یہ پہلی ایسی کتاب ہے جو حکیم احسن اللہ خاں پر لگائے گئے الزامات کا پوری معروضیت کے ساتھ جائزہ لیتی ہے اور الزام تراشی کے مسلسل عمل پر فل اسٹاپ لگاتی ہے۔
میں نے 1857 کی جنگ آزادی میں حکیم صاحب کے کردار کو اپنا موضوع بنایا اور اس سلسلہ کی کتابوں کے مطالعہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ حکیم صاحب کے ساتھ بڑی زیادتی کی گئی ہے اور ان کی شخصیت کو کسی تحقیق کے بغیر رسوا کیا گیا۔ غالب، خواجہ حسن نظامی، غلام رسول مہرکی کتابوں کے علاوہ ادھر جیون لال کا جو روزنامچہ، غداروں کے جو خطوط اور1857 کے اخبارات اور دستاویزات کی جو نقل شائع ہوئی ہیں اور جو نیا مواد سامنے آیا ہے، اس کی روشنی میں حکیم صاحب پر لگائے گئے الزامات بے اصل ثابت ہوتے ہیں۔ ان کے مطالعہ سے محض ان کی بے گناہی نہیں بلکہ ان کا انگریز مخالف رویہ بھی سامنے آتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی موقع پر انہوں نے انگریزوں کا ساتھ نہیں دیا ہے۔ وہ جس منصب پر فائز تھے، اس منصب کے تقاضے کے مطابق انہوں نے جو۱قدامات کیے اور آخر تک وفاداری کا حق ادا کرتے ہوئے کوئی ایسا عمل اختیار نہیں کیا جو ملک و قوم کے لیے ضرر رساں اور بادشاہ کی مرضی کے خلاف ہو۔ ان کی ساری کوششیں بادشاہ کے احکامات اور مشوروں کی تابع رہیں۔مصنف نے اپنے اس دعویٰ کے ثبوت میں مستند تاریخی شواہد پیش کیے ہیں اور حکیم احسان اللہ خاں سے متعلق الزامات کو روایتی انداز میں دہرانے کی روش کی بے مائیگی کو خاطر نشان کیا ہے۔ حکیم احسن اللہ خاں پر سب سے سنگین الزام حویلی ثمرو بیگم (چوڑی والان، دہلی)میں انقلابیوں کے بارود خانہ میں آتش زنی کا ہے۔ اس دھماکہ میں 500 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ حکیم صاحب اس بارود خانہ کا معائنہ کرنے گئے تھے۔ افواہ اڑائی گئی کہ حکیم صاحب نے اس میں آگ لگوا دی۔ اس کے نتیجے میں حکیم صاحب کا گھر لوٹا گیا اور جلایا گیا۔ حکیم ظل الرحمان نے اس واقعہ کی تہہ تک پہنچنے کے لیے معاصر شہادتوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ اس واقعہ کے ضمنمیں غالب نے دستنبو میں لکھا ہے؛
ایک شخص نے جس کے دماغ میں فرماں روائی و تکبر کے خیالات بھرے ہوئے تھے، درپردہ اپنے آقا اور مربی کا دشمن بن گیا۔ اس خیال سے کہ اگر وہ واقف کار اور رازداں زندہ رہے گا تو میں نے جو خزانہ (ناجائز طریقوں سے )جمع کیا ہے اس کا راز کھل جائے گا، ہمیشہ نقصان پہنچانے کی تدبیریں سوچتا تھا اور یہ بات مشہور کرکے کہ حکیم احسن اللہ خاں انگریزوں کے خیر خواہ اور طرفدار ہیں، فوج کے افسروں کو ان کی طرف سے بھڑکاتا رہتا تھا۔حکیم ظل الرحمان نے انگریزوں کے بعض مخبروں کی رپورٹیں بھی نقل کی ہیں۔ اس ضمن میں گوری شنکر کے خفیہ خط کی یہ عبارت من و عن درج کی ہے؛
7تاریخ کو بارود کی فیکٹری میں جو دھماکہ ہوا اس میں تقریباً ۵۰۰ افراد ہلاک ہوئے۔ یہ دھماکہ کسی حادثہ کی وجہ سے ہوا تھا، حکیم احسن اللہ خاں کا اس سے کوئی تعلق نہ تھا۔اس سلسلے میں جیون لال اور دیگر مخبروں کے بیانات بھی درج کیے گئے ہیں اوراگر حکیم احسن اللہ خاں صاحب کے انگریزی حکام کے ساتھ گہرے مراسم ہوتے یا وہ ان کی ایما پر کام کر رہے ہوتے تو بقول سید ظل الرحمان صاحب، اگر اس میں حکیم صاحب کا ذرا بھی ہاتھ ہوتا تو ان کی کارگزاری اور خیر خواہی کے طور پر ضرور اسے ان کی جانب منسوب کرتے۔ حکیم ظل الرحمان نے اس واقعہ سے متعلق دہلی اردو اخبار، صادق الاخبار اور غدر کے فرامین بھی نقل کیے ہیں جس سے حکیم صاحب کی بے گناہی پاےۂ ثبوت کو پہنچتی ہے۔ حکیم ظل الرحمان صاحب نے جیون لال کے حوالے سے لکھا ہے کہ حکیم صاحب کی اس معاملہ سے بے تعلقی ثابت ہونے کے بعد باغی خود اپنے اتہام پر شرمندہ ہوئے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ1857 کے مؤرخوں نے حکیم صاحب سے متعلق ان بین شہادتوں سے صرف نظر کیا۔حکیم ظل الرحمان کا اس امر پر متعجب ہونا بالکل بجاہے۔ حکیم صاحب رقم طراز ہیں؛
