ورق در ورق:لنچ فائلز، محض وقتی اور ہنگامی مسئلے پر ایک کتاب نہیں ہے

02:32 PM Feb 18, 2019 | شافع قدوائی

ضیاء السلام نے محض وقتی اور ہنگامی مسئلے کو موضوع بحث نہیں بنایا ہے بلکہ انہوں نے اپنی اس کتاب کے توسط سے انسانی سرشت میں مضمر تشدد سے گہری دلچسپی کی روش کو بھی گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے اور اس نوع کے واقعات کے تاریخی پس منظر کو بھی موضوع بحث بنایا ہے۔

رواداری، گہرے انسانی روابط اور باہمی یگانگت کو زمانہ قدیم سے ہندوستانی تہذیب کا شناس نامہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہاں کی تمام زبانیں علی الخصوص اردو اور ہندی میل جول، غم خواری اور بھائی چارہ کی تفصیلات سے اپنا وجود قائم کرتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ انتہائی مکروہ فعل جسے انگریزی میں لنچنگ کہا جاتا ہے، کے لیے اردو یا ہندی میں کوئی لفظ نہیں ہے اور نہ یہ لفظ بطور اصطلاح رائج ہو سکا ہے۔ پیٹ پیٹ کر مار دینے سے لنچنگ کے مفہوم کی ترسیل کی جاتی ہے۔

 پتھر مار مار کر ہلاک کرنے کے لیے’سنگسار’ کی اصطلاح موجود ہے کہ یہ شرعی سزا بھی ہے۔ ادھر گزشتہ پانچ برسوں سے ماہرین لغت لنچنگ کے اردو متبادل کے لیے سرگرداں ہیں کہ ملک کے مختلف حصوں میں گئو کشی کے مبینہ الزام میں متعدد مسلمانوں کومشتعل ہجوم نے زدو کوب کرکے ہلاک کر دیا۔ یہ ہندوستان کی معاصر سیاسی حقیقت کا ایک ایسا تاریک پہلو ہے جس نے انسانی سفاکی اور بربریت کا ایک نیا خوں آشام منطقہ قائم کیا ہے۔

 اس غیرانسانی اور مکروہ ترین بیانیہ کے خد وخال اور اس کے فکری اور تاریخی تناظر کی پوری معروضیت کے ساتھ نشان دہی سیاسی تجزیہ نگاروں، ادیبوں، معاصر مؤرخوں اور صحافیوں کی اولین ذمہ داری ہے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ فریضہ انگریزی کے مشہور ادیب اور صحافی ضیاء السلام نے پوری پیشہ وارانہ دیانت داری کے ساتھ انجام دیا ہے اور اس کا ثبوت ان کی نئی کتاب لنچنگ فائلز ہے۔

زیر نظر کتاب کے ابواب کو مصنف نے’فائل’ کا نام دیا ہے۔ پانچ فائلوں پر مشتمل انسانی بربریت اور سفاکی کے مختلف پہلوؤں کو محیط یہ کتاب مذہبی تقدیس کی حامل’گائے’ کو ایک پرتشدد سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرنے کی خونچکاں داستان پورے دستاویزی شواہد کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ ضیاء السلام نے جن کی طلاق ثلاثہ سے متعلق کتاب کی صحافتی اورعلمی حلقوں میں بڑی پذیرائی ہوئی تھی، اب فرقہ وارانہ فساد کے متبادل کی صورت میں ہونے والے کہیں زیادہ غیر انسانی فعل لنچنگ کو اپنی صحافتی اور علمی تحقیق کا ہدف بنایا ہے۔

مصنف نے لنچنگ کے تاریخی پس منظر کی وضاحت کرتے ہوئے بجا طور پر لکھا ہے کہ اس کی ابتدا امریکی خانہ جنگی کے دوران (1861 میں) ہوئی تھی۔ امریکہ کے سیاہ فام باشندے جب غلامی کا طوق اپنے گلے سے اتار کر آزاد ہونے کی کوشش کرتے تھے تو انہیں سر راہ پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا جاتا تھا۔ مصنف کے مطابق خانہ جنگی کے بعد یعنی 1880 سے 1930 تک اس نوع کی ہلاکتوں کے 2400واقعات ہوئے اور پھر یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔ یہ لفظ اب برسوں بعد یعنی جون2014 میں پھر استعمال کیا گیا جب دادری میں محمد اخلاق کو گائے کا گوشت کھانے اور اسے اپنے گھر میں رکھنے کے مبینہ الزام میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا۔

