ورق در ورق: مثنوی امراؤجان کو نئے تناطر میں منقلب کرتی ایک کتاب

مراؤ جان کے دلچسپ اور خیال انگیز نثری متن کو شعری اظہار کا محور بنانا اور اس کی تخلیقی دبازت کو ایک نئے حسی تناطر میں منقلب کرنا بہت دشوار گزار عمل ہے مگر مقام مسرت ہے کہ ایک ایسے عہد میں جب نئی نسل میں اپنے کلاسیکی سرمایہ، قدیم اصناف اور زبان و بیان کے مختلف پیرایوں بشمول بحور سے شناسائی مفقود ہوتی جا رہی ہے، نوجوان ناقد رشید اشرف نے مرزا رسوا کی بے مثال نثری کاوش کو عہد ماضی کی مقبول صنف ‘مثنوی’ کا پیرایہ عطا کیا ہے۔

امراؤ جان کے دلچسپ اور خیال انگیز نثری متن کو شعری اظہار کا محور بنانا اور اس کی تخلیقی دبازت کو ایک نئے حسی تناطر میں منقلب کرنا بہت دشوار گزار عمل ہے مگر مقام مسرت ہے کہ ایک ایسے عہد میں جب نئی نسل میں اپنے کلاسیکی سرمایہ، قدیم اصناف اور زبان و بیان کے مختلف پیرایوں بشمول بحور سے شناسائی مفقود ہوتی جا رہی ہے، نوجوان ناقد  رشید اشرف نے مرزا رسوا کی بے مثال نثری کاوش کو عہد ماضی کی مقبول صنف ‘مثنوی’ کا پیرایہ عطا کیا ہے۔

UmraoJan

زبان کے تخلیقی امکانات کا فنی شعور کے ساتھ استعمال متن میں معنی کی تخم ریزی کا ایک نیا جہاں آباد کر دیتا ہے اور فن پارہ مرور زمانہ کے باوجود مطالعہ کا مسلسل ہدف بنا رہتاہے۔ اس نوع کی تحریر پر صنفی زمرہ بندی کا بھی اطلاق نہیں ہوتا اور اکثر اس کے مرکزی خیال، کرداروں اور پیرایہئ اسلوب سے کسب فیض باعث افتخار سمجھا جاتا ہے۔ متن کوئی جامد یا خود مکتفی فن پارہ نہیں ہوتا بلکہ اس میں مختلف متون کی بازگشت صاف سنائی دیتی ہے اور اسی طرح ہر خیال انگیز متن میں معنی کی تخم ریزی کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ میر، غالب، اقبال، انیس اور دیگر باکمال شعرا کی تخلیقات نئے شعری متون کی تشکیل کے عمل کو مسلسل متحرک رکھتی ہے۔

اسی طرح پریم چند اور سعادت حسن منٹو کے افسانوں پر نہ صرف افسانے لکھے گئے بلکہ ان کے کرداروں کو بھی ناولوں اور افسانوں میں استعمال کیا گیا۔ منٹو کے افسانوں مثلاً موذیل، بابو گوپی ناتھ اور ٹو بہ ٹیک سنگھ پر نظمیں لکھی گئیں۔ واقعہ یا تجربہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ پہلے سے موجود متن پر متن لکھنے کی روش کومابعد جدید تنقیدی اصطلاح میں بین المتونیت (Intertextuality) کہا جاتا ہے جس کی نوعیت پیروڈی یا سرقہ یاتوارد  سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔ یہ اصلاً کسی متن کی تخلیقی باز آفرینی ہوتی ہے۔ جیمس جوائس نے یولی سس میں ہومر کی اوڈیسی کو ایک نیا تخلیقی تناظر عطا کیا۔ اسی طرح ارنسٹ ہیمنگوے نے مشہور مابعد الطبیعیاتی شاعر جان ڈن کے الفاظ کو اپنے ناول (For Whom the Bell Tolls)کا سرنامہ بنایا۔

