ورق در ورق : اندھی آنکھوں کا سپنا اور دوسری نظموں کا مجموعہ

02:09 PM Jan 14, 2019 | شافع قدوائی

ف س اعجاز ایک باخبر صحافی بھی ہیں لہٰذا انہوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور واقعات کا حسی رویا خلق کیا ہے جس پر فوری پن (Immediacy)کے سائے لرزاں نہیں ہیں۔

فہم انسانی وقت کا ادراک کس طرح کرتا ہے اور انسانی اعمال و افعال کس طرح اس حوالے سے مرتب و متشکل ہوتے ہیں؟ وقت ایک آنِ واحد (Eternal Presence) کا نام ہے یا پھر اسے ماضی، حال اور مستقبل میں منقسم کیا جا سکتا ہے؟ وقت گذرتا ہے یا انسان؟ وقت کیا ابدیت اور حیات مسلسل کا استعارہ ہے؟ اس نوع کے اہم سوالات فلسفیانہ مباحث اور علمی مذاکر ہ کا موضوع نہیں ہیں بلکہ یہ وہ نکات ہیں جن پر دنیا کے عظیم تخلیق کاروں نے اظہارِ خیال کیا ہے۔

 اس ضمن میں سب سے اہم نام اقبال کا ہے جنہوں نے برگساں اور دیگر مغربی مفکرین کے حوالے سے تصور وقت کواپنے تخلیقی ارتکاز کا اساسی حوالہ بنایا۔ اس سلسلے میں مسجد قرطبہ، ذوق شوق اور بعض دیگر نظموں کو خیال انگیز مثالوں کی صورت میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ ادب میں تصور وقت کو موضوع گفتگو بناتے ہوئے مشہور مابعد جدید نظریہ ساز نقاد ہلس ملرنے اپنے مضمون ’’ادب میں وقت‘‘ میں انسانی وقت (Human Time) کے مختلف ابعاد روشن کیے ہیں۔

 ملر کے مطابق ادب میں وقت ہمیشہ اندرون میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ یہ اصلاً فعل حال ہے جس پر ماضی، حال اور مستقبل کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح کسی بھی متن کی قرأت کے تین حوالے ہوتے ہیں: اولاً متن کا (یعنی فن پارے کے موضوع کا تعلق کس زمانے سے ہے)، دوئم مصنف کا (کس زمانے میں متن لکھا گیاہے) اور سوئم قاری کا (قاری اس متن کا مطالعہ کب کر رہا ہے)۔

تصور وقت کے فلسفیانہ تناظر سے قطع نظر اردو کے مختلف شاعروں اور ادیبوں نے بھی وقت کی تخلیقی سطح پر تفتیش کی ہے اور تقریباً ہر شاعر اور ادیب نے وقت سے متعلق اظہار خیال ضرور کیا ہے۔ اقبال کے علاوہ قرۃ العین حیدر، انتظار حسین، نیر مسعود اور اخترالایمان نے اس موضوع کو اپنی تخلیقات میں اساسی اہمیت دی مگر یوں بھی ہے کہ ان کے ہاں ماضی کو مستقبل کے طور پر پیش کرنے کی روش ملتی ہے۔ ماضی کبھی مستقبل نہیں ہو سکتا البتہ اسے تخلیقی وسیلے کے طور پر ضرور استعمال کیا جا سکتا ہے۔

 وقت کی پیمائش کے وسیلے پر سوالیہ نشان قائم کیوں نہیں کیا جاتا اور وقت کی ابدیت کو کیوں کر اسیر کیا جاسکتا ہے؟ وقت کو خاطر نشان کرنے والے مشینی آلہ کی مرکزیت مابعد صداقت عہد میں بھی کیوں کر قائم ہے؟ یہ گہرے اور دور رس سوال اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور مترجم ف س اعجاز میں شدید تخلیقی اضطراب پیدا کرتے ہیں اور انہوں نے ایک نظم ’’بجا کیا ہے‘‘ لکھی ہے جو انسانی وقت کے مرتعش بیانیہ کے طور پر حواس پر وارد ہوتی ہے۔ یہ نظم ان کی نظموں کے تازہ ترین انتخاب ’’میری روح کا پرندہ‘‘ میں شامل ہے جو حال ہی میں انشا پبلی کیشنز ، کلکتہ نے شائع کی ہے۔