اب اس کو کیا کیا جائے کہ ان سب کے باوجود نہ صرف اسلم پرویز (سوانح نگار حکیم احسن اللہ خان)بلکہ مولانا آزاد اور اس موضوع پر لکھنے والے بعض دوسرے حضرات نے معاصر شہادتوں اور بعد کے دوسرے ثبوتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی تحقیق کے بغیر بہت آسانی سے حکیم صاحب کو اس سلسلے میں مہتم قرار دیا ہے اور ان کے خلاف بدگمانی کو بے اصل نہیں کہا ہے۔ممتاز ناقد اورفکشن نگار شمس الرحمان فاروقی نے اپنے مشہور ناول ’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ میں انگریز ریزیڈنٹ ولیم فریزر اور حکیم احسن اللہ خاں کی ملاقات اور حکیم صاحب کی صداقت شعاری اور عزت نفس کی پاسداری کا ایک کثیر حسی بیانیہ خلق کیا ہے۔ یہ عبارت سید ظل الرحمان صاحب نے نقل کی ہے۔ شمس الرحمان فاروقی کا بیانیہ مستند تاریخی حوالوں سے مرتب اور متشکل ہوتا ہے۔ اس کا ایک مختصر التباس قارئین کے لیے عین دلچسپی کا باعث ہوگا ؛
حکیم صاحب کے اس تیور سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ ان پر انگریزوں کے ساتھ ساز باز کرنے کا الزام بہتان تراشی کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔زیر مطالعہ کتاب میں سید ظل الرحمان صاحب نے نہ صرف حکیم احسن اللہ خاں کی داغدار سیاسی شبیہ کے جالوں کو صاف کرنے کی سعی مشکور کی ہے بلکہ حکیم صاحب کے علمی و ادبی اکتباسات، تصنیف و تالیف اور طبی حذاقت کو گہرے تنقیدی شعور اور تحقیقی بصیرت کے ساتھ واضح کیا ہے۔ یہ کتاب نہ صرف علمی تحقیق کے نئے امکانات ہویدا کرتی ہے بلکہ1857 کے واقعات کا ایک مستند رویا خلق کرتی ہے۔ مقدمات کی تدوین اور نتائج کے استنباط میں معروضیت کی پاسداری نے کتاب کی وقعت کو دوچند کردیا ہے۔ حکیم سید ظل الرحمان صاحب کی اس تصنیف کی پذیرائی اردو تنقید اور تحقیق کے ناخن پر قرض ہے۔ (تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔) The post ورق در ورق: حکیم احسن اللہ خاں کی داغدار سیاسی شبیہ کے جالوں کو صاف کرتی کتاب appeared first on The Wire - Urdu.ولیم فریزر نے حکیم صاحب کو نواب شمس الدین احمد تک ذاتی پیغام رسانی کے لیے استعمال کرنا چاہا (ولیم فریزر چھوٹی خانم پر عاشق تھے اور چاہتے تھے کہ نواب شمس اس کا خیال دل سے نکال دیں۔ ولیم فریزرکو بعد میں قتل کر دیا گیا اور نواب شمس الدین کو اس کا سزاوار ٹھہرایا گیا) ۔
آپ شمس الدین کو آگاہ کردیں کہ چھوٹی خانم کسی اور کی نظر پر چڑھ چکی ہے، بس وہ اس کا خیال چھوڑ دیں۔ آپ انہیں صاف صاف بتا دیں کہ یہ میرا پیغام ہے اور آپ کو بے واسطہ غیر مجھ سے ملا ہے۔ اس اعتماد کے لیے میں صاحب کلاں بہادر کا ممنون ہوں لیکن نہ تو میرا شمس الدین احمد پر کوئی داب یا اثر ہے اور نہ یہ میرا منصب ہے کہ میں ان کے پاس آپ کا پیغام لے جاؤں۔ کیوں، منصب کیوں نہیں؟فریزر نے سرکہ جبیں ہو کر کہا۔ ’’کیا آپ سرکار کمپنی کے وفادار نہیں ہیں؟
فریزر نے ذرا بلند آواز میں کہا ’’حکیم صاحب، ہم ہر چیز کی خبر رکھتے ہیں۔ دلی میں کیا ہے جو ہم پر آئینہ نہیں۔ ہم جس کام کے لیے آپ کو پسند کیا ہے اس کے لیے آپ موزوں ترین شخص ہیں‘‘۔ ’’بہتر ہے، میں مقدور بھر کوشش کروں گا، کوتاہی ہرگز نہ کروں گا۔خطا معاف، لیکن میں نہیں گمان کرتا کہ اس معاملے کا کوئی ربط وفاداری سرکار کمپنی سے ہے‘‘۔ حکیم صاحب نے تیوری پر بل لاکر جواب دیا، ’’اور بالفرض اگر ہو بھی تو میں نمک خوار بادشاہ کا ہوں، نمک خوار کمپنی نہیں‘‘۔
اپنا اپنا خیال ہے نواب ریزیڈنٹ بہادر‘‘، حکیم صاحب کا لہجہ اور بھی خشک ہو گیا۔’’ظل الٰہی اور ان کے اسلاف کو تخت دہلی پر حکمرانی کرتے ہوئے دوسو سے زیادہ برس ہو گئے۔ ہم نے آپ کو یہاں تاریخ کا درس دینے نہیں طلب کیا ہے حکیم صاحب۔ جی ہاں اور نہ نسخہ عرق گاوزباں کے لیے۔ اور یہی دو کام میں جانتا ہوں۔ مجھے رنج ہے کہ میں آپ کے لیے ناکارہ ثابت ہوا۔
’’اور تمہارا بادشاہ کمپنی بہادر کا نمک خوار ہے عمدۃ الملک حکیم احسن اللہ خاں۔