ورق در ورق: نئے بیانیہ کو خلق کرتے غضنفر کے خاکے

01:49 PM Feb 04, 2019 | شافع قدوائی

غضنفر کا 20 خاکوں پر مشتمل یہ مجموعہ خوش رنگ چہرے معاصر ادبی منظر نامہ کے نادیدہ پہلوؤں سے قاری کو واقف کراتا ہے گو کہ ’’مسلسل ذکر خیر‘‘ عام قاری کو کم ہی خوش آتا ہے۔

ہمارے عہد کی شناخت دو اصطلاحوں- مابعد صداقت دور(Post Truth Period) یا تماشا سوسائٹی (Spectacle Society) سے قائم کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اب انسان کے حسن و قبح کا معیار ، اس کا اخلاق اور اس کی شرافت نفس نہیں ہے بلکہ معاشرہ میں وہی شخص اعتبار حاصل کرتا ہے جو اپنا سب کچھ، خواہ وہ حقیقی ہو یا تمنائی، طشت از بام کرنے کا خواہاں ہوتاہے۔ یہی سبب ہے کہ سوانح عمری اور آپ بیتی افسانہ اورناول کے مقابلے میں کہیں زیادہ مقبول صنف ہے۔ انسانی اعمال اور افعال کا پہلو دار بیانیہ، جو ثقافتی، لسانی اورمعاشرتی آرزومندیوں کے سلسلہ کو متحرک کرنے پر قادر ہو، پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

خاکہ دراصل سوانحی کوائف، اکتباسات، دستیابیوں اور شخصی کمالات کا ایک ایسا غیر رسمی بیانیہ ہوتاہے جس کا خمیر کامرانیوں، ناکامیوں، ہم آہنگی اور تضادات کے باہم آمیزہ سے اٹھتا ہے۔ افسانہ کے مقابلے میں خاکہ میں ڈرامائیت کا عنصر کم ہوتا ہے تاہم جزئیات نگاری اور نفسی کیفیات کے تجزیے کی سطح پر خاکہ فوقیت رکھتا ہے۔ خاکہ کا پیرایہ بیان عموماً بول چال کی زبان سے بہت قریب ہوتا ہے جس کے باعث تحریر میں گفتگو کی سی برجستگی پیدا ہوجاتی ہے۔ خاکہ میں افسانہ کے برخلاف آغاز، وسط اور انجام نہیں ہوتا بلکہ بیان کردہ تمام نکات مادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ مانوس اسلوب اور ممدوح کے تئیں گہری انسانی ہمدردی کے باوجود معروضیت کی پاسداری اور عیبوں کی پردہ داری یا ان کی بے جا نمائش سے یکسر گریز ایک اچھے خاکے کے بنیادی اوصاف ہیں۔

خاکہ عموماً کسی شخص کو مرکوز ہوتا ہے، لہٰذا انہیں کرداری خاکہ کہا جاتا ہے اور متعلقہ شخص سے متعلق تفصیلات، جن سے واقفیت عام نہیں ہوتی ہے، خاکہ کو مقبول صنف کی صورت عطا کرتی ہیں۔ جوزف اڈیسن اور رچرڈ اسٹیل کی تحریروں سے سترہویں صدی میں اس ادبی صنف کو استحکام حاصل ہوا۔ واشنگٹن اروِن نے انگریزی اخلاقیات، روایات اور تہذیبی رسومیات کو خاطر نشان کرنے کے لیے خاکہ پر مشتمل ایک مبسوط کتاب The Sketch Book of Geoffrey Crayon مرتب کی ۔ انتون چیخوف اور ہنری لاسن کے خاکوں نے بھی بہت مقبولیت حاصل کی۔

