ممبئی پولیس نےہوسٹ پلیٹ فارم ‘گٹ ہب’کے ‘بُلی بائی’ایپ پرنیلامی کے لیےمسلم خواتین کی تصویریں اپ لوڈ کیے جانےکی شکایت موصول ہونے کے بعد نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔ اسی طرح گزشتہ سال ‘سلی ڈیلز’ نامی ایپ پر ‘ مسلم خواتین کی تصویریں آن لائن نیلامی’کے لیےپوسٹ کی گئی تھیں۔ اس سلسلے میں دہلی اور نوئیڈا پولیس نے الگ الگ ایف آئی آر درج کی تھی۔
نئی دہلی: ممبئی سائبر پولیس نے ‘بُلی بائی’ایپ کیس کے سلسلے میں بنگلورو سے انجینئرنگ کے 21 سالہ طالبعلم کو حراست میں لیا ہے۔ایک پولیس اہلکار نے منگل کو یہ جانکاری دی۔
پولیس نے میزبان پلیٹ فارم(ہوسٹ پلیٹ فارم)’گٹ ہب’کے ایپ پر ‘نیلامی’کے لیے مسلم خواتین کی ڈاکٹرڈ(چھیڑ چھاڑ کی گئی )تصویریں ان کی رضامندی کے بغیر اپ لوڈ کیے جانے کی شکایت موصول ہونے کے بعد نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔
افسر نے بتایا کہ مشتبہ شخص کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ممبئی سائبر پولیس تھانے نے ایپ کوتیارکرنے والوں اور اسے فروغ دینے والے ٹوئٹر ہینڈل کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا تھا۔
لائیو لاءکے مطابق، گرفتار کیے گئے طالبعلم کا نام وشال جھا ہے۔وہیں معاملے میں ایک عورت کو بھی اتراکھنڈ سے حراست میں لیا گیا ہے۔ممبئی پولیس کا
کہنا ہے کہ دونوں ملزمین ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، خاتون کو مبینہ طور پر کلیدی ملزم بتایا جا رہا ہے۔ اتراکھنڈ سے گرفتار ہوئی خاتون پر الزام ہے کہ اس نے ایپ پر مسلم خواتین کی تصویریں اپ لوڈ کی تھیں۔دریں اثنا ‘بُلی بائی’ ایپ کیس میں گرفتار انجینئرنگ کے طالبعلم کو عدالت نے 10 جنوری تک ممبئی پولیس کی حراست میں بھیج دیا ہے۔
وہیں پولیس کاکہنا ہےکہ بُلی بائی ایپ کا سکھوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ملزمین نے جان بوجھ کر ایپ کو سکھ کا روپ دیا تھا۔ انہوں نے
مزید بتایا کہ گرفتار نوجوان شریک ملزم ہے جو کلیدی ملزم سے رابطے میں تھا۔
واضح ہو کہ پہلے اس ایپ کے بارے میں مبینہ طور پرکہا جارہا تھا اس کو سکھ خالصتانی گروپ کے ذریعے چلایا جارہا ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، ایک سینئر آئی پی ایس افسر نے کہا، یہ سول انجینئرنگ کے دوسرے سال کا 21 سالہ طالبعلم ہے۔ اس نے ایپ سے توہین آمیز مواد شیئر کرنے کے لیے اپنا ٹوئٹر ہینڈل استعمال کیا تھا۔ ہم نے اسے حراست میں لے لیا ہے۔
پولیس اہلکار نے کہا کہ تصویر اپ لوڈ کرنے کے لیے استعمال کیےگئے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے آئی پی ایڈریس کے ذریعے طالبعلم کاپتہ لگایاگیا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا طالبعلم پر بھی ایپ تیار کرنے میں ملوث ہونے کا شبہ ہے یا وہ کسی بڑے گروپ کا حصہ ہے، اہلکار نے کہا کہ ہم ان سب کے بارے میں پوچھ تاچھ کریں گے۔
ایپ کے ذریعے نشانہ بننے والی خواتین میں سے ایک کی درج کرائی گئی شکایت کی پر ممبئی پولیس کرائم برانچ کے سائبر پولیس اسٹیشن(ویسٹ)نے یکم جنوری کو نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی،جنہوں نے اس ایپ کوتیار کیا تھا اور کچھ ٹوئٹر ہینڈلز نے اس مواد کی تشہیر کی تھی۔