اردو میں جس متن کے تخلیقی امکانات کو مختلف اصناف اور میڈیم کے حوالے سے مسلسل بروئے کار لایا گیا اس کا نام امراؤ جان ادا ہے۔ عیش و طرب کے ماحول میں سانس لیتاانسانی واماندگی اور لاچاری کے نئے ابعاد روشن کرنے والا یہ ناول فلموں کے قالب میں بھی ڈھالا گیا، ٹی وی ڈرامہ کا بھی موضوع بنا اور مرکزی کردار امراؤ جان کو متعدد افسانوں اور ناولوں میں موضوع بحث بنایا جاتا رہا ہے۔ اس ضمن میں تازہ ترین مثال انیس اشفاق کا ‘خواب سراب’ہے جس کے مرکزی کردارکابنیادی مسئلہ مذکورہ ناول کا ایک اور مسودہ ہے جس میں امراؤ جان کی شادی اوراس کے صاحب اولاد ہونے کا ذکر ہے اور یہ مسودہ کہیں غائب ہو گیا ہے۔

ایک ایسے زمانہ میں جب لفظ بڑی تیزی سے بے اعتبار ہوتے جا رہے ہیں، مطبوعہ لفظ کی تلاش کو اپنی زندگی کا مقصود بنانا انتہائی قابل قدر ہے۔ امراؤ جان کے دلچسپ اور خیال انگیز نثری متن کو شعری اظہار کا محور بنانا اور اس کی تخلیقی دبازت کو ایک نئے حسی تناطر میں منقلب کرنا بہت دشوار گزار عمل ہے مگر مقام مسرت ہے کہ ایک ایسے عہد میں جب نئی نسل میں اپنے کلاسیکی سرمایہ، قدیم اصناف اور زبان و بیان کے مختلف پیرایوں بشمول بحور سے شناسائی مفقود ہوتی جا رہی ہے، نوجوان ناقد  رشید اشرف نے مرزا رسوا کی بے مثال نثری کاوش کو عہد ماضی کی مقبول صنف ‘مثنوی’ کا پیرایہ عطا کیا ہے۔ مثنوی کی مقبول بحر متقارب ہے اور یہی بحر میر حسن نے مثنوی سحر البیان میں استعمال کی ہے۔

رشید اشرف نے سات ہزار سے زائد اشعار پرمشتمل مثنوی اسی بحر میں لکھی ہے اور یہ کوشش کی ہے کہ مرزا رسوا کے ڈکشن کی تخلیقی سطح پر پاسداری کی جائے۔مثنوی کی زبان حکائی اور روز مرہ سے قریب ہوتی ہے اور مثنوی کے اشعار میں گفتگو کی سی برجستگی پائی جاتی ہے۔

اشرف نے مولانا محمد حسین آزاد پر قابل قدر کتاب ‘مولانا محمد حسین آزاد اور ان کا شعری سفر’ سپرد قلم کی ہے اور شمس الرحمان فاروقی کے ضخیم ناول ‘کئی چاند تھے سر آسماں’کو تجرباتی مطالعہ کا مرکز بنایا ہے مگر ان کے شعری کمالات کا اب تک کوئی واضح نقش موجود نہیں تھا، لہٰذا اس مثنوی کی اشاعت قارئین کو ایک ایسے ناقد سے متعارف کراتی ہے جو کلاسیکی شعری اظہار پر مکمل دسترس رکھتا ہے اور ناول کو منظوم فارم میں منتقل کرنے کے رمز سے بھی واقف ہے۔ نثری داستانوں کو منظوم کرنے کی روایت موجود ہے مگر ادھر کچھ عرصہ سے ایسی کوشش شاذ ہی کی گئی ہے۔ہر چند کہ مرزا رسوا کا متن مثنوی کی اساس ہے مگر مثنوی سحر البیان کے خوشگوار اثرات بھی واضح طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہنا درست ہوگا کہ مرزا رسوا اور میر حسن کے متون کو اپنی تخلیقی تازہ کاری سے ہم آہنگ کرکے رشید اشرف نے ایک نیا بیانیہ تشکیل دیا ہے۔ مرقع نگاری اور جزئیات نگاری مثنوی کے مابہ الامتیاز عناصر ہیں اور ان کی پاسداری کے واجبات بڑے شدید ہیں۔ زبان و بیان پر مکمل دسترس کے بغیر یہ مرحلہ طے نہیں ہو سکتا اور زیر مطالعہ مثنوی سے اندازہ ہوتا ہے کہ رشید اشرف میں حسن بیان کی صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔

امراؤ جان کا نثری متن بہت Readableہے، لہٰذا اس کی شعری تقلیب کیا اس کی خواندگی پذیری (Readability) میں بھی مزید اضافہ کر سکتی ہے؟مثنوی امراؤ جان اس اجمال کی تفصیل پر دال ہے۔

رشید اشرف نے اپنے پیش لفظ میں مثنوی منظوم کرنے کے محرکات پر روشنی ڈالتے ہوئے مثنوی سحر البیان کا بھی ذکر کیا ہے اور لکھا ہے؛

مثنوی سحر البیان کا زمانہ 18ویں صدی کی نویں دہائی کا ہے۔ اس وقت لکھنؤ عیش و عشرت کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ ا س کے برعکس امراؤ جان کا زمانہ انیسویں صدی کے آخر کا ہے جب لکھنؤ کی زوال آمادہ تہذیب دم توڑ رہی تھی۔ ناول امراؤ جان ادا میں لکھنوی تہذیب کی مرقع کشی جس خوش اسلوبی کے ساتھ کی گئی ہے اس کی نظیر ہمیں دوسرے ناولوں میں نہیں ملتی۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ لکھنوی تہذیب نے مجھے اس ناول کو منظوم کرنے کی طرف راغب کیا۔

رشید اشرف نے ابتدا میں امراؤ جان ادا کے والدین اور پھر اس کے اغوا کی داستان دل دوز فنکارانہ شعور کے ساتھ رقم کی ہے۔ اس کی مثال دیکھیے؛

اودھ میں بسا فیض آباد ہے             ادا کا یہی شہر بیداد ہے

لڑکپن میں اس کا امیرن تھا نام                    فقط کھیلنے کودنے سے تھا کام

امیرن کے والد کا تھا اک مقام                    محلے میں کرتے تھے سب احترام

بہت نام تھا اس رضاکار کا               تھا پیشہ پولس میں  ’جمعدار‘ کا

زمیں تھی، مکاں اوراملاک تھی                  بڑی شان تھی دور تک دھاک تھی

پولس کے محکمے سے ڈرتے تھے سب                        سلام ان کو بے وجہ کرتے تھے سب

محکمے میں خدمات کے باوجود                        ہمیشہ تھا وردِ زباں یا ودود

وہ رشوت نہ لینے سے خورسند تھے                نماز اور روزے کے پابند تھے

مثنوی امراؤ جان میں مرزا رسوا کے قصے کو تقریباً من و عن بیان کیا گیا ہے تاہم پیرایہ اسلوب کی ندرت نے اسے ایک خوشگوار شعری تجربہ میں تبدیل کر دیا ہے۔ ظفر احمد صدیقی نے اس مثنوی کے ضمن میں لکھا ہے؛

یہ بات خوش آئند ہے کہ مغرب سے غیر ضروری مرعوبیت کا دور ہمارے یہاں ختم ہو چکا ہے۔ ہماری نوجوان نسل کلاسیکی ادب کا مطالعہ کشادہ ذہنی کے ساتھ کر رہی ہے۔ یہ غالباً اس کا اثر ہے کہ ڈاکٹر رشید اشرف نے مثنوی امراؤ جان کی تصنیف کا بیڑا اٹھایا ہے۔

اس مثنوی کی اشاعت ایک اہم ادبی وقوعہ ہے۔ایک طرف  جہاں رشید اشرف درس و تدریس کا فریضہ انجام دے رہے ہیں وہیں  کلاسیکی ادب کو تخلیقی ثروت مندی کے لازوال ذخیرہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

(تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)