگانہ، اتر پردیش اور مغربی بنگال۔ جبکہ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں دہلی اور جموں و کشمیر شامل ہیں۔

آئینی نقطہ نظر سے بھی سرکاری مقاصد کے لیے زبان کا استعمال کسی سخت فارمولے کے مطابق  نہیں کیا جاتا ہے۔

Next Article

وزارت داخلہ نے گجرات فسادات کے متاثرین کے بچوں اور رشتہ داروں کو سرکاری بھرتیوں میں ملنے والی رعایت واپس لی

سال 2002 کے گجرات فسادات کے متاثرین کو سرکاری بھرتیوں میں عمر میں رعایت، اضافی ایکس گریشیا اور دیگر مراعات دی جاتی تھیں۔ وزارت داخلہ نے ایک حالیہ آرڈر میں فسادات میں ہلاک ہونے والوں کے بچوں یا رشتہ داروں کو مختلف سرکاری عہدوں پر بھرتی کے لیےدی گئی عمر میں رعایت کو رد کر دیا ہے۔

نئی دہلی: مرکزی وزارت داخلہ نے حال ہی میں جاری ایک آرڈر میں اعلان کیا ہے کہ 2002 کے گجرات فسادات میں ہلاک ہونے والوں کے بچوں یا رشتہ داروں کو مختلف سرکاری عہدوں پر بھرتی کے لیے دی گئی عمر میں چھوٹ رد کر دی گئی ہے ۔

گزشتہ  28 مارچ کو مرکزی وزارت داخلہ کے ڈپٹی سکریٹری پی وینکٹن نائر کی جانب سے جاری اس آرڈر میں  گجرات کے چیف سکریٹری کو مخاطب کیا گیا تھا۔

نائر نے 2007 میں وزارت کی طرف سے جاری کیے گئے ایک حکم نامے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عمر میں چھوٹ کو فوری اثر سے واپس لے لیا گیا ہے۔  انہوں نے کہا کہ ‘ضروری عمر میں رعایت کا فائدہ نیم فوجی دستوں، انڈیا ریزرو (آئی آر) بٹالین، ریاستی پولیس فورسز، پبلک سیکٹر انڈرٹیکنگس اور دیگر ریاستی اور مرکزی حکومت کے محکموں میں بھرتی پر لاگو ہوتا تھا۔’

نائر کے حکم میں حکومت کے فیصلے کے پیچھے کی وجہ نہیں بتائی گئی ہے۔

بھرتی میں عمر میں رعایت، گجرات فسادات کے متاثرین کو اضافی ایکس گریشیا کے ساتھ دیگر مراعات بھی دی جاتی تھیں۔  گجرات فسادات کے دوران ریاست میں سینکڑوں لوگ مارے گئے تھے، جن میں سے اکثر کا تعلق مسلم کمیونٹی سے تھا۔

ہیومن رائٹس واچ نے فسادات کے دس سال بعد کہا تھاکہ ‘گجرات کے اندر معاملوں  کی تحقیقات اور ان پر مقدمہ چلانے کی کوششوں کو روک دیا گیا تھا، اور مقدمات میں ملوث کارکنوں اور وکلاء کو ہراساں کیا گیا اور انہیں دھمکایا گیا تھا۔’

اس میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان دس سالوں کے دوران ‘مسلم مخالف تشدد میں گجرات کے ریاستی اہلکاروں کی ملی بھگت کے ثبوت سامنے آئے۔’

یہ بھی الزام لگایا گیا کہ اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ اور اب وزیر اعظم نریندر مودی فسادات کے لیے ذمہ دار تھے۔ لیکن مودی نے اس کی تردید کی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ پوڈ کاسٹر لیکس فریڈمین کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو کے دوران مودی نے کہا کہ گجرات میں فرقہ وارانہ فسادات کی ایک طویل تاریخ  رہی ہے، ان کے وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے ہی۔ مودی نے تشدد سے پہلے ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے ‘پس منظر’ کی طرف اشارہ کیا۔

سال 2022 کے ایک فیصلے میں  سپریم کورٹ نے فسادات کی تحقیقات کرنے والی خصوصی تحقیقاتی ٹیم کی کلوزر رپورٹ کو برقرار رکھا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ انہیں  مودی کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا۔

Next Article

اتر پردیش: اَن آرگنائزڈ سیکٹر کے مزدوروں کے لیےمختص ہوئے 425 کروڑ، خرچ چونی بھی نہیں

اتر پردیش میں اَن آرگنائزڈ  مزدوروں  کے لیے گزشتہ چار سالوں میں مختلف اسکیموں کے لیےتقریباً 425 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔ لیکن اس پیسے کوخرچ نہیں کیا گیا کیونکہ ان مزدوروں کے لیے کوئی  بھی اسکیم چلائی ہی نہیں جا رہی تھی۔

الہ آباد: اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ریاست کی ہمہ جہت ترقی کے دعووں کے باوجود حکومت نے پچھلے سالوں میں ریاست کے ساڑھے چار کروڑ سے زیادہ اَن آرگنائزڈ سیکٹر کے مزدوروں کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔

ریاست کا بجٹ 8 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ہے، لیکن حیرت کی بات ہے کہ یوگی حکومت نے گزشتہ چار سالوں میں اَن آرگنائزڈ سیکٹرکے مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی رقم خرچ نہیں کی۔

دی وائر نے 17 فروری کو معلومات کے حق کے قانون کے تحت ریاستی حکومت کی طرف سے اَن آرگنائزڈ سیکٹر کے مزدورں کے لیے چلائی جانے والی اسکیموں کے بارے میں ایک درخواست  داخل کی تھی۔ اس درخواست کے ذریعے ریاست کے سوشل سکیورٹی بورڈ سے اَن آرگنائزڈ مزدروں کے لیے اسکیموں اور ان پر پچھلے چار سالوں میں کیے گئے اخراجات کی تفصیلات مانگی گئی تھیں۔

اتر پردیش کے اَن آرگنائزڈ سیکٹر کے مزدوروں کا رجسٹریشن اور ان کے لیے سماجی تحفظ کی اسکیموں کے نفاذ کی ذمہ داری سوشل سکیورٹی بورڈ کی ہے۔

درخواست  میں سوال پوچھا گیا  تھاکہ مالی سال 2021-22، 2022-23، 2023-24 اور 2024-25 میں ریاستی حکومت نے اَن آرگنائزڈ سیکٹرکے مزدوروں کے لیے کس اسکیم کے تحت کتنا بجٹ منظور کیا اور اس بجٹ کا کتنا حصہ خرچ کیا گیا؟

اس کے جواب میں بورڈ نے بتایا کہ؛


‘پہلے تین مالی سالوں میں 112 کروڑ روپے’ ​​اور ‘2024-25 میں 92 کروڑ روپے’ ​​مختلف اسکیموں کے لیے مختص کیے گئے ۔ لیکن یہ رقم خرچ نہیں ہو سکی کیونکہ اَن آرگنائزڈ مزدوروں کے لیے کوئی اسکیم نہیں چلائی جا رہی تھی۔’


اس کا مطلب ہے کہ پچھلے چار سالوں میں یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے نہ تو کوئی اسکیم نافذ کی اور نہ ہی ریاست کے اَن آرگنائزڈ مزدوروں کے لیے ایک پیسہ خرچ کیا۔

اگلا سوال یہ تھا کہ کیا اتر پردیش کے اَن آرگنائزڈ مزدوروں کے لیے اعلان کردہ اسکیموں کی تشہیر کا کوئی نظام ہے؟ اگر ہاں تو اس کے لیے مذکورہ چار سالوں میں کتنا بجٹ مختص کیا گیا اور  کتنا خرچ کیا گیا۔

سوشل سکیورٹی بورڈ نے جواب دیا کہ مالی سال 2021-22 میں پانچ لاکھ روپے اور سال 2022-23، 2023-24 اور 2024-25 میں سات لاکھ اسی ہزار روپے ان سکیموں کی تشہیر کے لیے مختص کیے گئے تھے، لیکن یہ رقم خرچ نہیں ہو سکی کیونکہ کوئی اسکیم نہیں چل رہی تھی۔

ظاہر ہے کہ جب محکمہ کوئی اسکیم نہیں چلا رہا تھا تو ان کی تشہیر کا کوئی مطلب نہیں تھا۔

سوشل سیکورٹی بورڈ سے یہ بھی پوچھا گیا کہ ان مالی سالوں میں اَن آرگنائزڈ سیکٹر کے مزدوروں سے لیبر ڈپارٹمنٹ کو مالی مدد کے لیے کتنی درخواستیں موصول ہوئیں اور کتنے مزدوروں کی مدد کی گئی۔ جواب میں بورڈ نے کہا کہ اسے ایسی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔


‘حکومت ہند کے پورٹل ای شرم کے مطابق، ملک میں 30.68 کروڑ سے زیادہ اَن آرگنائزڈ مزدرو ہیں، جن میں نصف سے زیادہ خواتین (53.68 فیصد) ہیں۔ اس میں سے تقریباً 8 کروڑ 38 لاکھ مزدور اتر پردیش سے رجسٹرڈ ہیں ۔ یہ ملک میں رجسٹرڈ مزدوروں کا تقریباً 27.5 فیصد ہے۔ اَن آرگنائزڈ مزدوروں  کی اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود ریاستی حکومت کے پاس ان کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی منصوبہ نہیں ہے۔


