فرقہ وارانہ بیان بازی اور اسٹارپرچارکوں کے باوجود تلنگانہ میں بی جے پی کی دال گلتی نظر نہیں آرہی

تلنگانہ کے انتخابات میں بی جے پی کے کوئی اثر پیدا کر پانے کا امکان کم ہے، لیکن یہ صاف ہے کہ پارٹی کا مقصد موجودہ انتخابی تشہیر کے سہارے ریاست میں اپنا مینڈیٹ بڑھانا ہے۔ The post فرقہ وارانہ بیان بازی اور اسٹارپرچارکوں کے باوجود تلنگانہ میں بی جے پی کی دال گلتی نظر نہیں آرہی appeared first on The Wire - Urdu.

خصوصی رپورٹ : تلنگانہ کے انتخابات میں بی جے پی کے کوئی اثر پیدا کر پانے کا امکان کم ہے، لیکن یہ صاف ہے کہ پارٹی کا مقصد موجودہ انتخابی تشہیر کے سہارے ریاست میں اپنا مینڈیٹ بڑھانا ہے۔

ایک انتخابی ریلی میں بی جے پی صدر امت شاہ (فوٹو : پی ٹی آئی)

ایک انتخابی ریلی میں بی جے پی صدر امت شاہ (فوٹو : پی ٹی آئی)

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کے صدر امت شاہ کے ذریعے دھواں دھار انتخابی تشہیر اور آنے والے دنوں میں اسٹارپرچارکوں کے مجوزہ انتخابی پروگراموں کے باوجود تلنگانہ اسمبلی انتخابات میں پارٹی کے قابل ذکر مظاہرےکی امید نظر نہیں آ رہی ہے۔بی جے پی کے فطری فرقہ وارانہ تیور کے ساتھ شاہ نے 25 نومبر کو انتخابی مہم کی شروعات کی۔ انتخابی مہم کی شروعات کرتے ہوئے یہاں بھی ان کا انداز انتخاب میں جا رہے دوسری ریاستوں والا ہی تھا۔

اتوار کی ریلی میں بی جے پی صدر نے کانگریس پر مبینہ طور پر ‘اربن نکسل ‘کو حمایت دینے کے لئے حملہ بولا۔انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ تلنگانہ راشٹریہ سمیتی (ٹی آر ایس)اویسی بھائیوں کے کنٹرول میں ہے۔یہ پینترا ملک کے دوسرے حصوں میں تو انتخابی فائدہ پہنچا سکتا ہے، لیکن تلنگانہ میں ایسی گنجائش نہیں ہے۔اس سے بھی اہم بات ہے کہ بی جے پی نے دو اہم سیاسی جماعتوں کانگریس اور ٹی آر ایس کے ذریعے چلائی گئی مہم سے الگ انتخابی مدعوں پر اپنی انتخابی تشہیر چلائی ہے۔

کانگریس ٹی آر ایس حکومت پر اس کے اہم وعدے-پانی، فنڈ اور روزگار دینے-کو پورا کرنے میں ناکام رہنے کا الزام لگا رہی ہے۔  اس کے جواب میں ٹی آر ایس نے اب آندھر پردیش کی حکمراں جماعت تیلگو دیشم کے ساتھ کانگریس کے اتحاد کا استعمال آندھر مخالف جذبات کو ابھارنے کے لئے شروع کر دیا ہے۔ایسی حالت میں، شاہ کی’اربن نکسل’کے خلاف بیان بازی اور مسلم کمیونٹی میں پسماندہ طبقوں کو ریزرویشن دینے کی باتیں زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔

یہ سب کو یاد ہوگا کہ اپریل،2017 میں تلنگانہ اسمبلی نے ریاست کے مسلمانوں کا ریزرویشن بڑھاکر 12فیصد کرنے کا بل بنا کسی ہنگامے اور تنازعے کے پاس کر دیا۔اس وقت بھی بی جے پی نے اس مدعے کا استعمال کرکے کمیونٹی کو بانٹنے کی کوشش کی، جس میں وہ ناکام رہی۔  اس کے تمام پانچ ایم ایل اے کو اس مدعے پر شور-شرابہ کرنے کے لئے اسمبلی کے اس سیشن سے سسپنڈ کر دیا گیا تھا۔

