بامبے ہائی کورٹ نے دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر جی این سائی بابا سمیت پانچ کو بری کیا

01:07 PM Mar 06, 2024 | سکنیا شانتا

دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر جی این سائی بابا، جو جسمانی طور پر 90 فیصد سے زیادہ معذور ہیں اور وہیل چیئر پر رہتے ہیں، پر یو اے پی اے کے تحت الزام عائد کیے گئے تھے۔ 2014 میں گرفتار کیے گئے  سائی باباکےاب رہا ہونے کا امکان ہے۔

جی این سائی بابا، بامبے ہائی کورٹ کی ناگپور بنچ پس منظر میں۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

ممبئی: بامبے ہائی کورٹ کی ناگپور بنچ نے منگل (5 مارچ) کو دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر جی این سائی بابا اور پانچ دیگر کو ماؤنوازوں سے تعلق کے معاملے میں بری کر دیا۔

جسٹس ونے جی جوشی اور جسٹس والمیکی ایس مینیزس کی ڈویژن بنچ نے سائی بابا کے  ساتھ ساتھ صحافی پرشانت راہی، مہیش ترکی، ہیم کیشودت مشرا اور وجے این ترکی کو تمام الزامات سے بری کر دیا۔

اس کیس کا چھٹے ملزم پانڈو نروٹے، جنہیں 2017 کے اوائل میں قصوروار ٹھہرایا  گیاتھا، کی جیل میں علاج میں مبینہ تاخیر کی وجہ سے اگست 2022 میں موت ہوگئی  تھی۔

عدالت کا مفصل فیصلہ تاحال نہیں آیا ہے۔ فیصلے کی کاپی دستیاب ہونے پر خبر کو اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔

اس سے قبل عدالت نے گزشتہ سال ستمبر میں سماعت مکمل کرنے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ دو سالوں میں یہ دوسرا موقع ہے جب ناگپور بنچ نے سائی بابا اور دیگر کو بری کیا ہے۔

بتادیں کہ 14 اکتوبر 2022 کو جسٹس روہت بی دیو اور انل پنسارے کی اسی عدالت نے گڑھ چرولی سیشن کورٹ کے اس فیصلے کو پلٹ دیا تھا، جس میں ٹکری کے علاوہ (جنہیں 10 سال کی سخت قید کی سزا سنائی گئی تھی) باقی تمام کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

سال 2022 میں تمام پانچوں ملزمین کو بری کرتے ہوئے جسٹس دیو نے کہا تھا کہ ‘قومی سلامتی کے لیے مبینہ خطرے’ کے نام پر قانونی ضابطے کو طاق پر نہیں رکھا جا سکتا۔ اگر عرضی گزار کسی اور مقدمے میں ملزم نہیں ہے تو انہیں فوراً جیل سے رہا کیا جائے۔

سائی بابا اور دیگر کی طرف سے پیش ہونے والے دفاعی وکیلوں نے غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کی سخت دفعات کے تحت مقدمہ چلانے کے لیے جاری کردہ منظوری کے حکم کے جواز کو چیلنج کیا تھا۔ انہوں نے یو اے پی اے کی دفعہ 41(اے) پر بھروسہ کیا تھا جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ‘کوئی بھی عدالت مرکزی حکومت یا مرکزی حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں مجاز کسی افسر کے پیشگی منظوری کے بغیر کسی بھی جرم کا نوٹس نہیں لے گی۔’

سال 2022 میں ہائی کورٹ نے جائز منظوری کی عدم موجودگی کو ‘قانون کے نظریے سے خراب اور ناقابل قبول’ قرار دیا تھا۔

معاملے کے وکیلوں میں سے ایک، نہال سنگھ راٹھوڑ منگل کے فیصلے کو ‘جرٲت مندانہ’ قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ‘فیصلہ استغاثہ کو ہی ایکسپوز کرتا ہے۔ یہ فیصلہ 33 سالہ پانڈو نروٹے،ایک بے گناہ شخص، جس نے اس فیصلے کے انتظار میں جیل میں اپنی جان گنوا دی ، کو خراج تحسین ہے۔

