بتایا جاتا ہے کہ مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان کی بی جے پی سرکار کے خلاف وہ 200 سے زیادہ آر ٹی آئی کی درخواست لگا چکی تھیں۔اس وقت چل رہے انا ہزارے کے آندولن میں بھی ان کی بڑی دلچسپی تھی۔
آر ٹی آئی کارکن شہلا مسعود (38)کو بھوپال میں اپنے گھر کے عین سامنے قتل کر دیا گیا تھا۔ 16 اگست 2011 کو دن دہاڑے انہیں اس وقت گولی مار دی گئی، جب
وہ اپنی کار سے کہیں جانے والی تھیں۔ اس معاملے میں عدالت کا فیصلہ آ چکا ہے۔ شہلا مسعود کی دلچسپی ماحولیات میں تھی، لیکن بعد میں وہ ایک فعال آر ٹی آئی کارکن ہو گئیں اور مختلف معاملات میں حق معلومات کے تحت درخواست پر درخواست لگانے لگیں۔ اپنی بے وقت موت سے چند دن پہلے ہی انہوں نے ‘آر ٹی آئی اینانیمس’پورٹل بھی شروع کیا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ مدھیہ پردیش میں شیوراج سنگھ چوہان کی بی جے پی سرکار کے خلاف وہ 200 سے زیادہ آر ٹی آئی کی درخواست لگا چکی تھیں۔اس وقت چل رہے انا ہزارے کے آندولن میں بھی ان کی بڑی دلچسپی تھی۔اس معاملے پر صحافی ہیمندر شرما کی کتاب-شہلا مسعود – د مرڈر دیٹ شوک نیشن – ہارپر کالنس سے آنے والی ہے۔ انڈیا ٹوڈے ٹی وی سے وابستہ مصنف شرما نے اس کتاب میں”دربار”کے فرضی نام سے ایک سیاستداں کا ذکر کیا ہے۔ کمزور تفتیش اور (دربار کی مخالف پارٹی سے وابستہ) ایم پی کے ایک سابق وزیر اعلیٰ کی مدد سے دربار کو بچا لیا گیا۔
بی جے پی کے ایک ایم ایل اے، ایک ممبر آف پارلیامنٹ اور آر ایس ایس کے ایک عہدیدار کے بھی شہلا مرڈر کیس میں ملوث ہونے کی باتیں کی جاتی رہیں۔لیکن جنوری 2017 میں جب عدالت کا فیصلہ آیا تو دو غیر معروف عورتوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔اس کیس کی جانچ کر رہی سی بی آئی نے شہلا قتل کو “سہ رخی معاشقے” کا شاخسانہ بتاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بی جےپی کے ایک ایم ایل اے سے زاہدہ اور شہلا دونوں کے تعلقات تھے۔ اس میں حسد کے مارے زاہدہ نے کانپور کے پیشہ ور قاتلوں کے ذریعے شہلا کا قتل کرا دیا۔ سی بی آئی نے پہلے اس میں شہلا اور زاہدہ کے شوہر کے بیچ ناجائز تعلقات کی کہانی بنانے کی کوشش بھی کی۔
اس کے بعد انہیں اس میں دربار، زاہدہ اور شہلا کے بیچ ‘سہ رخی معاشقہ’ نظر آیا۔ ان سارے زاویوں کے بیچ بی جے پی کے ایم ایل اے کو کلین چٹ دے دی گئی۔ شرما نے لکھا ہے کہ دربار نے ایک سابق وزیر اعلیٰ کی مدد سے سب کچھ مینج کر لیا۔ پولیس افسران سے لے کر سیاستدانوں تک، جو بھی شہلا مرڈر کیس سے وابستہ رہے سب کو اس معاملے میں مذکورہ سیاستداں کے ملوث ہونے کا یقین تھا۔ کچھ لوگوں کا تو اندازہ ہے کہ دربار نے خود کو بچانے کے لیے 25 سے 30 کروڑ روپے کی بھاری بھرکم رقم بھی خرچ کی ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ شہلا قتل میں سزا پانے والی زاہدہ اور صبا دونوں میڈیا کے سامنے اس معاملے میں کسی سیاستداں کے ملوث ہونے کی بات کہتی تو رہیں، مگر عدالت میں یا مجسٹریٹ کے سامنے دفعہ 164 کے تحت بیان درج کرتے وقت انہوں نے یہ بات نہیں کہی۔
کتاب میں بہت سی باتیں واضح انداز میں کہی گئی ہیں، جو ہمارے معاشرے کا کریہہ چہرہ پیش کرتی ہیں۔ اس میں سزا یافتہ زاہدہ کی شہوانی نفسیات کے ساتھ مختلف تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ جیسے’دربار’سے ہمبستری کے معاملات لکھ لینا۔ اس وقت استعمال کئے جانے والے کنڈومس محفوظ کر لینا وغیرہ۔ یہی نہیں زیر ناف بال بھی اس نے ایک لفافے میں رکھ کر اس پر ‘ڈی ہیئر’ لکھ رکھا تھا۔سی بی آئی نے بھی دو بچوں کی ماں زاہدہ کی رنگین مزاجی بیان کرتے ہوئے ایک ڈائری کا ذکر کیا ہے، جس میں اس نے دربار کے ساتھ سیکس کے معاملات درج کیے ہیں۔ شہلا کے قتل سے دو سال قبل یعنی سنہ 2009 سے اس میں اندراج ملتے ہیں۔ ان میں سے کچھ شرما نے اپنی کتاب میں بھی درج کیے ہیں۔ نیچے انہیں کا ذکر ہے۔