حاشیے پر چھوٹی بی جے پی

تاریخی طور پر متحد آندھر پردیش اور تلنگانہ کی نئی ریاست تلنگانہ میں بی جے پی کی محدود موجودگی رہی ہے۔  2014 کے انتخاب میں بی جے پی تلنگانہ کی 119 سیٹوں میں سے صرف 5 سیٹیں جیت پائی۔یہ ساری سیٹیں اس کو حیدر آباد میں ملی تھیں۔  اس بار بھی اس کی سیٹوں کی تعداد اسی کے آس پاس رہنے کی امید ہے۔

اہم مقابلہ ٹی آر ایس اور کانگریس کی قیادت والی پرجاکٹمی کے بیچ میں ہے۔  آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین(ایم آئی ایم)کا ٹی آر ایس کے ساتھ سمجھوتہ ہے۔  سہ رخی اسمبلی کی حالت میں پارٹی’ کنگ میکر‘ کا کردار نبھا سکتی ہے۔بی جے پی اپنے محدود اثر کا بھی استعمال کر پانے کی حالت میں نہیں ہے، کیونکہ یہ ٹی آر ایس یا کانگریس میں سے کسی کے ساتھ اتحاد نہیں کر سکتی ہے۔  ویسے یہ ضرور ہے کہ ٹی آر ایس-مخالف ووٹ کا بٹوارا پرجاکٹمی کے لئے پریشانی پیدا کر سکتا ہے۔

شروعات میں ٹی آر ایس کی آسان جیت کی پیشن گوئی کی جا رہی تھی، لیکن اس کے برعکس اب وہاں تجزیہ کاروں کے ذریعے حکمراں جماعت اور حزب مخالف اتحاد کے درمیان کانٹے کا ٹکر بتایا جا رہا ہے۔  اس لئے 11 دسمبر کو چھوٹے-چھوٹے فرق سے جیت-ہار ہو سکتی ہے۔اگر بی جے پی اپنے ووٹ فیصد کو 7.1 فیصدسے بڑھانے میں کامیاب رہتی ہے، تو یہ اتحاد کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

لیکن یہاں اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ پچھلے انتخاب میں بی جے پی کے ووٹ فیصد سے پارٹی کی موجودہ مقبولیت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے۔اس وقت پارٹی کا تیلگو دیشم پارٹی کے ساتھ اتحاد تھا، جس کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ اس کے ووٹ فیصد میں اضافہ ہوا ہو۔

اسٹارپرچارکوں کی فوج

لیکن اس کے باوجود پارٹی نے 7 دسمبر کے ریاستی انتخابات کو لےکر اپنے ہتھیار کھڑے نہیں کئے ہیں۔  پارٹی نے وزیر اعظم نریندر مودی سمیت کئی اسٹار پرچارکوں کو تلنگانہ کے انتخابی تشہیر میں اتارنے کی تیاری کر رکھی ہے۔  مودی اور شاہ کے علاوہ اس فہرست میں کئی مرکزی وزیر، وزیراعلیٰ اور فلمی دنیا کی ہستیاں شامل ہیں۔ایسا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ اپنی مہم میں بی جے پی ریاست کے انتخابی ڈسکورس کے حساب سے تبدیلی لائے‌گی جو کہ اہم طور پر فلاحی  اسکیموں کی عمل آوری پر مرکوز ہے۔

بی جے پی صدر امت شاہ کے ساتھ سوامی پریپورننند(فوٹو بشکریہ : ٹوئٹر)

بی جے پی صدر امت شاہ کے ساتھ سوامی پریپورننند(فوٹو بشکریہ : ٹوئٹر)

حال ہی میں بی جے پی میں شامل ہونے والے متنازعہ سوامی پریپورننند نے ایک کے بعد ایک کئی فرقہ وارانہ بیان دئے ہیں۔انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ کانگریس ریاست میں’عیسیٰ مسیح کی حکومت کو لانا چاہتی ہے ‘اور ٹی آر ایس نظام  سلطنت کی تعریف کر رہے ہیں۔  اس لئے اکثریت ہندو کو حفاظت کی ضرورت ہے۔