اردو میں خاکہ نگاری کی سب سے خیال انگیز مثال منٹو کے خاکوں کا مجموعہ ’’سیاہ حاشیے‘‘ ہے۔ منٹو نے اپنے خاکوں میں واقعاتی ترتیب کو مرکز نگاہ نہیں بنایا بلکہ مختصر وقفہ کو محیط کرداروں کی زندگی سے متعلق تابناک اور روشن لمحوں کو اپنے تخلیقی ارتکاز کا محور بنایا۔ منٹو کے علاوہ بہت سے سرکردہ ادیبوں نے بھی خاکے لکھے مگر فی زمانہ خاکہ نگاری سے بے اعتنائی عام ہے۔ موبائل، انٹرنیٹ، وہاٹس ایپ اور فیس بک سے آباد کائنات میں دوسروں کے سوانحی حادثات یا ان کے کارناموں سے واقفیت حاصل کرنا فعل عبث سمجھا جاتا ہے ۔ ادھر جاوید صدیقی اور غضنفر نے پورے تخلیقی انہماک کے ساتھ اس صنف کو اپنے ادبی اظہار کا ذریعہ بنایا اوران کے خاکوں نے ادبی فضا میں تلاطم ضرور پیدا کیا۔

غضنفر ہمارے عہد کے ایک کثیر التصانیف ادیب ہیں اور انہوں نے افسانہ، ناول، شاعری، ڈراما اور تنقید کے میدان میں اپنی تخلیقی فطانت کے قابل لحاظ نقوش مرتسم کیے ہیں۔ غضنفرکی اب تک22 کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں اور ان کے خاکوں کا تیسرا مجموعہ ’’خوش رنگ چہرے‘‘ کے عنوان سے حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ غضنفر بشری کمزوریوں اور داخلی تضادات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ انسانی زندگی دراصل تضادات سے صورت پکڑتی ہے۔ ایک لمحے میں انسان کا عمل کچھ ہوتا ہے اور دوسری ساعت میں وہ اپنی امیج کو خود Subvertکر دیتا ہے۔ ذاتی زندگی میں ڈسپلن اور ہر گام میں انتہائی حزم و احتیاط کا مظاہرہ کرنے والا اکثر فون نہیں اٹھاتا اور موبائل کی مسلسل گھنٹی اسے اخلاقی ندامت میں مبتلا نہیں کرتی۔

غضنفر کے نزدیک انسان کو اس کی کلیت میں قبول کرنا چاہئے اور اچھائی اور برائی کے مقرر معیاروں سے شخصیت کے ساتھ انصاف نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرہ میں سانس لے رہے ہیں جہاں ہر شخص دوسرے کے بارے میں منفی ترین رائے کو قبول کرنے میں پوری طرح آمادہ نظر آتا ہے۔ غضنفر ان تاریکیوں، وقفوں اور نفسی گرہوں سے خوب واقف ہیں مگر وہ کچھ اچھائیاں اور برائیاں بیان کرکے شخصیت کا بہی کھاتہ مرتب نہیں کرتے بلکہ مثبت پہلوؤں کے حسیاتی سیاق کو اجاگر کرتے ہیں۔ غضنفر نے اپنے خاکوں کی پذیرائی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا؛

سرخ رو (خاکوں کا پہلامجموعہ)کے رنگ و آہنگ آپ کو اچھے لگے۔ حوصلہ پاکر کچھ اور چہروں پر نگاہیں مرکوز ہوئیں۔ ان کے خط و خال اور رنگ و رامش بھی گرفت میں آگئے۔ حسب معمول ان کی سیاہیاں اپنے اندر جذب کررہا ہوں اور سفیدیاں آپ کو دکھا رہاہوں اس لیے کہ سفیدیوں سے روشنی پھوٹتی ہے اور روشنی راہ دکھانے اور منزل تک پہنچانے میں مدد کرتی ہے۔

سیاہیوں سے واقفیت کے باوجود ان کے اثرات کی برملا نشان دہی سے گریز اور بلیغ محاورہ پر بیانیہ کو قائم کرنا غضنفر کے فنی بلوغ کو خاطر نشان کرتا ہے۔20 خاکوں پر مشتمل یہ مجموعہ معاصر ادبی منظر نامہ کے نادیدہ پہلوؤں سے قاری کو واقف کراتا ہے گو کہ ’’مسلسل ذکر خیر‘‘ عام قاری کو کم ہی خوش آتا ہے۔ شمس الرحمان فاروقی کے قابل قدر ادبی اکتباسات اور انگریزی، اردو، فارسی اور دیگر زبانوں پر ان کی ماہرانہ دسترس کی پوری ادبی دنیا معترف ہے۔

