بجٹ 2022-23: آٹھ نکات میں جانیں کہ اہم شعبوں کے لیے بجٹ کیا ہے

02:20 PM Feb 03, 2022 | دی وائر اسٹاف

دی وائر نے آٹھ نکات میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ مرکزی حکومت نے گزشتہ چند سالوں میں اہم شعبوں /سیکٹراور اہم فلاحی اسکیموں پر کتنا خرچ  کیا ہے اور آنے والے سالوں میں اس کے لیے کتنا خرچ کرنے کی بات کر رہی ہے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: وزیر خزانہ نرملا  سیتا رمن نےمنگل کو مالی سال  2022-23 کا عام  بجٹ پیش کیا۔ اس دوران انہوں نے بجٹ سےمتعلق بعض  تفصیلات پیش کیں، لیکن بجٹ کے دستاویزیہ جاننے کا سب سے اچھا  ذریعہ ہے کہ حکومت کی ترجیحات اصل میں کیا ہیں؟

آٹھ نکات اور جدول میں دی وائر نے یہ بتانے کی کوشش کی  ہے کہ مرکزی حکومت نے گزشتہ کچھ سالوں میں اہم  شعبوں /سیکٹراور اہم  فلاحی اسکیموں پر کتنا خرچ کیا ہے اور آنے والے سالوں میں کتنا خرچ کرنے کا وعدہ کر رہی ہے۔

مالیاتی خسارہ

آنے والے مالی سال (2022-23)کے لیےحکومت نے مالیاتی خسارے کی حدجی ڈی پی کا6.4 فیصدطے کی ہے۔ یہ گزشتہ مالی سال (2021-22) میں مقرر کردہ 6.8 فیصد کی حد سےکم ہے۔

تاہم گزشتہ سال حکومت کا مالیاتی خسارہ اس کی مقرر کردہ حد سے زیادہ یعنی 6.9 فیصدرہا تھا۔

سیتا رمن کے مطابق، گزشتہ سال کے بجٹ کو ذہن میں رکھتے ہوئے 6.4 فیصد کا ہدف مقرر کیا گیا ہے کہ 2025-26  تک ہمیں مالیاتی خسارے کے 4.5 فیصد کے ہدف تک پہنچنا ہے۔

تعلیم

کووڈ کی وجہ سے طلبا کے لئے پچھلے کچھ سال مشکل رہے ہیں،کیونکہ اس عرصے میں اسکول اور کالج بند رہے۔ مختلف سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جن طلبا کو باقاعدہ آن لائن کلاسز تک رسائی حاصل نہیں تھی، ان کے سیکھنے اور پڑھنے کی صلاحیت میں گراوٹ  آئی ہے۔

گزشتہ مالی سال میں حکومت نے تعلیم کے لیے 93224 کروڑ روپے کا اہتمام کیا تھا،  لیکن حقیقت میں اس نےاس سے بھی کم 88002 کروڑ روپے خرچ کیے تھے۔

کم اخراجات کی وجہ کووڈ-19 کی دوسری لہر کے باعث لاک ڈاؤن ہو سکتی ہے، اس لیے اب یہ حکومت کے لیے بہت اہم ہے کہ وہ اس سال اپنے بجٹ کے اخراجات کو پورے طور پرخرچ کرے۔ اس سال حکومت کا کہنا ہے کہ وہ تعلیم پر 104278 کروڑ روپے خرچ کرنے جا رہی ہے۔

منریگا

مہاماری  کی وجہ سے پچھلے کچھ سالوں میں بے روزگاری میں شدید اضافہ ہوا ہے ، جس کی وجہ سے مہاتما گاندھی نیشنل رورل امپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ (منریگا) کے تحت کام کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔

اس شعبے میں کام کرنے والے کارکنوں کی دلیل ہے کہ فنڈ کے ناکافی انتظامات کی وجہ سے ادائیگی میں تاخیر اور روزگار کے مواقع کی کمی کی شکایتیں موصول ہو رہی  ہیں۔