پرجاکٹمی نے کئی مواقع پر سب کو حیرانی میں ڈالتے ہوئے بی جے پی اور ٹی آر ایس کے درمیان’خفیہ سمجھوتہ’کا دعویٰ کیا ہے۔  ہو سکتا ہے کہ شروع میں کے چندرشیکھر راؤ کے دل میں انتخاب کے بعد بی جے پی کے ساتھ اتحاد کا خیال رہا ہو، لیکن انہوں نے اس پلان  سے توبہ کر لیا ہے۔وہ بی جے پی اور کانگریس دونوں کی ہی جم کر تنقید کر رہے ہیں۔  حال ہی میں وہ یہاں تک کہہ گئے کہ مودی کو ایک’بیماری’ہے جس سے ‘فرقہ وارانہ پاگل پن‘ ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ راؤ نے مرکز میں علاقائی جماعتوں والے ایک’وفاقی مورچے ‘کا خیال بھی دیا ہے۔ انہوں نے اس سال اپریل میں یہ آئیڈیا دیا اور اس کے بعد سے وہ کئی بار اس کو دوہرا چکے ہیں۔اس مورچے کے متعلق وہ کتنے سنجیدہ ہیں، یہ ابھی تک واضح نہیں ہے، لیکن کم سے کم فی الحال ٹی آر ایس کا بی جے پی کے ساتھ جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

دوسری طرف ٹی آر ایس کی ایم آئی ایم کے ساتھ قربت کو دیکھتے ہوئے بی جے پی بھی اس کے ساتھ گٹھ جوڑ نہیں کر سکتی۔  اگر وہ ٹی آر ایس کے ساتھ اتحاد کرتی ہے، تو اس کو اپنی کچھ مانگ چھوڑنی پڑ سکتی ہے، جن میں سے ایک یہ ہے کہ 17 ستمبر کو ‘تلنگانہ مکتی دیوس‘کے طور پر نہ منایا جائے۔اس کے ساتھ ہی اس کو مسلمانوں کے لئے ریزرویشن بڑھانے والے بل کی مخالفت کرنا بھی بند کرنا پڑے‌گا۔  ان میں سے کسی بھی مسئلے پر راؤ کے جھکنے کا امکان کم ہے۔لیکن بھلےہی بی جے پی کا تلنگانہ انتخاب پر کوئی اثر پڑنے کا امکان کم ہے، یہ صاف ہے کہ پارٹی کا مقصد اپنے موجودہ انتخابی تشہیر کے سہارے ریاست میں اپنا مینڈیٹ بڑھانا ہے۔

The post فرقہ وارانہ بیان بازی اور اسٹارپرچارکوں کے باوجود تلنگانہ میں بی جے پی کی دال گلتی نظر نہیں آرہی appeared first on The Wire - Urdu.

Next Article

ٹام آلٹر: اردو کا سچا عاشق

ٹام صاحب نے آسامی، بنگلہ، مراٹھی، ملیالم، ہندی، انگریزی، کنڑ اور اردو جیسی زبانوں میں سینکڑوں فلموں، ڈراموں اور ٹی وی سیریل میں کام کیا۔ لیکن اردو کے لیے ان کے دل میں ایک خاص جگہ تھی۔ وہ اردو بولنے، پڑھنے اور لکھنے میں بہت حساس تھے اور اردو کو اردو رسم الخط میں ہی پڑھنے  اور لکھنے کے  قائل تھے۔

ٹام آلٹر، فوٹو بہ شکریہ: وکی پیڈیا

مجھے سال اور مہینہ تو یاد نہیں، لیکن یہ اچھی طرح یاد ہے کہ مجھے پہلی بار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ٹام آلٹر کو سامنے سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا تھا۔ وہ جامعہ کے ڈاکٹر مختار احمد انصاری آڈیٹوریم میں مولانا آزاد کی سوانح عمری ‘انڈیا ونس فریڈم’ پر مبنی اور سعید عالم صاحب کی ہدایت کاری میں ایک سولو ڈرامے کے اسٹیج کے لیے تشریف لائے  تھے۔

ایسا نہیں ہے کہ میں اس سے پہلے ٹام آلٹر کے نام اور کارنامے سے واقف نہیں تھا۔ لیکن اس دن کے پرفارمنس نے مجھے ہمیشہ کے لیے ان کا گرویدہ بنا دیا۔ انصاری آڈیٹوریم میں زبردست بھیڑتھی، لوگ ایک دوسرے کے اوپر چڑھے جا رہے تھے۔ سینکڑوں کی گنجائش والے اس آڈیٹوریم میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔

اس کے باوجود جب ڈرامہ شروع ہوا تو لوگوں نے ڈرامے کو اتنے انہماک سے دیکھنا شروع کیا کہ یہ بھی بھول گئے کہ وہ کھڑے ہیں یا انہیں جگہ نہیں ملی۔ ڈرامے کے بعد ان سے ملنے کے لیے لوگوں کا  تانتا بندھ گیا۔

یہ سیلفی کا زمانہ نہیں تھا اور نہ ہرشخص کے پاس کیمرہ ہوا کرتا تھا، ورنہ اس دن خاصی بھگدڑ مچ جاتی، جسے ٹام صاحب بالکل پسند نہیں کرتے۔ البتہ اس دن کے بعد جب بھی انہوں نے دہلی میں پرفارم کیا، میں نے اس میں شرکت کرنے اور ان کے فن سے محظوظ ہونے کی کوشش کی۔

یہ ٹام صاحب کی بدقسمتی ہے (بلکہ  اسے اپنی بدنصیبی کہنا زیادہ مناسب ہوگا) کہ ہم میں سے اکثر لوگ انہیں صرف دو کرداروں کی وجہ سے جانتے یا یاد کرتے ہیں۔ پہلا، بالی وڈ فلموں میں ‘انگریز’ کا کردار اور دوسرا ڈراموں میں مولانا آزاد کا کردار۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ چالیس سال سے زائد کے کیرئیر میں انہوں نے بڑی خوبی کے ساتھ مختلف کردار نبھائے ۔ ہر کردارایک سے بڑھ کر ایک۔

صرف سعید عالم صاحب کے ساتھ ہی مولانا آزاد کے علاوہ انہوں نے آٹھ اورڈراموں میں کام کیا، جن کے سینکڑوں شوز منعقد ہوئے۔

سعید صاحب کے مطابق، ‘یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ٹام صاحب جیسے ملٹی ٹیلنٹڈ اداکار کوبھی اکثر انگریز یا گورا کے رول میں اسٹریوٹائپ/ٹائپ کاسٹ  کر دیا گیا۔’

اپنی موت سے تقریباً ایک ماہ قبل ٹام صاحب نے ایک انٹرویو میں  کہا تھا کہ ‘میں نے اب تک 400 سے زائد فلموں میں کام کیا ہے، جن میں سے صرف دس فلموں میں میں نےبرٹشر/انگریز کا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن 2017 میں بھی مجھے انگریز کہا جاتا ہے۔’

 انہوں نے آسامی، بنگلہ، مراٹھی، ملیالم، ہندی، انگریزی، کنڑ اور اردو جیسی زبانوں میں سینکڑوں فلموں، ڈراموں اور ٹی وی سیریل میں کام کیا۔ لیکن اردو کے لیے ان کے دل میں ایک خاص جگہ تھی۔ وہ اردو بولنے، پڑھنے اور لکھنے میں بہت حساس تھے اور اس میں وہ کسی قسم کے سمجھوتے کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہ اردو کو اردو رسم الخط میں ہی پڑھنے  اور لکھے جانے کے  قائل تھے۔

ایک بار انھیں جشنِ ریختہ میں ایک اردو کتاب کی ریلیز کے لیے مدعو کیا گیا، جس کے لیے انھوں نے بخوشی رضامندی ظاہر کی۔ لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ کتاب رومن رسم الخط میں ہے تو انہوں نے اس کے  اجرا سے انکار کردیا۔

سعید صاحب کے بقول، ‘جب انہیں معلوم ہوا کہ اردو کتاب رومن میں لکھی گئی ہے تو انہیں بہت غصہ آیا۔ اور جب ہم میں سے کچھ لوگوں نے انہیں منانے کی کوشش کی تو ٹام صاحب نے کہا کہ اگر یہ (رومن میں) ٹھیک  سے لکھا گیا ہوتا توبھی  میں اس پر دوبارہ غور کرتا۔’ وہ اکثر کہا کرتے تھے، ‘ایک  تو ہندی-اردو رومن میں نہیں لکھی جا سکتی، اور آپ لوگوں کورومن میں بھی ہندی-اردو لکھنا نہیں آتا۔’