ریاست میں کانٹریکٹ ورکرز کو ہراساں کرنا عام ہے اور بازار میں مزدوروں کی دستیابی ان کی اجرت کی شرح کو کم کرتی ہے۔ اس کے باوجود حکومت کا کہنا ہے کہ اسے پچھلے چار سالوں میں ان مزدوروں  کی مدد کے حوالے سے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ستمبر 2022 میں جہاں غیر ہنر مند مزدورکی کم از کم اجرت 367 روپے، نیم ہنر مند مزدور 403 روپے اور ہنر مندمزدور کی 452 روپے یومیہ تھی، وہیں یہ 31 مارچ تک بالترتیب 412 روپے، 463 روپے اور 503 روپے یومیہ مقرر کی گئی ہے۔ بے قابو مہنگائی کے مدنظریہ اضافہ انتہائی ناکافی اور ایک عام مزدور کی روزمرہ  کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہے۔

خواتین مزدوروں کی حالت کہیں بدتر

چونکہ ملک میں اَن آرگنائزڈ سیکٹر میں کام کرنے والے کل مزدوروں میں سے 53 فیصد سے زیادہ خواتین ہیں، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اتر پردیش میں اَن آرگنائزڈ سیکٹر میں چار کروڑ سے زیادہ خواتین کام کرتی ہیں۔ انہیں یہ روزگار زراعت، تعمیرات اور گھریلو کام کی صورت میں ملتا ہے۔ ریاست میں زراعت کے شعبے میں کام کرنے والی خواتین کو اوسطاً 200 روپے یومیہ اجرت ملتی ہے۔ یعنی اتر پردیش کی خواتین مزدور چھ سے آٹھ ہزار روپے ماہانہ پر کام کرنے کو مجبور ہیں۔

وہیں، مردوں کی اوسط ماہانہ تنخواہ دس سے گیارہ ہزار کے قریب پہنچتی ہے۔ ریاستی حکومت کے پاس اس بڑی آبادی کو کم از کم اجرت یقینی بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ اَن آرگنائزڈ سیکٹر میں کام کرنے والوں کا تعلق ریاست کے دلت، قبائلی اور پسماندہ طبقات سے ہے۔ یہ کمیونٹی اپنی بنیادی ضروریات کے لیے روزانہ جدوجہد کرتی ہے۔

جب دی وائر نے ریاست کے محنت اور روزگار کے وزیر منوہر لال سے پوچھا کہ حکومت نے ان مزدوروں کی بہبود کے لیے مختص رقم کیوں خرچ نہیں کی، تو انھوں نے جواب دیا، ‘اس موضوع پر انھیں کوئی معلومات نہیں ہے۔’

جب ہم نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ریاستی ترجمان راکیش ترپاٹھی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی کہا، ‘میرے پاس اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہے۔’

(ہرے رام مشر آزاد صحافی ہیں۔)

Next Article

تہور رانا کی حوالگی: سفارتی کامیابی یا ایک اور فریب

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا تہور حسین رانا کی حوالگی سے ممبئی حملوں کے باقی تار جڑ جائیں گے یا اس کو بس گودی میڈیا کے ذریعے ڈھنڈورا پٹوانے کا کام کیا جائےگا۔کئی تجزیہ کارو ں کا کہنا ہے کہ رانا کو موت کی سزا دے کر ہی اب اگلا عام انتخاب لڑا جائے گا۔

 حال ہی میں نومبر 2008کے ممبئی حملوں میں ملوث پاکستانی نژاد کینیڈا کے شہری تہور حسین رانا کی امریکہ سے ہندوستان  حوالگی ایک بڑی سفارتی کامیابی گر دانی جار ہی ہے۔ مگر بڑا سوال ہے کہ کیا اس حوالگی سے ممبئی حملوں کی پلاننگ وغیر کے حوالے سے ٹوٹے ہوئے تار جوڑنے میں مدد ملے گی؟

عوامی یاداشت انتہائی کمزور ہوتی ہے۔ اگر یہ کمزور نہ ہوتی، تو یقیناًسوال پوچھا جاتا کہ 25جون 2012 کی اسی طرح ہندوستانی  ایجنسیوں نے ذبیح الدین انصاری عرف ابو جندل کو سعودی عرب سے لانے میں جب کامیابی حاصل کی تھی، تو ان تیرہ برسوں میں کیس میں کس قدر پیش رفت ہوئی ہے؟

اس وقت بھی بالکل اسی طرح کا ڈھونڈورا پیٹا گیا تھا کہ اب ممبئی حملوں کی پوری سازش بے نقاب ہو جائےگی۔ 2008 سے ہی بتایا جاتا تھا کہ مہاراشٹر کے بیہڑ ضلع کے رہائشی انصاری ہی حملوں کے وقت کراچی میں قائم کنٹرول روم سے حملہ آوروں کو گائیڈ کر رہا تھا۔