16 مارچ کو اس نے لکھا؛
میں دربار سے ملی۔ یہ ملاقات ٹورازم ڈپارٹمنٹ میں کچھ کام کو لے کر تھی۔ وہ مجھ سے متاثر ہوئے۔ مشکل سے پانچ منٹ ہماری باتیں ہوئیں، وہ بھی اگر مگر کے ساتھ۔ مجھے لگتا ہے انہیں سچ مچ مجھ میں کچھ نظر آیا۔ لیکن میں نے ایسا کچھ محسوس نہیں کیا۔
دربار پہلی بار میرے آفس آئے۔ اور پہلی بار، ان سے ملاقات کے بعد میرے دل میں ان کے لیے احساسات جاگنے لگے۔ (3 مئی 2009) 13 مئی کا ایک ٹیکسٹ میسج؛’تم بہت گندی باتیں کرتے ہو دربار لیکن’آپ جیسے بھی ہیں’ یس میں تم سے پیار کرنے لگی ہوں۔
دربار مجھے ہر سو محسوس کرنے لگے ہیں۔ پرویز(شوہر)کے علاوہ پہلی بار میں نے کسی کے ساتھ انٹرکورس کیا۔(4 جون 2009)
20 جنوری 2010 کی تصویرکشی اس طرح کی گئی ہے؛
دربار نے مجھے جکڑ لیا۔ ہم نے سیکس کیا، لیکن حصوں میں۔ ہمیشہ کی طرح انہوں نے دوپہر میں مجھے فون کیا۔ ملنے کا پوچھا۔ میں نے کہا او کے۔ سات بجے وہ آفس آئے۔ میں بال کھولے اپنی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ انہوں نے مجھے اور میں نے انہیں دیکھا۔ ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے۔ فوراً ہی انہوں نے میرے ہونٹوں پر کس کیا۔ میں بہت روئی اور وہ مجھے مناتے رہے۔ پھر وہ سیکس کی طرف بڑھنے لگے۔ انہوں نے میرے کپڑے اتار دیے۔ ہم نے سیکس کیا پھر وہ چلے گئے۔
3 فروری 2010 کے اندراج میں شہلا کا ذکر “شہلا ایم” کی شکل میں ملتا ہے۔ زاہدہ کو اس کے اور دربار کے بیچ تعلقات کا شبہ ہے۔ آخر میں اس نے لکھا ہے؛’یہ بات مجھے مارے ڈال رہی ہے۔’آگے اس نے شہلا اور دربار کے بیچ بڑھتی قربت و اس کے تئیں اپنی نفرت کا ذکر کیا ہے۔
شہلا کے قتل کا معاملہ بھی اس ڈائری میں موجود ہے۔ 16 اگست 2011 کو اس نے لکھا ہے،
‘اسے اپنے گھر کے سامنے گولی مار دی گئی۔ میں صبح سے پریشان تھی، تبھی اچانک قریب سوا گیارہ بجے علی کا فون آیا۔ اس نے کہا “مبارک ہو صاحب ہم نے گھر کے سامنے وہ کام کر دیا۔” میں آفس میں تھی۔ رمضان کی وجہ سے جلدی آ گئی تھی۔ میں نے روہت کو اس کی کار دیکھنے بھیجا۔ اس نے توثیق کی کہ کار پارکنگ میں نہیں ہے۔ میں نماز پڑھنے گھر چلی آئی۔ میں بہت پرسکون تھی۔ میں مسجد گئی اور نماز ادا کی۔ میرے فون میں کئی مسڈ کالس تھیں… ساڑھے بارہ بجے سنجے نے بھی کال کیا تھا، پر میں فون اٹھا نہیں پائی۔ میں نے اسے فون لگایا، تو وہ بولا “یہ بہت غلط ہے۔ یہ نفرت کی انتہا ہے۔”
کتاب کے مصنف، سینئر صحافی ہیمندر شرما کے مطابق زاہدہ کی ڈائری میں صرف دربار، سیکس، ہیجان اور اخلاقی گراوٹ ہی نہیں ہے بلکہ اس سے “یہ واضح ہوتا ہے کہ زاہدہ دربار کے لیے کچھ بھی کر سکتی تھی۔ اس کی یادداشت بہت اچھی ہے۔ کئی واقعات اس نے بعد میں درج کیے ہیں۔” لیکن سی بی آئی اس میں سے کچھ بھی نکالنے میں ناکام رہی۔
عدالتی فیصلہ آنے کے ایک دن بعد شہلا کے اہل خانہ، رشتےداران، دوست اور دیگر کئی لوگ پولیس اور جانچ ایجنسی کی کارکردگی پر حیرت زدہ رہ گئے۔ ریٹائرڈ لائبریرین، شہلا کے والد ‘سلطان’ فیصلہ آنے کے بعد ٹوٹ سے گئے۔ افسوس و حیرت میں ڈوبے سلطان کہتے ہیں، ‘میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ شاید اصلی مجرم کبھی نہ پکڑے جائیں۔’ اس سے آگے وہ کچھ نہیں کہنا چاہتے۔