 جب میں نے ستمبر 2020 میں ٹام آلٹر صاحب پر ایک اسٹوری  لکھنے کےدوران سعید صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے ایک دلچسپ قصہ سنایا۔ سعید صاحب نے مجھے بتایا کہ 2002 میں جب دونوں نے مولانا آزاد (ڈرامے) پر کام شروع کیا تو ٹام آلٹر صاحب کو دیا گیا اسکرپٹ دیو ناگری میں تھا۔

شروع میں تو وہ دیوناگری میں لکھے گئے اسکرپٹ کی ریہرسل کرتے رہے لیکن ہفتے بھر کے اندر ہی انہوں نے کہا کہ انہیں  اردو رسم الخط میں اسکرپٹ چاہیے۔’

مجھے اس وقت یہ نہیں معلوم تھا کہ ٹام صاحب اردو رسم الخط پڑھ سکتے ہیں، ہفتہ بھر میں انہیں چند اہم اردو کتابوں کے نام تجویز کرتا رہا جن کا انگریزی ترجمہ دستیاب تھا، ایسا کرتےہوئے میرے ذہن میں دو باتیں تھیں، پہلی، یہ ظاہر کرنا کہ میں ایک پڑھا لکھا آدمی ہوں جو اردو اور انگریزی دونوں پر عبور رکھتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ میں چاہتا تھا کہ انہیں  اردو ادب بھی پڑھنا چاہیے، ترجمہ ہی سہی۔’

سعید صاحب کا کہنا تھا، ’ یہ ٹام آلٹر صاحب کی عظمت تھی کہ انہوں نے ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ انہوں نے وہ تمام کتابیں پڑھ رکھی  ہیں اور وہ بھی اردو میں‘۔

سعید صاحب نے مجھے یہ بھی بتایا تھاکہ ٹام آلٹر صاحب کو انہوں نے دیوناگری میں اسکرپٹ اس لیے دی تھی کیونکہ اس سے پہلے دو تین اداکاروں (جو اردوداں سمجھے جاتے ہیں) کو اردو رسم الخط میں اسکرپٹ دے چکے تھے اور ان لوگون  نے کہا تھا کہ وہ اردو نہیں پڑھ سکتے!

اردو سے ان کے لگاؤ ​​اور محبت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی یادداشتیں اردو میں لکھیں اور اس کو ایک اردو رسالے میں چھپوایا۔ یہ بھی شاید اردو سے ان کی محبت کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا نام افشاں رکھا۔

فلموں، ڈراموں اور ٹی وی سیریل میں کام کرنے کے علاوہ انہوں نے کتابیں لکھنے کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں کے انٹرویو بھی کیے۔ انہیں کرکٹ میں خاص دلچسپی تھی اور انہوں نے جنوری 1989 میں سچن تنڈولکر کا انٹرویو کیا تھاجب سچن صرف 16 سال کے تھے۔

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 2000 میں اردو ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے خصوصی پروگرام ‘ادبی کاک ٹیل’ کے لیے انہوں نے اداکار جانی واکر، موسیقار نوشاد، اداکارہ ٹن ٹن، صحافی اور مصنف حسن کمال اور اداکار جگدیپ  جیسی شخصیات کے یادگار انٹرویو کیے، جن کے کچھ حصے یوٹیوب اور اسپاٹی فائی پر دستیاب ہیں۔

ان انٹرویوز کو سنتے اور دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف ایک منجھے ہوئے  فنکار تھے بلکہ ایک اچھے صحافی بھی تھے۔ انہیں سنتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے اردو ان کی مادری زبان ہو۔ اردو سے ان کا رشتہ فطری لگتا ہے جس میں کسی قسم کی مصنوعیت نہیں تھی۔ انہوں نے خود لکھا ہے کہ اردو سے ان کا رشتہ بہت پرانا تھا۔ وہ لکھتے ہیں؛


‘اردو سیکھنے کی کہانی کچھ یوں ہے کہ مجھے اپنے والدین سے جو چیز وراثت میں ملی ہے ان میں سے ایک اردو بھی ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ  میرے والد صاحب کی پیدائش سیالکوٹ کی ہے،اس زمانے میں  وہ ایک پادری تھے، ان کے والد بھی پادری تھے۔ پنجاب (غیر منقسم پنجاب) کے گرجا گھروں میں تقسیم سے پہلے عیسائیوں کی عبادت اردو میں ہوتی تھی، ہم نے اپنے بچپن میں لفظ بائبک کبھی سنا ہی نہیں، ہمیشہ انجیل مقدس ہی کانوں میں پڑا۔