پچھلے سال اس اسکیم میں مناسب رقم مختص نہیں کی گئی تھی، جس کے بارے میں حکومت کو بھی علم ہے۔ انہوں نے 73000 کروڑ روپے کا اہتمام کیا تھا، لیکن خرچ 98000 کروڑ روپےہوا تھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی حکومت نے پچھلے سال کی طرح ہی  73000 کروڑ روپے کا اہتمام کیا ہے۔

دیہی ترقیات/گرامین وکاس

ایک اور شعبہ جہاں حکومت نے بجٹ مختص میں اضافہ نہیں کیا،  جبکہ گزشتہ مالی سال میں دیکھا گیا کہ دیہی ترقیات کا جو بجٹ طے ہواتھا،  سال کے آخر میں اس سے زیادہ خرچ ہوا تھا۔

پچھلے سال حکومت نے اس سیکٹر کو 133690 کروڑ روپے کا بجٹ جاری کیا تھا، لیکن اصل خرچ 155042.27 کروڑ روپے ہوا تھا۔ اس کے باوجود اس سال 138203.63 کروڑ روپے کااہتمام  کیا گیا ہے ، جو کہ پچھلے مالی سال میں خرچ کی گئی رقم سے کم ہے۔

صحت اور خاندانی بہبود

ہم ہندوستان میں کووڈ کے تیسرے سال میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ وہ مہاماری ہے جس نے پہلے سے ہی تباہ حال ہندوستان کی صحت کی خدمات کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔

گزشتہ سال وزارت صحت نے اپنے مختص بجٹ سے زیادہ رقم خرچ کی تھی۔ پچھلے سال بجٹ میں اس مد میں73932 کروڑ روپے کا اہتمام تھا، لیکن ترمیم شدہ اخراجات 86,000.65 کروڑ تھے، حکومت نے اس بار اس خرچ میں معمولی اضافہ کرتے ہوئے 86200.65 کروڑ روپے کا اہتمام  کیا ہے۔

اشیائے خوردونوش سے متعلق  سبسڈی/فوڈ سبسڈی

فوڈ سبسڈی میں پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم شامل  ہے۔ اس بار اس مد میں جاری  بجٹ میں بہت زیادہ کمی کی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کووڈ-19 کی وبا کے دوران ملک گیر لاک ڈاؤن کی وجہ سے بجٹ میں اضافہ کیا گیا تھا۔

پچھلے سال حکومت نے فوڈ سبسڈی پر 299354.6 کروڑ روپے خرچ کیے تھے۔ اس سال اس کا منصوبہ 207291.1 کروڑ خرچ کرنے کا ہے۔

پی ایم پوشن / مڈ ڈے میل

اس اسکیم کے لیے اس سال بھی وہی بجٹ مختص کیا گیا ہے جو پچھلے سال کے ترمیم شدہ بجٹ میں خرچ کیا گیا تھا، جو کہ پچھلے سال مختص بجٹ سے کم تھا۔ پچھلے سال 11500 کروڑ روپے کااہتمام تھا ،لیکن خرچ 10234 کروڑ روپےہوئے۔

اس بار بھی صرف 10234 کروڑ روپے جاری کیےگئے ہیں۔ اگر حکومت اسکولوں کو دوبارہ کھولنے اور بچوں کو کلاس میں بلانے کو لے کرسنجیدہ ہے تو مڈ ڈے میل اس کا ایک اہم حصہ ہے، ساتھ ہی بچوں کی غذائیت کے لیے بھی اہم ہے۔

پردھان منتری  کسان یوجنا

پی ایم کسان کے لیے بجٹ بڑی حد تک پچھلے سال کی طرح ہی رہا ہے، کیونکہ اس اسکیم میں زیادہ تر کسانوں کی غیر تبدیل شدہ تعداد کو ایک مقررہ رقم فراہم کی جاتی ہے۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ مالی سال 2019-20 میں شروع ہونے والی اس اسکیم کا حقیقی بجٹ اس وقت کے مقابلےاب  دسمبر کی آخری سہ ماہی  تک 15.5 فیصد کم ہو گیا ہے۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