مگر 2016میں عدالت نے اس کو  2006  میں اورنگ آباد  کے اسلحہ برآمدگی کیس میں سزا سنائی۔ ممبئی حملوں کے سلسلے میں اس کی ٹرائل کی اب خبر بھی نہیں آرہی ہے۔

ہندوستان کے اقتصادی مرکز ممبئی پر ہونے والا دہشت گرد حملہ اس لحاظ سے منفردتھاکہ اس سے دو ماہ قبل ہی پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں میرٹ ہوٹل پر خود کش ٹرک حملہ میں پچاس سے زائد افراد ہلاک ہوچکے تھے، جن میں تین امریکی شہری بھی شامل تھے۔

اس کے علاوہ  امریکی سی آئی اے اور ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں جیسے انٹلی جنس بیورو، ریسرچ اینڈ انیلیسز ونگ(را)سمیت تقریباً سبھی خفیہ اداروں حتیٰ کہ ممبئی پولیس اور پانچ ستارہ ہوٹل تاج کی انتظامیہ کو بھی ا ن حملوں کی پیشگی اطلاع تھی۔

دو برطانوی صحافیوں اڈرین لیوی اور کیتھی اسکارٹ کلارک کی تحقیق پر مبنی کتاب دی سیج کے مطابق، اس حملے سے پہلے ایک سال کے دوران مختلف اوقات میں چھبیس اطلاعات ان اداروں کوموصول ہوئیں جن میں ان حملوں کی پیشن گوئی کے علاوہ حملہ آوروں کے راستوں کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔

اتنی واضح خفیہ اطلاعات کے باوجود ہندوستانی سکیورٹی ایجنسیوں نے ان حملوں کو روکنے کی پیش بندی کیوں نہیں کی؟ یہ ایک بڑا سوال ہے جس سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔

یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ دو سال کے تعطل کے بعد جولائی2006ء میں ممبئی ٹرین دھماکوں اوربعد میں سمجھوتہ ایکسپریس پرکیے گئے حملوں کے بعدپاکستان اورہندوستان باہمی تعلقات معمول پر لانے کی سعی کر رہے تھے۔

جس وقت ممبئی میں حملہ ہوا عین اسی وقت پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اپنے ہندوستانی ہم منصب پرنب مکھرجی کے ساتھ نئی دہلی کے حیدر آباد ہاؤس میں محوگفتگو تھے اور ہندوستانی سکریٹری داخلہ مدھوکر گپتا پاکستان میں تھے۔

خفیہ معلومات اس حد تک واضح تھیں کہ اگست2008 ء میں جب ممبئی پولیس کے ایک افسر وشواس ناگرے پا ٹل نے شہر کے فیشن ایبل علاقے کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس کا چارج سنبھالا تو ان کی نظر اس خفیہ فائل پر پڑی جس میں نہ صرف حملوں کا ذکر تھا بلکہ اس کے طریقہ کار پر بھی معلومات درج تھیں۔

ان اطلاعات کا ماخذ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے تھی۔آئی بی کے ایک مخبر کی طرف سے بھیجی گئی پل پل کی اطلاعات بھی  موجود تھیں جن میں حملے کے لیے تاج ہوٹل کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔

اس افسر نے فوراً تاج ہوٹل کی انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ وہ معقول حفاظتی انتظامات کا بندوبست کریں۔

 اسلام آبادکے میریٹ ہوٹل میں دھماکہ اور اکتوبر میں دوبارہ اسی طرح کی خفیہ معلومات ملنے کے بعد پاٹل نے تاج ہوٹل کی سکیورٹی کے ساتھ گھنٹوں کی ریہرسل کی،کئی دروازے بند کروائے اور اس کے ٹاور کے پاس سکیورٹی پکٹ قائم کی۔

ان انتظامات کے بعد پاٹل چھٹی پر چلے گئے۔اس دوران تاج ہوٹل کی انتظامیہ نے نہ صرف حفاظتی بندشیں اورسکیورٹی پکٹ ہٹوا دیں۔ بتایا گیا کہ حفاظت پر  مامور حفاظتی اہلکار دوران ڈیوٹی ہوٹل کے کچن سے کھانا مانگ رہے ہیں۔

اس کتاب میں حملے کے محرک پاکستانی نژاد امریکی شہری ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے کردار اور پس منظر پر خاصی روشنی ڈالی  گئی ہے۔

اس کے مطابق ہیڈلی دراصل امریکی انسداد منشیات ایجنسی اور سی آئی اے کے مخبر کے طور پر کام کرتاتھا۔ ڈرگ انفورسمنٹ کے لیے اطلاعات فراہم کرنے اور ہیروئن حاصل کرنے کے لیے ہیڈلی نے جب 2006 ء میں افغانستان سے متصل سرحدی قبائلی علاقوں کا دورہ کیا تھا۔