پولیس نے آئی پی سی کی دفعہ 153اے(مذہب کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 153بی(قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے والے بیان یا تہمت لگانا)، 295اے(مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے ارادہ جان بوجھ کر کیا گیا شرمناک فعل )، 354ڈی(عورت کے تئیں فحش اشارے کرنا)،509 (عورت کے وقارکو مجروح کرنا) اور 500 (ہتک عزت)اور آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 67 (الکٹرانک ذرائع سے فحش مواد نشر کرنا)کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ایپ کو31 دسمبر 2021 کو امریکہ کے گٹ ہب نے ہوسٹ کیا تھا۔جس میں کم از کم 100 مسلم خواتین کی ڈاکٹرڈ تصویریں فحش تبصروں کے ساتھ آن لائن پوسٹ کی گئی تھیں۔
رپورٹ کے مطابق، سائبر تحفظ کے واقعات اور متعلقہ خطرات کی نگرانی کرنے والی نوڈل ایجنسی انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس سسٹم (سی ای آر ٹی -ان)کو اس کی جانچ کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دینے اور سائبر سیل کو ریاستی پولیس کےساتھ تال میل قائم کرنےکے لیے کہا گیاہے۔
پہلی جنوری کی دیررات الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے وزیر اشونی وشنو نے ٹوئٹ کیا کہ گٹ ہب نے صارف کو بلاک کر دیا ہے اور سی ای آر ٹی -ان اور پولیس مزید کارروائی کے لیے تال میل کر رہے ہیں۔
دو جنوری کو ایک اور ٹوئٹ میں وشنو نے کہا تھا کہ حکومت اس معاملے میں دہلی اور ممبئی میں پولیس کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔
اس معاملے میں 2 جنوری کو دہلی اور ممبئی میں پولیس نے الگ الگ ایف آئی آر درج کی تھی۔ پولیس کو اپنی شکایت میں دہلی کی ایک صحافی نے نامعلوم افراد پر دشمنی کو فروغ دینے، جنسی طور پر ہراساں کرنے اور خواتین کی توہین کرنے کا الزام لگایا تھا۔
شیوسینا ایم پی پرینکا چترویدی نے سوشل میڈیا پراس معاملے کو اٹھایا تھا۔ مہاراشٹر کے وزیر مملکت برائے داخلہ(شہری)ستیج پاٹل نے ریاست کے سائبر پولیس ڈیارٹمنٹ کے ساتھ اس معاملے کو اٹھایا تھا۔
پاٹل نے گزشتہ سوموار کی رات کوٹوئٹ کیا،ممبئی پولیس کو ایک کامیابی ملی ہے۔حالاں کہ ہم اس وقت تفصیلات کا انکشاف نہیں کر سکتے، کیونکہ اس سے تفتیش متاثر ہو سکتی ہے ۔ میں تمام متاثرین کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہم مجرموں کا مسلسل پیچھا کر رہے ہیں اور وہ بہت جلد قانون کا سامنا کریں گے۔
غور طلب ہے کہ سینکڑوں مسلم خواتین کی اجازت کے بغیر ان کی تصویروں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی اور انہیں
‘بُلی بائی’ایپ پر ‘نیلامی’کے لیے اپ لوڈ کر دیا گیا تھا۔ ایک سال سے بھی کم کےعرصے میں ایسا دوسری بار ہوا ہے۔ یہ ایپ ‘سلی ڈیلز’ کی طرح ہے، جس کی وجہ سے پچھلے سال بھی ایسا ہی تنازعہ کھڑا ہوا تھا۔
گزشتہ سال جولائی میں کچھ نامعلوم افراد نے
سلی ڈیلز نامی ایپ پر سینکڑوں مسلم خواتین کی تصویریں اپ لوڈ کی تھیں۔
این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق، سلی ڈیلز ایپ کے معاملے میں دہلی اور اتر پردیش پولیس کی طرف سے دو ایف آئی آر درج کی گئی تھی، حالانکہ اب تک ذمہ دار لوگوں کے خلاف کوئی خاص کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