لنچنگ کوئی اضطراری اور ہیجان انگیز جذباتی فعل نہیں ہے۔ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہوتی ہے۔مصنف کے مطابق اس مکروہ فعل کو انجام دینے والوں کو خوب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی اور سوشل میڈیا پر ان کی جانب سے جاری کیے گئے ویڈیو کی پذیرائی کی جائے گی۔ قانون کے ہاتھ ان تک نہیں پہنچ سکیں گے اور مقتول کے خلاف ایف آر آئی درج ہوگی۔

پہلے باب (فائل ایک) میں مصنف نے تفصیلی شواہد اور گہری سیاسی بصیرت کے ساتھ یہ واضح کیا ہے کہ کس طرح لنچنگ نے فرقہ وارانہ فساد کے متبادل کے طور پر خود کو قائم کیا ہے۔ ضیاء السلام نے صحیح لکھا ہے کہ لنچنگ کے اثرات فرقہ وارانہ فساد کے مقابلے میں کہیں زیادہ تباہ کن ہوتے ہیں۔ فرقہ وارانہ فساد میں دو فریق ملوث ہوتے ہیں اوردونوں کا نقصان ہوتا ہے اور پولیس اور حکومت اس پر قابو پانے کی کوشش بھی کرتی ہے کہ قانون کی بالادستی کا بھرم قائم رہے مگر لنچنگ کے نتیجے میں متعلقہ کنبہ اس علاقے کو خیر باد کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور اس کی داد رسی بھی نہیں ہوتی ہے۔

 مصنف نے اس طرح کے واقعات کی ضمن میں گئو کشی کے مبینہ سبب کے ضمن میں مشہور مؤرخ پروفیسر ڈی این جھا کے حوالے سے لکھا ہے کہ گائے کبھی روحانی مقصد براری کے لیے استعمال نہیں کی گئی اور19ویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی میں اس کا سیاسی استعمال شروع کیا گیا۔ اس سلسلے میں پروفیسر جھا نے دیانند سرسوتی کا ذکر کیا ہے جنہوں نے گائے کو سیاسی مفادات کے سلسلے میں استعمال کیا۔

مصنف نے اسی باب میں بھارتیہ گئو رَکشا دَل کے قیام اوران کے مقاصد پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی ہے اور گئو کشی کے الزام میں مسلمانوں کو سر عام ہلاک کرنے کے واقعات میں مماثلت کے پہلوؤں کو خاطر نشان کیا ہے۔ دوسرے باب (دوسری فائل) میں دادری، پونہ، الور، چتور گڑھ، راج سمند، بلب گڑھ، کُرُکشیتر، ہاپوڑ، رام گڑھ، گریڈیہ، لتیہر، جمو ں اورستنا کے واقعات کو ممکنہ پوری تفصیلات کے ساتھ درج کیا ہے۔ یہاں صرف اخباری رپورٹوں پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس سلسلے میں مختلف سیاسی تجزیہ کاروں کے بیانات کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔

اخلاق، جنید، مستحسن عباس، افضل، عثمان انصاری، مظلوم انصاری، امتیاز، نعمان، سمیع، سراج خاں، رضوان، شکیل، کامل اور اشفاق کی بہیمانہ ہلاکت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خوف و ہراس کے ماحول اور حکومت کی سطح پر خطاکاروں کی پاسداری کے مختلف نکات تحقیقی دیانت داری کے ساتھ اجاگر کیے گئے ہیں۔ مصنف نے فرقہ وارانہ فساد اور لنچنگ کو انسانی بہیمیت، بربریت اور نفرت کا یکساں مظہر قراردینے کے باوجود آخرالذکر کو انسانیت کے لیے زیادہ بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔

انہوں نے ان انسانیت سوز واقعات کے تئیں وزیر اعظم کی خاموشی اور خطاکاروں کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں کے ہاتھوں پذیرائی کو ہندوستانی جمہوریت کے لیے ایک سنگین خطرہ ٹھہرایا ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں آر ایس ایس کی فکر کے مبلغ ایم ایس گولوالکر کے اقوال کثرت سے نقل کیے ہیں۔ گولوالکر کے مطابق وہ لوگ جن کی پِتر بھومی (فادر لینڈ)اور پُنیہ بھومی (مقدس زمین) ایک نہیں ہے، ان کو اکثریتی فرقہ کے رحم وکرم پر زندہ رہنے کا حق دیا جائے گا۔