فاروقی کے ناول ’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ کو دانش وری اور تخلیقی ہنرمندی کی حیرت انگیز مثال کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔غضنفر نے فاروقی کی گہری علمیت اور تنقیدی ژرف نگاہی کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی جرأت اظہار کے واقعات بیان کیے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ فاروقی اپنی رائے کا، خواہ کتنی ہی تلخ کیوں نہ ہو، برملا اظہار کرتے ہیں۔ غضنفر نے سجاد حیدر یلدرم پر منعقدہ سیمینار کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے؛

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں یونیورسٹی کے پہلے رجسٹرار سجاد حیدر یلدرم کی یاد میں ایک سیمینار ہو رہا تھا۔ سیمینارمیں وائس چانسلر اور یونیورسٹی انتظامیہ کے ممبران کے ہمراہ یلدرم کے اعزا جن میں قرۃ العین حیدر (ان کی بیٹی)بھی شامل تھیں، تشریف فرما تھیں۔کلیدی خطبہ پڑھتے ہوئے اس شخص نے فرمایا’یلدرم چوتھے درجے کے ادیب تھے’۔ اگر کوئی دوسرا ہوتا تو یقیناً عینی آپا کا خیال رکھتا اور ان کے سامنے یہ جملہ نہیں بولتا۔

غضنفر نے مدلل مداحی سے اعراض برتاہے اور فاروقی کے سلسلے میں لکھا ہے؛

مگر وہ زبان کا جتنا پکا ہے ، اتنا ہی کان کا کچا بھی ہے۔ اتنا کچا کہ کان میں کوئی بات داخل ہوئی نہیں کہ کھلبلی مچ گئی۔ لویں گرم ہو اٹھیں۔ ایسا شدید ردعمل کہ منھ سے گالیاں تک نکلنے لگیں۔

غضنفر کا خاکہ پورے فاروقی کی تفہیم کی راہ ہموار کرتا ہے۔ کچھ یہی صورت نسیم قریشی کے خاکے کی ہے جن سے علی گڑھ سے ناواقف حضرات آشنا نہیں ہیں۔

گزشتہ برس سرسید کی دو صد سالہ تقریبات پورے ملک میں بڑے پیمانے پر منعقد کی گئیں۔ سرسید پر لاتعداد مقالے اور کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور ان سے متعلق ڈرامے بھی اسٹیج کیے گئے ہیں۔ غضنفر نے سرسید کی امتیازی صفت کے مختلف امکانات کو پوری دیدہ وری کے ساتھ اجاگر کرنے کے لیے ایک خاکہ ’’سرسید کی مجبوری‘‘ لکھا۔ عنوان میں مستعمل لفظ ’مجبوری‘ میں ذم کا پہلو موجود ہے۔ مجبوری مطبوع خاطر نہیں ہوتی اور جبر کبھی ثمر آور نہیں ہوتا۔ غضنفر کے نزدیک سرسید نے اپنی ہمہ گیر اصلاحی تحریک ایک مجبوری کے تحت شروع کی تھی۔ اس مجبوری کی تشریح دیکھئے؛

بینائی والی آنکھیں کسی کو ڈوبتے نہیں دیکھ سکتیں/سماعت والے کان کسی چیخ پر چپ نہیں رہ سکتے / حساس دل کسی کے کرب و کراہ پر دھڑکے بنا نہیں رہ سکتا / اس شخص کی مجبوری یہی تھی کہ / اس کی آنکھیں روشن اور درد مند تھیں/ اس کے کان زندہ اور حساس تھے/ اور اس کا دل بے حس اور مردہ نہیں تھا۔ اس کی ساری تگ و دو، ساری جد و جہد اور سارے درد و کرب اسی مجبوری سے جڑے ہیں۔