ٹھیک اسی طرز پر اس باربُلی بائی نام کے ایک آن لائن پورٹل نےان خواتین کی تضحیک کے ارادے سے ان کی رضامندی کے بغیر ان مسلم خواتین کی چھیڑ چھاڑ کی گئی تصویروں کا استعمال کرتے ہوئے ایک’نیلامی'(تضحیک آمیز لفظ ‘بُلی’ کا استعمال کرتے ہوئے)کا اہتمام کیا ہے۔
کئی خواتین نے بتایا ہے کہ ان کی تصویروں کا اس پلیٹ فارم پراستعمال کیا جا رہا ہے۔ ان میں
دی وائر کی صحافی عصمت آرا بھی شامل ہیں، جنہوں نے ٹوئٹر پر اس ویب سائٹ کا اسکرین شاٹ بھی شیئر کیا، جس میں انہیں ‘بُلی بائی دی ڈے’بتایا گیا ہے۔
عصمت نے دہلی پولیس کے سائبر کرائم سیل میں شکایت درج کراکر آئی پی سی کی دفعہ 153اے(مذہب کے نام پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو بڑھاوا دینا)، 153بی (قومی اتحاد کے لیے نقصان دہ بیان یاتہمت لگانا)، 354اے(جنسی ہراسانی) 506 (مجرمانہ دھمکی)، 509 (کسی عورت کے وقارکو مجروح کرنے کے ارادے سے کچھ کہنا یا کوئی اشارہ کرنا)اور آئی ٹی کی دفعہ 66 (الکٹرانک کمیونی کیشن کا استعمال کرکے غیر حساس جانکاری بھیجنا)اور 67(فحش پیغامات بھیجنا) کےتحت ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
‘بُلی بائی’ اور ‘سلی ڈیل’ کی جانچ میں خواتین کمیشن نے پولیس کو سمن بھیجا
ادھر، دہلی کمیشن برائے خواتین نے ‘بُلی بائی’ اور ‘سلی ڈیل’ ایپ پر قابل اعتراض مواد سے متعلق جانچ کے سلسلے میں دہلی پولیس سےاس ہفتے کے آخر میں اس کے سامنے پیش ہونے کو کہا ہے۔
کمیشن کی طرف سےسوموار کو جاری ایک بیان کے مطابق، رضامندی کے بغیر’گٹ ہب’ایپ پر متعدد مسلم خواتین کی تصویریں اپ لوڈ کیے جانےسےمتعلق میڈیا رپورٹس کا از خود نوٹس لیا گیا ہے۔
کمیشن نے دہلی پولیس سے اس کے سامنےپیش ہونے کے علاوہ ‘سلی ڈیل’ اور ‘بُلی بائی’ معاملوں میں گرفتار کیے گئے لوگوں کی فہرست بھی طلب کی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اتنے سنگین معاملے میں ملزمین کی گرفتاری نہیں ہوناپریشان کن ہے اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے اس رخ سے خواتین اور لڑکیوں کو آن لائن فروخت کرنے والے مجرموں اور دوسرے لوگوں کے حوصلےاوربلند ہوئے ہیں۔
کمیشن نے کہا کہ 2021 میں’سلی ڈیلز’کے نام سے’گٹ ہب’ پر کئی مسلم خواتین اور لڑکیوں کی تصویریں اپ لوڈ کی گئی تھیں۔
کمیشن نے کہا،اس معاملے میں کمیشن کی مداخلت کے بعددہلی پولیس نے گزشتہ سال جولائی میں ایف آئی آر درج کی، لیکن ابھی تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔
دہلی پولیس کو 6 جنوری کو دونوں معاملوں کی مکمل فائل کے ساتھ کمیشن کے سامنے حاضر ہونے کو کہا گیا ہے۔
کمیشن کی چیئرپرسن سواتی مالیوال نے کہا، میرا خیال ہے کہ سائبر کرائم کے معاملات میں دہلی پولیس کے لاپرواہ رویے کی وجہ سے ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔ ‘سلی ڈیلز’معاملے میں ابھی تک کوئی گرفتاری کیوں نہیں ہوئی ہے؟ دہلی پولیس ‘سلی ڈیلز’ اور ‘بُلی بائی’کے معاملوں میں فوراً گرفتاری کرے اور سائبر کرائم کے معاملات میں کارروائی کرے۔ انہیں سمن بھیجا گیا ہے۔جوابدہی طے کی جانی چاہیے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)