وہ لوگ یا تو قومی دھارے یا اکثریتی فرقہ کے تہذیبی ورثے کو پوری طرح قبول کرلیں اور اس میں ضم ہو جائیں یا پھر وہ شہری حقوق سے عاری ہو کر اکثریت کی صوابدید پر منحصر رہیں۔ اس نقطہ نظر کے مطابق اکثریتی فرقہ کی فرقہ واریت Nationalism ہے اور اقلیتی فرقہ کی فرقہ واریت محض فرقہ واریت ہے۔ مصنف کے مطابق گرو گولوالکر کے اسی نقطہ نظر نے ملک میں فرقہ واریت کی لو کو بہت تیز کر دیا ہے اور اس کے نتیجے میں مسلمان اور دیگر اقلیتوں کا بری طرح استحصال کیا جارہا ہے۔

مصنف نے محض مسلمانوں کی لرزہ خیز داستان بیان نہیں کی ہے بلکہ دلتوں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک اورتشدد کے واقعات کی روداد بھی پوری قوت کے ساتھ بیان کی ہے۔ باب سوم (فائل تین) میں ہمیر پور (ہماچل پردیش)اور اُونا میں اعلیٰ ذات کے افراد پر مشتمل ہجوم نے کس طرح دلتوں پر مظالم توڑے اور انہیں کس کس طرح ذلیل کرنے کی کوشش کی، یہ پوری تفصیل جامعیت کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔

کتاب میں لنچنگ کے ان واقعات کو بھی توجہ کا مرکز بنایا گیا ہے جن سے واقفیت عام نہیں ہے۔ چوتھا باب (فائل چار)اسی اجمال کی تفصیل کو محیط ہے۔ مصنف سیاسی جماعتوں اورسرکاری اہلکاروں سے بجا طورپر نالاں نظر آتے ہیں اور ان کی امید کا مرکز عدلیہ ہے۔ سپریم کورٹ نے 17؍جولائی 2018 میں تحسین پونہ والا بنام حکومت ہند مقدمہ میں اپنے فیصلے میں ہندوستان میں2014کے بعد ہونے والے لنچنگ کے واقعات پر سخت نوٹس لیا تھا۔

مصنف کے مطابق 45 صفحے پر مشتمل سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس نوع کے واقعات پر قدغن لگانے میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا ہے اور سپریم کورٹ کی مداخلت سے اقلیتوں میں تحفظ کا بجا طور پر احساس جاگا۔

اس کتاب کا پیش لفظ گجرات کے نوجوان دلت رہنما جگنیش میوانی نے لکھا ہے جس میں انہوں نے اس امر پر گہرے تاسف کا اظہار کیا ہے کہ 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے ملک کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دس سال کے لیے فرقہ وارانہ اور ذات پات پر مبنی تشدد پر پابندی لگا دی جائے گی، مگر یہ وعدہ ان کے دیگر وعدوں کی طرح پورا نہ ہوا۔ اس کا نتیجہ بالکل الٹا نکلا اور لنچنگ ایک نئی سیاسی حقیقت کے طور پر ہمارے سامنے آئی۔

ضیاء السلام نے محض وقتی اور ہنگامی مسئلے کو موضوع بحث نہیں بنایا ہے بلکہ انہوں نے اپنی اس کتاب کے توسط سے انسانی سرشت میں مضمر تشدد سے گہری دلچسپی کی روش کو بھی گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے اور اس نوع کے واقعات کے تاریخی پس منظر کو بھی موضوع بحث بنایا ہے۔ اس لحاظ سے اس کتاب میں ایک لازمانی جہت بھی پیدا ہو گئی ہے۔

ضیاء السلام ایک کثیر التصانیف ادیب ہیں اور ان کی فکر انگیز تحریریں تواتر کے ساتھ شائع ہوتی رہتی ہیں مگر خدا سے دعا ہے کہ انہیں لنچنگ فائلزکی طرح کی دوسری کوئی کتاب نہ لکھنی پڑے۔

(تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)