گزشتہ سال ‘سلی ڈیلز’ نام کے ایپ کی طرح ‘بُلی بائی’ایپ پر ‘نیلامی’کے لیے مسلم خواتین کی تصویریں اپ لوڈکیے جانے کو لے کرممبئی پولیس نےمقدمہ درج کیا ہے۔اس سلسلے میں بنگلورو سے گرفتار کیے گئے طالبعلم کو ایک مقامی عدالت نے 10 جنوری تک عدالتی حراست میں بھیج دیا ہے۔
(علامتی تصویر بہ شکریہ: پکسا بے)
نئی دہلی: مہاراشٹر کی ممبئی سائبر پولیس نے ‘بُلی بائی’ ایپ معاملےمیں اتراکھنڈ سے ایک اور طالبعلم کو گرفتار کیا ہے۔
ایک اہلکار نے بتایا کہ مینک راول (21)نام کے طالبعلم کو بدھ کی صبح اتراکھنڈ سے گرفتار کیا گیا۔
ممبئی پولیس کے سائبر سیل نے اس سے قبل اس معاملے کی مبینہ کلیدی ملزم شویتا سنگھ (19)کو اتراکھنڈ سے اور انجینئرنگ کے طالب لم وشال کمار جھا(21) کو بنگلورو سے
گرفتار کیا تھا۔
ممبئی پولیس نے وشال کو سوموار کو بنگلور سے پکڑاتھااور بعد میں اس کوگرفتار کر لیا۔ ممبئی لانے کے بعد اسے باندرہ میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔
پولیس نےوشال کو 10 دن کی حراست میں دینے اور بنگلورو میں اس کے احاطے کی تلاشی لینے کی عدالت سےاجازت طلب کی۔ پولیس کی دلیل سننے کے بعد مجسٹریٹ نے وشال کو 10 جنوری تک کے لیےپولیس حراست میں بھیج دیا اور پولیس کو اس کے احاطے کی تلاشی لینے کی بھی اجازت دی۔
ممبئی پولیس نے میزبان پلیٹ فارم(ہوسٹ پلیٹ فارم)’گٹ ہب’کے ایپ پر ‘نیلامی’کے لیے مسلم خواتین کی ڈاکٹرڈ(چھیڑ چھاڑ کی گئی )تصویریں ان کی رضامندی کے بغیر اپ لوڈ کیے جانے کی شکایت موصول ہونے کے بعد نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔
حقیقت میں ایسی کوئی ‘نیلامی’ یا ‘فروخت’ نہیں ہوئی تھی بلکہ اس ایپ کا مقصد نشانہ بنائی گئی خواتین کی توہین کرنا اور انہیں دھمکانا تھا۔ ان میں سے بہت سی خواتین سوشل میڈیا پر کافی متحرک رہی ہیں۔
غور طلب ہے کہ سینکڑوں مسلم خواتین کی اجازت کے بغیر ان کی تصویروں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی اور انہیں
‘بُلی بائی’ایپ پر ‘نیلامی’کے لیے اپ لوڈ کر دیا گیا تھا۔
ایپ کے ذریعے نشانہ بننے والی خواتین میں سے ایک کی درج کرائی گئی شکایت کی پر ممبئی پولیس کرائم برانچ کے سائبر پولیس اسٹیشن(ویسٹ)نے یکم جنوری کو نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی،جنہوں نے اس ایپ کوتیار کیا تھا اور کچھ ٹوئٹر ہینڈلز نے اس مواد کی تشہیر کی تھی۔
پولیس نے آئی پی سی کی دفعہ 153اے(مذہب کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 153بی(قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے والے بیان یا تہمت لگانا)، 295اے(مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے ارادہ جان بوجھ کر کیا گیا شرمناک فعل )، 354ڈی(عورت کے تئیں فحش اشارے کرنا)،509 (عورت کے وقارکو مجروح کرنا) اور 500 (ہتک عزت)اور آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 67 (الکٹرانک ذرائع سے فحش مواد نشر کرنا)کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
31ایپ کو31 دسمبر 2021 کو امریکہ کے گٹ ہب نے ہوسٹ کیا تھا۔جس میں کم از کم 100 مسلم خواتین کی ڈاکٹرڈ تصویریں فحش تبصروں کے ساتھ آن لائن پوسٹ کی گئی تھیں۔
رپورٹ کے مطابق، سائبر تحفظ کے واقعات اور متعلقہ خطرات کی نگرانی کرنے والی نوڈل ایجنسی انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس سسٹم (سی ای آر ٹی -ان)کو اس کی جانچ کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دینے اور سائبر سیل کو ریاستی پولیس کےساتھ تال میل قائم کرنےکے لیے کہا گیاہے۔
پہلی جنوری کی دیررات الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے وزیر اشونی وشنو نے ٹوئٹ کیا کہ گٹ ہب نے صارف کو بلاک کر دیا ہے اور سی ای آر ٹی -ان اور پولیس مزید کارروائی کے لیے تال میل کر رہے ہیں۔
دو جنوری کو ایک اور ٹوئٹ میں وشنو نے کہا تھا کہ حکومت اس معاملے میں دہلی اور ممبئی میں پولیس کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔
اس معاملے میں 2 جنوری کو دہلی اور ممبئی میں پولیس نے الگ الگ ایف آئی آر درج کی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ ۔ ایک سال سے بھی کم کےعرصے میں ایسا دوسری بار ہوا ہے۔ یہ ایپ ‘سلی ڈیلز’ کی طرح ہے، جس کی وجہ سے پچھلے سال بھی ایسا ہی تنازعہ کھڑا ہوا تھا۔
گزشتہ سال جولائی میں کچھ نامعلوم افراد نے
سلی ڈیلز نامی ایپ پر سینکڑوں مسلم خواتین کی تصویریں اپ لوڈ کی تھیں۔
این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق، سلی ڈیلز ایپ کے معاملے میں دہلی اور اتر پردیش پولیس کی طرف سے دو ایف آئی آر درج کی گئی تھی، حالانکہ اب تک ذمہ دار لوگوں کے خلاف کوئی خاص کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
ٹھیک اسی طرز پر اس باربُلی بائی نام کے ایک آن لائن پورٹل نےان خواتین کی تضحیک کے ارادے سے ان کی رضامندی کے بغیر ان مسلم خواتین کی چھیڑ چھاڑ کی گئی تصویروں کا استعمال کرتے ہوئے ایک’نیلامی'(تضحیک آمیز لفظ ‘بُلی’ کا استعمال کرتے ہوئے)کا اہتمام کیا ہے۔
کئی خواتین نے بتایا ہے کہ ان کی تصویروں کا اس پلیٹ فارم پراستعمال کیا جا رہا ہے۔ ان میں
دی وائر کی صحافی عصمت آرا بھی شامل ہیں، جنہوں نے ٹوئٹر پر اس ویب سائٹ کا اسکرین شاٹ بھی شیئر کیا، جس میں انہیں ‘بُلی بائی دی ڈے’بتایا گیا ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)