کتنی شرمناک بات ہے کہ ملک کا نام روشن کرنے والی کھلاڑیوں نے خود وزیر اعظم سے شکایت کی کہ ایک ایم پی نے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی، لیکن سب جانتے ہوئے بھی وزیر اعظم ڈھائی سال سے خاموش ہیں اور ایک مافیا کی سرپرستی کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی، برج بھوشن شرن سنگھ (دائیں) اور جنتر منتر پر احتجاج کے دوران پہلوان ساکشی ملک، بجرنگ پونیا، وینیش پھوگاٹ، سنگیتا پھوگاٹ۔ (فوٹو بہ شکریہ: پی آئی بی/ٹوئٹر/فیس بک)
‘ کسی معاشرے کی ترقی کا اندازہ میں اس معاشرے میں خواتین کی ترقی سے لگاتا ہوں’— ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر
باباصاحب کے اس قول کو ملک کا نام روشن کرنے والی کھلاڑی کیسے دیکھتی ہوں گی، جو انصاف کے لیے سات مہینے سے جدوجہد کر رہی ہیں؟ جب کوئی کھلاڑی دنیا کے کسی کونے میں میڈل جیتنے کے بعد ترنگا لہراتا ہے تو پورے ملک میں خوشی کا ماحول ہوتا ہے۔ لوگ مبارکباد دیتے ہیں۔ خواتین کھلاڑیوں کی جیت باقیوں سے بڑی ہوتی ہے۔ ان کی جیت پر لاکھوں آنکھوں کو حوصلہ اور خواب مل جاتے ہیں۔ کھلاڑیوں کا مظاہرہ ان کا ذاتی کارنامہ ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کا کارنامہ ہو تاہے، جس کی وجہ سے ملک کے عوام جذباتی طور پر ایک دوسرے سےجڑے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے کھلاڑی پوری دنیا میں ہمارا پرچم لہراتے ہیں، اسی لیے انہیں ملک کا فخرسمجھا جاتا ہے اور لوگ انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ کھلاڑیوں کے ساتھ عوام کےاس تعلق اور عوامی جذبات کے مدنظر سیاسی گلیاروں میں بھی کھلاڑیوں کو خوب توجہ دی جاتی ہے۔
لیکن بی جے پی کے ایم پی برج بھوشن شرن سنگھ پر جنسی ہراسانی کا الزام لگانے والی پہلوانوں کے معاملے میں جو کچھ ہوا ہے، وہ پورے ملک کے لیے شرمندگی کا سبب بن گیا ہے۔ وہ مہینوں ملک کی پارلیامنٹ کے قریب بیٹھی رہیں، لیکن وزیر اعظم کے کان پر جوئیں بھی نہیں رینگیں۔ کئی ماہ گزرنے کے باوجود ان کی حکومت نے اس کا نوٹس تک نہیں لیا۔ اس کے بعدگولڈ میڈل جیتنے والی کھلاڑیوں نے سامنے آکر کہا کہ ریسلنگ فیڈریشن کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ نے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی ہے اور ملک کے لوگ حیران رہ گئے۔ لیکن بی جے پی حکومت نے اپنے ایم پی کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے ایک کمیٹی بنا کر معاملے کو رفع دفع کی کوشش کی۔ کمیٹی کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں نہ تو کھلاڑیوں کے الزامات کا نوٹس لیا گیا اور نہ ہی پولیس کارروائی کی سفارش کی گئی۔
الزام لگانے والی کھلاڑیوں میں ایک کھلاڑی ایسی بھی تھی،جس نے الزام لگایا کہ جب اس کا استحصال کیا گیا تو وہ نابالغ تھی، لیکن کارروائی تو دور کی بات، پولیس مقدمہ بھی درج نہیں کر رہی تھی۔ کھلاڑی بہنیں سڑک پر آنسو بہاتی رہیں اور حکومت چپ چاپ اپنے ایم پی کو بچاتی رہی۔ آخرکار معاملہ سپریم کورٹ میں گیا تو طلب کیے جانے کے بعد دہلی پولس نے کیس درج کیا۔ایک ایف آئی آر میں پاکسو ایکٹ لگا یا گیا، جس میں فوراً گرفتاری کا قانون ہے، لیکن وزیر داخلہ کے ماتحت کام کرنے والی دہلی پولیس نےایم پی کو گرفتار نہیں کیا۔ سپریم کورٹ کی مداخلت کے باوجود حکومت اپنے ایم پی کے دفاع میں کھڑی رہی۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر کھلاڑیوں کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کی گئیں، افواہیں پھیلائی گئیں، کھلاڑیوں کو بدنام کرنے کی مہم چلائی گئی، برج بھوشن سنگھ میڈیا اور اپنے علاقے میں طاقت کا مظاہرہ کرتے رہے۔