امریکہ کو اندیشہ تھا کہ القاعدہ کے جنگجو لشکر کی صفوں میں داخل ہوگئے ہیں جن کے ذریعے اسامہ بن لادن تک پہنچا جاسکتا ہے۔

ممبئی میں یہودیوں کے مرکز ’شباڈ ہاؤس‘ پرحملے کے لیے لشکر کی اعلیٰ قیادت تیار نہیں تھی کیونکہ ان کو علم تھا کہ اس سے وہ عالمی جہاد کا حصہ بن کر القاعدہ اور طالبان کی طرح برا ہ راست امریکی اوردیگر مغربی طاقتوں کا نشانہ بن جائیں گے،لیکن ان تفتیشی صحافیوں کے مطابق کیمپ میں مقیم زیرتربیت اٹھارہ ہندوستانی جنگجوؤ ں کے اصرار پر شباڈ ہاؤس کو ٹارگٹ لسٹ میں شامل کرلیا گیا۔ان میں ذبیح الدیں انصاری  عرف ابوجندل بھی شامل تھا۔

 صوبہ مہاراشٹر میں انصاری کوجاننے والوں کا کہنا ہے کہ وہ ضلع بیہڑ کے پولیس ہیڈکوارٹر میں بطورالیکٹریشن اورمقامی مخبرکام کرتا تھا۔انسداد دہشت گردی سیل کے سربراہ کے پی رگھونشی جب ایک بار ضلع کے دورہ پر تھے، تو اس کو اپنے ساتھ لے گیا۔

بتایا جاتا ہے کہ 2006ء میں اسی صوبے کے شہر اورنگ آباد میں اسلحے کے ایک بڑے ذخیرے کو پکڑوانے میں انصاری نے کلیدی کردار ادا کیا،جس کے بعد وہ روپوش ہوکرلشکر میں شامل ہوگیا۔اسی کیس میں اس کو سزا بھی ہوگئی ہے۔

ادھر امریکہ اورپاکستان میں ہیڈلی کی گرل فرینڈز، بیوی اوردوسرے اہل خانہ اس کی مشکوک سرگرمیوں کے بارے میں خدشات ظاہرکررہے تھے۔

پاکستان میں مقیم اس کی بیوی فائزہ نے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ جاکربھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا اوراصرار کیا کہ اس کے شوہر کی وقتاً فوقتاً ممبئی جانے اوروہاں اس کی مصروفیات کی تفتیش کی جائے مگر سفارت خانہ کے افسروں نے اس کی شکایت کو خانگی جھگڑاقرار دے کر فائل داخل دفترکردی۔

 دوسری جانب خفیہ اطلاعات کے باوجود ہندوستان کی سکیورٹی انتظامیہ کی لاپروائی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب نیشنل سکیورٹی گارڈز (این ایس جی) نے دہلی سے متصل ہریانہ میں اپنے ہیڈکوارٹرسے حملوں کے بیس منٹ بعد ہی نقل و حرکت شروع کی تو کابینہ سکریٹری اور بعد میں وزارت داخلہ کے ایک جوائنٹ سکریٹری نے فون کرکے انہیں متنبہ کیا کہ وہ احکامات کے بغیرنقل و حرکت کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔

اس تنبیہ کے ستر منٹ بعد وزارت داخلہ نے انہیں بتایا کہ صوبائی وزیراعلیٰ نے این ایس جی کی مدد مانگی ہے اس لیے وہ فوراً ممبئی روانہ ہوجائیں مگر ائیر پورٹ جاکر معلوم ہوا کہ ہندوستانی فضائیہ کا ٹرانسپورٹ طیارہ ابھی کئی سو کلومیٹر دور چندی گڑھ میں ہے۔

کمانڈو یونٹ کے سربراہ جیوتی دتہ نے را ء سے ان کا خصوصی طیارہ مانگا تو پتہ چلا کہ اس کا عملہ غائب ہے اور جہاز میں ایندھن بھی نہیں ہے۔آدھی رات کے بعد جب دستہ طیارے میں سوار ہوا توان کو بتایا گیا کہ وزارت داخلہ کے چند افسر بھی ان کے ہمراہ جارہے ہیں اس لیے ان کا انتظار کیا جائے۔

بالآخر جب طیارہ اگلے دن صبح ممبئی پہنچا تو افسرکو لینے کے لیے چمچاتی اور لال بتی والی گاڑیاں موجود تھیں مگر کمانڈو دستوں کو لے جانے کے لیے کوئی ٹرانسپورٹ نہیں تھی۔ اس عرصے کے دوران تاج اور اوبرائے ہوٹلوں کے علاوہ یہودی مرکز پر جنگجوؤں نے مکمل کنٹرول حاصل کرلیا تھا اور سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن چکے تھے۔

ان حملوں سے دو سال قبل18فروری 2007ء کی شب دہلی اور لاہور کے درمیان چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس کے دو ڈبے تاریخی شہر پانی پت کے نزدیک دھماکوں سے اڑ گئے۔ 68 اموات میں اکثر پاکستانی شہری تھے۔