پرشانت راہی کی بیٹی شکھا، جو ایک نوجوان فلمی پیشہ ور ہے اور گزشتہ ایک دہائی سے انصاف کے لیے لڑ رہی ہے، اس نے دی وائر کو بتایا، ‘میرے پاس اس وقت الفاظ نہیں ہیں۔ میں بس اب انہیں جیل سے باہر نکلتے دیکھنا چاہتی ہوں۔

معلوم ہو کہ پچھلی بار ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود ناگپور سینٹرل جیل کے حکام نے انہیں فوراً رہا کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اس دوران ریاستی حکومت حکم امتناعی کے لیے سپریم کورٹ پہنچ گئی تھی۔

کیا تھا معاملہ

مارچ 2017 میں مہاراشٹر کے گڑھ چرولی ضلع کی ایک سیشن عدالت نے مبینہ طور پر ماؤ نواز روابط اور ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے جیسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے لیے سائی بابا اور دیگر، جن میں  ایک صحافی اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے طالبعلم شامل تھے ،کو مجرم قرار دیا تھا۔

یہ معاملہ مہاراشٹر کے گڑھ چرولی ضلع کے اہیری پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا تھا۔ استغاثہ نے دعویٰ کیا تھا کہ سائی بابا ممنوعہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤسٹ) کی ایک مبینہ فرنٹ تنظیم ریولوشنری ڈیموکریٹک فرنٹ (آر ڈی ایف ) کے سکریٹری تھے۔ اڑیسہ اور آندھرا پردیش میں آر ڈی ایف پر پابندی ہے۔

سائی بابا کو اس معاملے میں کلیدی ملزم بنایا گیا تھا۔ حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ 2013 میں ان کے گھر سے ضبط کیے گئے الکٹرانک آلات میں کم از کم 247 صفحات ‘مجرمانہ’ پائے گئے تھے۔ پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ہیم مشرا کے پاس سے ضبط کیے گئے میموری کارڈ میں کچھ دستاویز تھے جن سے ممنوعہ دہشت گرد تنظیم کی سرگرمیوں میں سائی بابا کے ملوث ہونے کا پتہ چلتا ہے۔

ٹرائل کورٹ کی سزا 22 گواہوں کے بیانات پر مبنی تھی، جن میں سے صرف ایک آزاد گواہ تھا؛ باقی سب پولیس گواہ تھے۔

عدالت نے سائی بابا اور دیگر کو سخت یو اے پی اے اور تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی مختلف دفعات کے تحت مجرم قرار دیا تھا۔

سائی بابا، جو جسمانی طور پر 90 فیصد سے زیادہ معذور ہیں اور وہیل چیئر پر رہتے  ہیں، نے قید کے دوران کئی بار طبی غفلت کا الزام لگایا ہے۔ سائی بابا کو پچھلی ایک دہائی میں صحت کے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

ان کی بیوی وسنتا نے ان کی بگڑتی ہوئی صحت کی وجہ سے حکومتوں اور ہائی کورٹس سے ان کی رہائی کے لیے کئی اپیلیں کیں۔ ایک اپیل میں انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ اگر سائی بابا کو فوراً جیل سے رہا نہ کیا گیا تو ان کی موت ہو سکتی ہے۔

ہندوستانی جیلوں میں موت کا امکان غیر حقیقی نہیں ہے۔ نیشنل کرائم رپورٹس بیورو (این سی آر بی) کے مطابق، ہر سال تقریباً 2000 لوگ مناسب طبی علاج کی کمی کی وجہ سے جیل میں اپنی جان گنوا دیتے ہیں ۔ سال 2020 میں سائی بابا کے شریک ملزم پانڈو پورہ نروٹے کی جیل میں سوائن فلو سے موت ہو گئی تھی ۔ ان کے وکیل نے دعویٰ کیا تھا کہ بروقت طبی امداد فراہم نہیں کی گئی جس کی وجہ سے ان کی حالت بگڑتی  گئی۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )