بک ریویو:یہ کتاب اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ کیسے آر ایس ایس اور ان کے ہم خیال گروپس اپنے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے دلت، آدی واسوی اور دیگر پسماندہ طبقات کا استعمال کرتی ہیں۔
بھنور میگھ ونشی راجستھان کے ضلع بھیل واڑہ میں رہنے والے ایک سماجی کارکن اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق دلت سماج سے ہے اور وہ اپنے علاقے کے علاوہ ریاست کے دوسرے حصوں میں بھی حقوق انسانی اور سماجی انصاف کی پاسداری کے لئے سرگرم عمل ہیں۔وہ پابندی سے مختلف اخبارو رسائل کے علاوہ سوشل میڈیا پر سیاسی و سماجی موضوعات، بالخصوص سماجی غیر برابری اور ناانصافی کے خلاف بے باک انداز میں لکھتے رہتے ہیں اور ان موضوعات پر متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب
میں ایک کارسیوک تھا ان کی تازہ ترین تصنیف ہے، جو ہندی کے علاوہ انگریزی میں بھی شائع ہو چکی ہے۔گو کہ یہ کتاب اصلاً ہندی لکھی گئی ہے، لیکن ہندی اور انگریزی ترجمہ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ انگریزی میں دس ہزار الفاظ اضافی ہیں ۔
یہ کتاب بنیادی طور پران کی آپ بیتی ہے،جس میں وہ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار سے اپنی وابستگی اور پانچ سال بعد اس سے علیحدگی اختیار کرنے کی کہانی بیان کرتے ہیں۔وہ قاری کو تفصیل سے بتاتے ہیں کہ سنگھ پریوار سے کیوں وابستہ ہوئے اور ایک دلت ہونے کی وجہ سے انہیں کس طرح کی عصبیت کا سامنا کرنا پڑا۔
کتاب کی شروعات رام جنم بھومی تحریک میں ان کے حصہ لینے کی کہانی سے ہوتی ہے اور کیسے دوسرے نوجوانوں کی طرح ان پر بھی ‘سوگندھ رام کی کھاتے ہیں، مندر وہیں بنائیں گے’ کابھوت سوار تھا۔اس سلسلہ میں وہ کارسیوا میں بھی شامل ہوئے، اور انپے شہر سے ایودھیا کے لئے رخت سفر بھی باندھا، لیکن بیچ میں ہی دوسرے کارسیوکوں کےساتھ گرفتار کر لیے جانے اور واپس بھیج دیے جانے کی وجہ سے بابری مسجد کو منہدم کرنے کی کارروائی میں شریک نہیں ہو سکے۔ اسی درمیان ان کو دھیرے دھیرے احساس ہونے لگا کہ کچھ توغلط ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ اصل دھچکا تب لگتا ہے جب کارسیوا میں مارے گئےبھیل واڑہ کے دو افراد کے لئے منعقد ایک استھی کلش یاترا کے موقع پر سنگھ اور اس سے وابستہ دوسری تنطیموں کے ذمہ داران نے ان کے گھر کا کھاناکھانے سے انکار کر دیا، جو انہوں نے بڑی محنت اور محبت سے تیار کروایا تھا۔وہ لکھتے ہیں؛
میری صورت حال اس وقت بڑی عجیب ہو گئی تھی۔ میں اپنے ہی گھر میں ہارا ہوا محسوس کر رہا تھا۔
وہ آگے لکھتے ہیں کہ؛
میرے من میں سوال پیدا ہوا کہ مجھ جیسے نظم و ضبط کےپابندسوئم سیوک اور جنونی کارسیوک جو ضلع لیول کا ایک ذمہ دار بھی ہے، اگر اس کے ساتھ چھوت چھات کا ایسا معاملہ ہے تو میرے(دلت)سماج کے دوسرے لوگوں کے ساتھ کیسا امتیازی سلوک ہو رہا ہوگا؟ اس دن پہلی بار میں نے ایک ہندو سے الگ ہوکر صرف نیچی ذاتی یا شخص کے نظریے سے سوچنا شروع کیا ۔
میں جتنا سوچتا تھا، اتنا ہی الجھتا جاتا تھا۔ صحیح بات تو یہ ہے وہ رات میرے زندگی کی سب سے لمبی رات تھی…اگلا دن میرے لیے قیامت کی طرح تھا کیوں کہ اس صبح مجھے پتہ چلا کہ جو کھانا میرے گھر سے یہ کہہ کر پیک کروا کے لے جایا گیا تھا کہ اس آگے ہم کھلا دیں گے، اسے پھینک دیا گیا تھا۔
اس واقعہ سے پریشان ہوکر انہوں نے آر ایس ایس کے سربراہ اور دوسرے ذمہ داران کو خط بھی لکھے۔ لیکن کہیں سے کوئی جواب نہیں ملا۔ سنگھ کے ذمہ داران کے اس رویے نے انہیں اتنی تکلیف پہنچائی کی خود کشی کے ارادے سے چوہے مارنے کی دوا کھا لی۔ لیکن وقت رہتے ان کے بڑے بھائی صاحب نے ان کی جان بچا لی۔
اس واقعہ کے بعد انہوں نے آر ایس ایس اور اس سےمتعلقہ تنظیموں سے بدلہ لینے کا تہیہ کیا اور ہر وہ کام کرنے کا ارادہ کیا جو ان کو تکلیف پہنچا سکتا ہو۔
اسی ضمن میں انہوں نے مذہب تبدیل کرنے کا پلان بنایا اور اس کی کوشش بھی کی۔ لیکن اس سلسلہ میں وہ ایک اہم بات یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے کبھی بھی اسلام قبول کرنے کے بارے میں نہیں سوچا کیوں کہ آر ایس ایس کی ٹرینگ کے نتیجہ میں ان کےدل میں ابھی بھی اسلام اور مسلمانوں کے لئے نفرت اور دشمنی کے احساسات زندہ تھے، جس کو ختم ہونے میں بہت وقت لگا۔
کتاب میں اور بھی بہت ساری دلچسپیاں ہیں اورکئی اہم باتیں درج ہیں، جس سے آر ایس ایس اور متعلقہ تنظیموں کے بارے میں براہ راست جاننے کو ملتا ہے۔یہ کتاب اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ کیسے آر ایس ایس اور ان کے ہم خیال گروپس اپنے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے دلت، آدی واسی اور دیگر پسماندہ طبقات کے لوگوں کو استعمال کرتی ہیں۔
کتاب گرچہ ہندی میں ہے لیکن عام فہم زبان میں لکھی گئی ہے اس لیے اردو قارئین بھی اس سے پوری طرح استفادہ کر سکتے ہیں۔