دریں اثنا، دہلی میں دھرنا دینے والی کھلاڑیوں کو پولیس نے ہراساں کیا۔ انہیں گرفتار کیا گیا، ان کے دھرنے کی جگہ کو مسمار کر دیا گیا اور انہی کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا۔ اس دوران نابالغ کھلاڑی نے اپنا الزام واپس لے لیا۔ لڑکی کے والد نے بیان دیا،’ہم نے کورٹ میں جاکر بیان بدل دیے، میں نےیہ کسی لالچ میں نہیں بلکہ خوف کی وجہ سے کیا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مجھے کسی نے دھمکی دی یا دباؤ ڈالا۔ لیکن میری فیملی ہے۔ مجھے کچھ ہو گیا تو پورا گھر برباد ہو جائے گا۔’ کیا یہ ایک طاقتور مافیا ملزم کوسرکاری سرپرستی کا نتیجہ نہیں تھا؟ اگر وقت پرکارروائی کی جاتی تو کیا اس وقت بھی متاثرہ لڑکی کے باپ کو ڈر لگتا؟
حکومت کی جانب سے اتنے ہتھکنڈےاپنائے گئے کہ آخر کار کھلاڑیوں نے تھک ہار کر اپنا احتجاج ختم کر دیا۔ انصاف کے لیے کھلاڑیوں کی یہ جدوجہد جنوری میں شروع ہوئی تھی۔ سات ماہ کی جدوجہد کے بعد اب دہلی پولیس نے برج بھوشن شرن سنگھ کے خلاف عدالت میں چارج شیٹ داخل کی ہے، جس میں شواہد کی بنیاد پر پولیس نے برج بھوشن سنگھ کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کرنے، پیچھا کرنے، دھمکی دینے اور ڈرانے کے سنگین الزامات لگاتے ہوئےان کے خلاف مقدمہ چلانے اور سزا دینے کی سفارش کی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو دہلی پولیس آج الزامات کو سچ مان رہی ہے، اسی نے سات ماہ تک ملزم کو کس کی ہدایت پربچایا؟
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کھلاڑیوں نے باربار کہا ہے کہ اولمپکس میں میڈل جیتنے کے بعد ہم نے اس کی شکایت وزیر اعظم سے کی تھی اور انہوں نے کارروائی کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اس کے باوجود وزیراعظم خاموش رہے۔ نہ انہوں نے اپنےایم پی کے خلاف کارروائی کی، نہ ہی انہیں عہدے سے ہٹایا اور نہ ہی پولیس کو قانونی کارروائی کا حکم دیا گیا۔یہ کتنی شرمناک بات ہے کہ ملک کا نام روشن کرنے والی کھلاڑیوں نے خود وزیر اعظم سے شکایت کی کہ ایک ایم پی نے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی، لیکن سب جانتے ہوئے بھی وزیر اعظم ڈھائی سال سے خاموش ہیں اور ایک مافیا کی سرپرستی کر رہے ہیں۔
یہ سب اس حکومت میں ہو رہا ہے جو ‘بیٹی بچاؤ’ کا نعرہ لگاتی ہے۔ اس کیس کا نتیجہ جو بھی نکلے، لیکن اس پورے واقعہ نے ملک کی خواتین کو یہی پیغام دیا ہے کہ اگر ظلم کرنے والا طاقتور ہے، حکومت میں اعلیٰ عہدے پر ہے یا ایسا مافیا ہے جس کو سرکار کی سرپرستی حاصل ہے تو وہ انصاف کو یرغمال بناکر رکھے گا اور مظلوم کو انصاف نہیں ملے گا۔ وزیر اعظم بیرون ملک جا کر کہتے ہیں کہ ہندوستان ‘مدر آف ڈیموکریسی’ ہے۔ کیا دنیا نہیں دیکھے گی کہ مدر آف ڈیموکریسی میں مظلوم بیٹیوں، بہنوں اور ماؤں کو انصاف نہیں ملتا؟
کشور ناہید کی نظم کا ایک ٹکڑا ہے –
یہ ہم گنہ گار عورتیں ہیں
کہ سچ کا پرچم اٹھا کے نکلیں
تو جھوٹ سے شاہراہیں اٹی ملے ہیں
ہر ایک دہلیز پہ سزاؤں کی داستانیں رکھی ملے ہیں
جو بول سکتی تھیں وہ زبانیں کٹی ملے ہیں
یہ ہم گنہ گار عورتیں ہیں
کہ اب تعاقب میں رات بھی آئے
تو یہ آنکھیں نہیں بجھیں گی
کہ اب جو دیوار گر چکی ہے
اسے اٹھانے کی ضد نہ کرنا!
( سندیپ سنگھ جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کے سابق صدر ہیں اور کانگریس سے وابستہ ہیں۔)