ف س اعجاز کی نظم تخلیقی تازہ کاری کے ساتھ یہ باور کراتی ہے کہ تقویم کی اساس ایک عظیم المیہ پر قائم ہے۔ عیسوی کلینڈر کا تعلق حضرت عیسیٰ کے مصلوب ہونے سے ہے اور کلینڈر بذات خود ایک ایسی فنتاسی ہے جو خود انسان نے تشکیل دی ہے۔ گھڑی کی سوئیوں سے وقت کا تعین کیا جاتا ہے۔ انسان اکثر دوسروں سے اور کبھی خود سے سوال کرتا ہے کہ بجا کیا ہے، جس کا جواب صرف گھڑی کے پاس ہے جو ایک ناقابل گرفت شے کو مقید کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ شاعرکے نزدیک کائنات کے رنگ و بو، جس کا ہر منظر انکشاف بھی ہے، حجاب بھی، کے اسرار گھڑی یا کلینڈر نہیں کھول سکتا ہے ؛

کوئی پوچھے ’’بجا کیا ہے‘‘
تو سب الٹی کلائی پر
بندھی اپنی گھڑی کو دیکھ کر
منھ سے بتاتے ہیں ’’بجا یہ ہے‘‘
کلینڈر ایک فنتاسی ہے
جس میں آپ ہم
سب لوگ کھوئے ہیں
ملینیم ایک دھوکا ہے
یہ ساری کائنات الٹی کلائی پر
گھڑی باندھے ہوئے ہے

اس شاعر کے نزدیک وقت ایک مسلسل احساس کے سوا کچھ نہیں ہے، اس کی تقسیم فعل عبث ہے۔ حافظے سے وقت کے مسلسل بہاؤ کو Subvertکیا جا سکتاہے۔ یہ مسلسل بہاؤ دراصل فراموش کاری کی ایک ایسی دبیز دھند ہے جس میں روپوش ہونا انسان کا مقدر ہے اور انسانی زندگی دراصل یادداشت اور فراموشی کی جنگ ہے جس کی مکمل حسی روداد گارشیا مارکیز، ملان کنڈیرا اور بورخیس کے ہاں موجود ہے۔ ف س اعجاز کی یہ معر کۃ الآرا نظم نہ صرف ایک پامال موضوع کے حسّی اور تخلیقی امکانات کو ہویدا کرتی ہے بلکہ الفاظ کی وسیع تر دلالتی تعبیروں کو بھی بروئے کار لاتی ہے۔

 کیا بجا ہے یعنی کیا وقت ہوا ہے ، یہ تو سامنے کے معنی ہیں۔ ’’بجا‘‘ کا ایک مفہوم حق بجانب ہونے یا ٹھیک ہونے کے بھی ہیں اور اس نظم میں سوال کیا بجا ہے کے ساتھ بطور جواب یہ مصرعے بھی ہیں ؂ تو سب الٹی کلائی پر ، بندھی اپنی گھڑی کو دیکھ کر، منھ سے بتاتے ہیں ’’بجا یہ ہے‘‘۔ ’’الٹی‘‘ کے معنی محض بائیں نہیں ، اس کے معنی غلط کے بھی ہیں۔ یعنی وقت بتانے والی مشین صحیح جگہ نصب نہیں، لہٰذا اس کا پورا عمل کار غلط کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔

وقت کے موضوع پر ایسی نظمیں بہت کم لکھی گئی ہیں۔اخترالایمان بھی اپنی نظموں میں گذران وقت کی ہولناکی اور سفاکی کا بہت ذکر کرتے ہیں تاہم یہاں تغیر آسا زندگی میں وقت کو ایک مستقل قدر کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کے مضمرات اور امکانات کا ادراک کرنے سے ذہن انسانی قاصر ہے۔

ف س اعجاز ایک کثیر التصانیف ادیب ہیں اور ان کی اب تک 26  کتابیں اشاعت پذیر ہو چکی ہیں۔ انہوں نے شاعری، افسانے اور مضامین کے علاوہ تراجم بھی کثرت سے کیے اور سفر نامے بھی لکھے۔ نیاز فتح پوری اور ٹیگور پر ان کی کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور 1986سے کلکتہ سے ماہنامہ’’ انشا‘‘ شائع کر رہے ہیں۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’تنہائیاں‘‘ 1982میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ان کی نظموں اور غزلوں کے الگ الگ تین مجموعے زیور طبع سے آراستہ ہو ئے۔

زیر مطالعہ انتخاب میں اعجاز صاحب نے اپنی 145 نظمیں شامل کی ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ فی زمانہ خیال انگیز نظمیں بہت کم لکھی جا رہی ہیں اور غزل کی غیر معمولی مقبولیت نے نظم کو ایک کم اہم صنف بنا دیا ہے۔اگر یہ رائے محض ہندوستان تک محدود ہے تو اس سے اتفاق کیا جا سکتا ہے مگر پاکستان میں معاملہ بالکل مختلف ہے اور وہاں بہت اچھی نظمیں لکھی جا رہی ہیں۔ کشور ناہید، ذی شان ساحل (جن کا کچھ عرصہ قبل انتقال ہوا)، زاہد ڈار، عذرا عباس، ابرار احمد، علی محمد فرشی اور بالکل نئے شاعر علی اکبر ناطق کی نظمیں اس اجمال کی تفصیل پر دال ہیں۔

ایک ایسے معاشرے میں جہاں ذرائع ابلاغ سچ کی ترجمانی یا عکاسی کرنے کے بجائے اپنی حقیقت خود خلق کرتے ہیں، وہاں استعارے بے معنی ہو جاتے ہیں اورترسیل کی ہر کوشش ناکام ہو جاتی ہے ؂

چھپا کے بات کنایے میں ،استعارے میں
یہ لوگ پوچھتے ہیں ہم سے کس کے بارے میں
ہمارے پاس کچھ ان کے لیے خبر بھی تو ہو (خبر)

روز مرہ کے واقعات اور مانوس حقائق کو شعری اظہار کی صورت عطا کرنا خاصا مشکل کام ہے مگر اعجاز صاحب کی متعدد نظمیں مثلاً تیز نمک، ناک پر آٹا، اشتہاری حسینہ سے، شور، ایک منظر، کبھی شاید اور بہت کہرا ہے دہلی میں، واقعہ اساس ہو نے کے باوجود ایک لازمانی حیثیت رکھتی ہیں۔

نظموں کے انتخاب میں ف س اعجاز نے خاصی فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے لہٰذا چند اکہری اور سپاٹ نظمیں بھی شامل اشاعت ہو گئی ہیں۔ نظم ’’ماں کی آواز‘‘ انسانی دردمندی اور ماں کے تئیں احساس ممنونیت کو تو آشکارا کرتی ہے مگر فکر و احساس کے کسی نئے منطقے سے آشنا نہیں کراتی۔ ماں سے متعلق لاتعداد نظمیں لکھی گئی ہیں مگر ایسی نظمیں بہت کم ہیں جو جذباتی خروش سے آباد نہیں ہیں۔

ف س اعجاز صاحب ایک باخبر صحافی بھی ہیں لہٰذا انہوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور واقعات کا حسی رویا خلق کیا ہے جس پر فوری پن (Immediacy)کے سائے لرزاں نہیں ہیں۔

اس مجموعے کی ایک بہت اچھی نظم ’’اندھی آنکھوں کا سپنا‘‘ ہے جو نابیناؤں کے بین الاقوامی سال پر کہی گئی تھی اور اس کا محرک کلکتہ ٹکسال گھر کے ایک اندھے ملازم کی تصویر تھی جن کا اکلوتا بیٹا بھی آنکھوں کی نعمت سے محروم تھا۔ اعجاز صاحب نے جذبوں کی اعانت سے خواب دیکھنے کا حسی تجربہ پورے فنکارانہ شعور کے ساتھ پیش کیا ہے۔

شاعر نے اپنی تخلیقی محرکات کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھا ہے  ’’یوں تو شاعری آبگینہ محض ہے لیکن شاعری کو شخصی و قومی ضمیر کا آئینہ بننے میں بڑے ماہ و سال لگتے ہیں۔ شاعر کا ماضی جذبہ واردات سے آباد ہونا چاہئے چاہے وہ غم انگیز ہی کیوں نہ ہو۔انبساط کے سوتے اسی سے پھوٹتے ہیں۔ یہ دولت شادمانی بہتوں کے لیے قابل رشک ہوتی ہے‘‘۔

ف س اعجاز کی نظموں کا یہ انتخاب غزلوں اور نظموں پر روز شائع ہونے والی کتابوں سے یکسر مختلف ہے اور اس کی بیشتر نظمیں فنی دبازت اور تخلیقی تازہ کاری کے نادر گوشوں سے ہمیں آشنا کرتی ہیں۔ لفظی پیکروں کے اس حسّی البم کی اشاعت ایک ادبی وقوعہ کے مترادف ہے۔

(تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)

The post ورق در ورق : اندھی آنکھوں کا سپنا اور دوسری نظموں کا مجموعہ appeared first on The Wire - Urdu.