ابتدائی تفتیش میں ہندوستانی ایجنسیوں نے ان دھماکوں کے تار بھی مسلم نوجوانوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی، چند ایک کو حراست میں بھی لیا۔ میڈیا میں انڈین مجاہدین اور پاکستان میں سرگرم کئی تنظیموں کا بھی نام لیا گیا۔

مگر چند دیانت دار افسران کی بدولت اس دھماکہ میں ایک ہندو انتہا پسند تنظیم’ ابھینوبھارت‘ کے رول کو بے نقاب کیا گیا۔سب سے زیادہ خطرے کی گھنٹی اس وقت بجی جب نومبر 2008ء میں ملٹری انٹلی جنس کے ایک حاضر سروس کرنل پرساد سری کانت پروہت کے رول کی نشاندہی کرکے اس کو گرفتار کیا گیا۔

اگلے دو سالوں میں نیشنل انویسٹی گیٹنگ ایجنسی (این آئی اے) نے سوامی اسیما نند اور ایک انجینئر سندیپ ڈانگے کو بھی حراست میں لے لیا۔ اسی دوران راجستھان کے انٹی ٹیررسٹ اسکواڈ کے 806 صفحات پر مشتمل فرد جرم میں انکشاف کیاگیاکہ فروری 2006ء میں ہندو انتہا پسندوں نے وسطی ہندوستان کے ایک شہر اندور میں سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے کی سازش تیار کی تھی۔

اس میٹنگ میں ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوک سیوم سنگھ(آر ایس ایس) کے مقتدر لیڈر اندریش کمار بھی موجود تھے۔ اس سے قبل ان کا نام اجمیر شریف کی درگاہ میں ہوئے دھماکہ کی سازش میں بھی آیا تھا۔

مگر ان کی کبھی دوران حراست تفتیش نہیں ہوئی۔ 12 فروری 2012ء میں این آئی نے آر ایس ایس کے کارکنوں راجندر پہلوان، کمل چوہان اور اجیت چوہان کر گرفتار کیا۔ ایجنسی کے بقول ان تین افراد نے ہی ٹرین میں بم نصب کیے تھے۔

گو کہ ہندوستان میں سرکاری ایجنسیاں دہشت گردی سے متعلق واقعات کے تار آنکھ بند کیے مسلمانوں سے جوڑتی آرہی ہیں، مگر 29 ستمبر 2008ء کو مہاراشٹر کے مالیگاؤں شہر کے ایک مسلم اکثریتی علاقہ میں ہوئے دھماکوں اور اس میں ملی لیڈز نے مہاراشٹر کے اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ کے سربراہ ہیمنت کرکرے کو چونکا دیا۔

اور ایک غیر جانبدارانہ تفتیش کے بعد اس نے ہندو دہشت گردی کا بھانڈا فاش کیا۔ کرکرے ممبئی حملوں میں دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے، جس کے بعد یہ تفتیش مرکزی ایجنسی این آئی اے کے سپر د کی گئی۔

اس کے بعد تو حیدرآباد کی مکہ مسجد، اجمیر درگاہ، سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں کے تار ہندو دہشت گردی سے جڑتے گئے۔ جب کرکرے نے یہ نیٹ ورک بے نقاب کیا تھا تو بی جے پی اور شیو سینا کے متعدد رہنماؤں نے ان کے خلاف زبردست شور برپا کیا اور انہیں ‘ملک کا غدار‘ قرار دیا تھا۔

بہرحال کرکرے کی تحقیق کا یہ نتیجہ نکلا کہ دہشت گردانہ واقعات کے بارے میں جو عمومی تاثر پید اکردیا گیا تھا وہ کچھ حد تک تبدیل ہوا کہ اس کے پشت پر وہ عناصر بھی ہیں جو اس ملک کوہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں۔

ابتداء میں ان واقعات میں معصوم مسلم نوجوانوں کو ماخوذ کرکے انہیں ایذائیں دی گئیں اور کئی ایک کو برسوں تک جیلوں میں بند رکھا گیا۔

ایک معروف صحافی لینا گیتا رگھوناتھ نے کانگریسی حکومت کی ہند و دہشت گردی کے تئیں’ نرم رویہ‘ کو افشاں کیا تھا۔

لینا کے بقول؛

تفتیشی ایجنسیوں کے ایک افسر نے انہیں نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وزارت داخلہ کو سونپی گئی ان خفیہ رپورٹوں کے مطالعے کی اجازت دی تھی۔

ان رپورٹوں میں مرکزی وزارت داخلہ سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ وہ آر ایس ایس کو ایک شو کاز (وجہ بتاؤ) نوٹس جاری کرے کہ اس کے خلاف جو شواہد اور ثبوت ہیں کیوں نہ ان کی بنیاد پر اسے غیر قانونی اور ممنوع قرار دیا جائے؟