خاکہ نگار نے ا س کے بعد علی گڑھ تحریک سے وابستہ اصحاب اور یونیورسٹی کے اساتذہ کے دلوں میں موجزن گہری انسانی ہمدردی کی متعدد مثالیں فنکارانہ شعور کے ساتھ پیش کی ہیں۔ مانوس لفظیات سے شعوری گریز تخلیقی تازہ کاری کا نقش مرتسم کرتا ہے۔ غضنفر چاہتے تو مجبوری کو سرسید کے باطن کی آواز سے بھی تعبیر کر سکتے تھے۔


یہ بھی پڑھیں : ٹام آلٹر کے فلمی سفر کی کہانی، خود ان کی زبانی


اس مجموعے کا سب سے اچھا خاکہ ٹام آلٹر پر ہے جو’آواز کا جادو گر’ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ غضنفر ایک پختہ کار تخلیق کار ہونے کے ساتھ لسانیات میں بھی خاصا درک رکھتے ہیں اور ٹام آلٹر کے ضمن میں انہوں نے کوئی غیر ملکی زبان سیکھنے کے عمل میں پیش آنے والے مقامات آہ و فغاں کی مؤثر تصویرکشی کی ہے۔ٹام آلٹر کے تلفظ اور اور مکالموں کی ایک دنیا قائل ہے۔ اس سلسلے میں غضنفرنے بعض اہم نکات کی نشان دہی کی ہے؛

اپنی مادری زبان کی عادتیں ایسی راسخ اور مضبوط ہوتی ہیں کہ دوسری زبان کی آوازوں کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیتیں اور اگر دوسری زبانیں قریب آنے کی کوشش بھی کرتی ہیں تو انہیں مارمار کر ان کی لسانی ٹانگیں توڑدیتی ہیں۔ مگر ٹام آلٹر نے اردو کے اپنے مزاج میں وہ جگہ بنائی کہ اردو ان کی مادری زبان انگریزی پر غالب آ گئی۔ ٹام آلٹر نے اپنی اردو کو یوں ہی اتنا پر کشش نہیں بنایا بلکہ اس کے لیے انہوں نے کافی محنت کی۔ باقاعدہ اردو سیکھی۔ علامہ جالب مظہری سہسرامی کی شاگردی اختیار کی۔ لب و لہجہ پر خاصی توجہ صرف کی۔ اردو کے اشعار یاد کیے اور انہیں ادا کرنے کی مشق کی۔ ڈائیلاگ کی ڈلیوری کے وقت اردو آوازوں اور اردو زبان کے لب و لہجے پر نہ صرف یہ کہ موسیقی کی طرح ریاضت کی بلکہ اپنی لسانی عادتوں سے بھی جنگ کی۔

غضنفر نے زیادہ تر علی گڑھ سے وابستہ حضرات مثلاً ڈاکر نسیم قریشی، پروفیسر قمر الہدیٰ فریدی، جاوید حبیب، ڈاکٹر عارف حسن خاں اور رشید قریشی کو اپنے تخلیقی اظہار کا محور بنایا ہے۔ اس کے علاوہ بیگ احساس، انجم عثمانی، صفدر امام قادری، ناز قادری اور ارتضیٰ کریم وغیرہ کے خاکے خاصے وقیع ہیں۔ غضنفر نے نہ صرف ادیبوں اور شاعروں کو موضوع گفتگو بنایا بلکہ بعض عام کرداروں مجید اور رحمۃ اللہ کے قابل رشک پہلوؤں کو مرکز نگاہ بنایا ہے۔

غضنفر کے خاکے ناول، افسانہ اور تنقید کے ہر آن لمبے ہوتے ہوئے سایوں کو ہماری نگاہوں سے دور رکھنے کا نیا بیانیہ خلق کرتے ہیں اور غضنفر کے خاکوں کے مطالعہ سے ذہن میں آسٹریلیا کے مشہور ادیب اور خاکہ نگار ہنری لاسن(1867-1922) کا یہ قول تازہ ہو جاتا ہے؛

I thought the short story was a lazyman’s game, second to Free Verse, compared with Sketch. The short story has to be really good, must be good in every line, but .the sketch is best of all

(تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)

The post ورق در ورق: نئے بیانیہ کو خلق کرتے غضنفر کے خاکے appeared first on The Wire - Urdu.