مہاراشٹر کی اس وقت کی کانگریس کی قیادت میں مخلوط حکومت نے بھی ابھینو بھارت اور دیگر ہندو انتہا پسند تنظیموں کو غیر قانونی قرار دینے کی سفارش کی تھی لیکن اس پر مرکزی حکومت نے عمل نہیں کیا۔

خیر اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا تہور حسین رانا کی حوالگی سے ممبئی حملوں کے باقی تار جڑ جائیں گے یا اس کو بس گودی میڈیا کے ذریعے ڈھنڈورا پٹوانے کا کام کیا جائےگا۔ کئی تجزیہ کارو ں کا کہنا ہے کہ رانا کو موت کی سزا دے کر ہی اب اگلا عام انتخاب لڑا جائےگا۔

ویسے  عوامی یاداشت اتنی کمزور تو ہے ہی کہ انصاری کی حوالگی جس طرح اب یاداشت سے محو ہو چکی ہے، چند سال بعد رانا کی حوالگی کو بھی عوام بھول جائیں گے۔ میڈیا جو ایک زمانے میں سوال پوچھتا تھا وہ بھی اب حکومت کا احتساب کرنے سے کتراتا ہے، خاص طور پر جب قومی سلامتی کا معاملہ ہو۔

Next Article

اتراکھنڈ میں فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی سیاست

عوام کی توجہ ہٹانے اور ووٹ حاصل کرنے کے لیےاتراکھنڈ کو فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے ذریعے سماجی تصادم کی ایک نئی تجربہ گاہ میں تبدیل کیا جا رہا ہے ۔ ایک حساس ہمالیائی ریاست کے طور پر اس کی شناخت مٹائی جا رہی ہے۔

حال ہی میں اتراکھنڈ میں بی جے پی کی ڈبل انجن سرکارنے ان لوگوں کو مضطرب کر دیا ہے، جو ریاست میں سماجی تصادم اور نسلی تعصب میں اضافہ کے امکان سے تشویش میں مبتلا ہیں۔ اتراکھنڈ میں مقامی بنام بیرونی جنون اور عوامی عدم اطمینان کے واقعات میں اضافہ کامشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ بی جے پی حکومت کے تین سال کا جشن منانے کے لیے کروڑوں کے بجٹ کو وزیر اعلیٰ کے چہرے کو چمکانےکی  فضول خرچی میں بہایا جا رہا ہے۔ بے روزگاری،نقل مکانی، روایتی کاشتکاری کے خاتمے، گھوٹالوں اور بدعنوانی کے چرچے عام ہیں۔

ریاست کے تین اضلاع میں مغل ناموں والے پندرہ مقامات کے نام تبدیل کر دیے گئے ۔ اس میں دہرادون کا ایک قدیم علاقہ میانوالا بھی شامل ہے۔ یہ گاؤں راجپوت میاں کی نسلوں  کا آبائی گاؤں ہے۔ آج بھی یہاں کے راجپوت اپنے ناموں میں  میاں لگاتے ہیں۔ چونکہ یہ نام مسلمانوں  سے ملتا جلتا ہے، اس لیے جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتی حکومت کو نام بدلنے پر شدید عوامی غصہ کا سامنا  کرنا پڑ رہاہے۔

مسائل کا  حل نہیں

ڈھائی دہائی قبل ریاست کے الگ ریاست بننے کے بعد بننے والی حکومتوں کی ناکامیوں کی وجہ سے یہاں سے نقل مکانی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ سابق وزیر اعلی ترویندر سنگھ نے اتراکھنڈ کے چار میدانی علاقوں میں غیر قانونی کان کنی کے ریکیٹ پر اپنی پارٹی کی حکومت اور وزیر اعلیٰ دھامی پر حملہ کرتے ہوئے ریاستی بی جے پی اور حکومت میں اندرونی کشمکش کو مزید تیز کر دیا۔ ترویندر فی الحال ہریدوار لوک سبھا سیٹ سے ایم پی ہیں۔

اسے پشکر سنگھ دھامی کو ہٹانے کی مہم سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم، سابق کابینہ وزیر اور ٹہری کے بی جے پی ایم ایل اے کشور اپادھیائے نے کہا کہ غیر قانونی کان کنی ایک لاعلاج بیماری ہے۔ ان کا مشورہ ہے کہ صاف ستھرے ہونے کا دعویٰ کرنے والے تمام سابق وزرائے اعلیٰ کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔

اتراکھنڈ میں امن و امان کی خراب صورتحال اور حکومت اور مجرموں کے درمیان گٹھ جوڑ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 18 ستمبر 2022 کو رشی کیش کے قریب 19 سالہ انکیتا بھنڈاری کے قتل کا الزام بی جے پی اور آر ایس ایس کے ایک طاقتور رہنما ونود آریہ کے بیٹے پلکیت پر لگایا گیا تھا ۔ انکیتا کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ وزیر اعلیٰ دھامی سی بی آئی انکوائری اس لیے  نہیں  ہونےدے رہے ہیں کیونکہ اس قتل کے پیچھے ریاستی بی جے پی کے ایک عہدیدار کا ہاتھ ہے۔

اتراکھنڈ میں بھی ہماچل کی طرز پر سخت زمینی قوانین کے لیے ایک طویل عرصے سے تحریک چل رہی ہے۔ لیکن 2018 میں نریندر مودی حکومت نے دہلی سے ریاست پر زمین کا ایسا قانون مسلط کر دیا، جس نے یہاں کے نازک پہاڑوں کو بیش قیمتی زمینوں کی خرید و فروخت کی منڈی میں تبدیل کر دیا۔

ریاستی اور مرکزی حکومت کی غلط پالیسیوں، زراعت، جنگل، زمین، سرکاری وسائل اور معاشی سرگرمیوں پر بیرونی ریاستوں سے آنے والے لوگوں نے پورے پہاڑ کو کامرشیل ہب  بنا دیا ہے۔ بی جے پی سخت زمینی قوانین اور اصل تحریک کو کچلنے کے لیےحربے اپنا رہی ہے۔ دو مقامی سیاسی کارکنوں، آشوتوش نیگی اور آشیش نیگی کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا۔

سماجی نفرت کو فروغ دینا

بی جے پی اور سنگھ پریوار سے وابستہ درجنوں تنظیمیں ریاست کے کچھ حصوں میں آباد مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے ریاستی حکومت کے وزراء اور کئی عہدیدار مقامی باشندوں اور باہر کے لوگوں کے درمیان دشمنی بڑھا رہے ہیں۔

ریاست کی تشکیل کے بعد پہلی بار ریاست کے سینئر کابینہ وزیر پریم چند اگروال کی طرف سے اسمبلی کے اندر مقامی پہاڑی باشندوں کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے کے بعد ریاست بھر میں ایک تحریک پھیل گئی اور پھر انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ لوگ ان سے اس لیے بھی ناراض ہیں کیونکہ انہوں نے انکیتا بھنڈاری قتل کیس کو چھپانے اور اس قتل میں بی جے پی کے وی آئی پی  کے مبینہ کردار کے بارے میں سچائی کو چھپانے کے بارے میں بیانات دیے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ دھامی حکومت ایک وزیر کے استعفیٰ سے بھی محفوظ نہیں ہے۔ دھامی پارٹی ہائی کمان کو وضاحت دینے کے لیے دہلی دوڑ لگاتے  رہتے ہیں۔

یو سی سی ریاست کو کیسے بدلے گا؟

اس سال کے شروع ہوتے ہی حکومت نے ریاستی اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلایا اور یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کو اکثریت کے زور پر پاس کرایا۔ یو سی سی کے بارے میں نہ تو اپوزیشن کو کچھ بتایا گیا اور نہ ہی عام لوگوں کو معلوم ہے کہ اس کے نفاذ کے بعد عوام کی تقدیر کیسے بدلنے والی ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کپل سبل کا کہنا ہے کہ اتراکھنڈ میں بی جے پی کا یہ منصوبہ ملک کے آئین میں مداخلت ہے۔ ایسا قانون بنانے کا اختیار صرف ملک کی پارلیامنٹ کو ہے۔ یہ شق ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 44 کو غیر مؤثر بنانے کی کوشش ہے۔ کسی بھی ریاستی حکومت کو ان اختیارات میں ترمیم کرنے کی اجازت دینا جو صرف ملک کی پارلیامنٹ کو حاصل ہیں غیر قانونی اور آئین کے خلاف ہے۔

قابل ذکر ہے کہ دو سال قبل ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ نے اتراکھنڈ میں یو سی سی بنانے کے حوالے سے کہا تھا کہ اس کے بعد آہستہ آہستہ ملک کی تمام ریاستیں اتراکھنڈ جیسا قانون بنائیں گی اور اس کے بعد پارلیامنٹ قانون پاس کرے گی۔ لیکن ایک ریاست کس طرح مرکزی قانون کو صرف اپنی ریاست میں نافذ کر سکتی ہے اور من مانی طور پر ایک نظیر بنا سکتی ہے؟

دراصل عوام کی توجہ ہٹانے اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے اتراکھنڈ کو فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے ذریعے سماجی تصادم کی نئی تجربہ گاہ بنایا جا رہا ہے۔ اس طرح ایک حساس ہمالیائی ریاست کے طور پر اس کی شناخت مٹائی جا رہی ہے۔

(اوما کانت لکھیڑا سینئر صحافی ہیں۔)