پنجاب کے گرجا گھروں میں روزانہ صبح سات بجے سے پونے آٹھ بجے تک پینتالیس منٹ  کی عبادت اردو میں ہوتی تھی۔میرے والد صاحب اکثر بیمار رہتے تھے۔ وہ ذیابیطس کے مریض تھے، اس لیے ان کے پاس ایک چھوٹی سی میز تھی جس پر طرح طرح کی دوائیاں رکھی رہتی تھیں۔ان کو چوں کہ شوگر کی شکایت تھی جس کی وجہ سےانہیں ٹافی وغیرہ کھانی ہوتی تھی، اس لیے وہ میز پر ٹافی کا ایک  ڈبہ رکھتے تھے اور اسی ڈبے کے بغل میں بائبل یعنی انجیل مقدس بھی رکھی رہتی تھی ۔

اس وقت مجھے اردو پڑھنی نہیں آتی تھی، اس لیے میں ان سے پوچھتا تھا کہ یہ  کیا ہے؟ تو وہ بتاتے تھے ٹام یہ انجیل مقدس ہے۔اردو رسم الخط مجھے شروع سے ہی اچھا لگتاتھا اس لیے جب باقاعدہ اردوپڑھنی شروع کی تو کسی طرح کی پریشانی نہیں ہوئی۔’


وہ مزید لکھتے ہیں کہ؛

’ جب میں نے ایکٹنگ کی لائن میں آنے کا فیصلہ کیا اور مجھے پونے کے فلم انسٹی ٹیوٹ(ایف ٹی آئی آئی ) میں داخلہ مل گیا تب میں نے طے کیا کہ اب مجھے باقاعدہ اردو سیکھنی ہے۔ ‘

وہ ایک سچے اور پکے محب اردو تھےاور انہوں نے دامے درمے قدمے سخنے اردو کی خدمت کی۔ ہم ان کی زندگی اور کارنامےسے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، خاص طور پر وہ لوگ جو اپنے آپ کو اردو والا، اردو دوست، محب اردو، خادمِ اردو وغیرہ سمجھتے ہیں یاکہلوانا پسند کرتے ہیں۔

اگر ہم ٹام آلٹر صاحب کو کسی بھی طرح سے خراج تحسین پیش کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اردو تھیٹر کی ترقی اور فروغ کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ ان کے اپنے الفاظ میں کہیں تو؛

‘ہندوستان میں اچھے اردو تھیٹر کم ہیں اور اول  درجے کے اردوپلے تو بہت ہی کم کھیلے  جاتے ہیں، مگر ہندوستان کا اچھا اردو تھیٹر دنیا کے کسی بھی تھیٹر سے آنکھیں چار کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے…

چھوٹی جگہوں پر جو اردو تھیٹر  ہو رہا ہے، اس کا مجھے کچھ زیادہ علم نہیں  اور اپنے محدود تجربے کی بنیاد پر، میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ جب میں  اردوکا کوئی پلے کرتا ہوں  وہ  لوگ بھی جنہیں اردو نہیں آتی مجھ سے کہتے ہیں ہمیں آپ کا پلے سمجھ میں آتا ہے، جونہایت  اہم بات ہے، اردو اس ادبی زبان کے طور پر تیزی سے سکڑتی جا رہی ہے جو معاشرے میں اردو کے ادب کا ذوق بیدار کرکے اسے اعلیٰ اقدار سے روشناس کرائے، اس کے باوجود جب اچھا اردو تھیٹر ہوتا ہے، تو لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں، جن میں یقیناً اکثریت اردو ادب اور ثقافت سے دلچسپی رکھنے والے غیر مسلم ناظرین ہوتے ہیں ۔

(مہتاب عالم صحافی، مصنف اور محقق ہیں۔ انہیں ٹام آلٹر سےمتعلق ایک مضمون (مطبوعہ ؛دی وائر انگریزی)کے لیے ممبئی پریس کلب کی جانب سے ریڈ انک ایوارڈ فار ایکسیلنس ان جرنلزم سے نوازا  جا  چکا ہے۔)

Next Article

جلد شرم محسوس کریں گے انگریزی بولنے والے: کیوں خطرناک ہے امت شاہ کا یہ بیان؟

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا ہےکہ ہندوستان میں انگریزی بولنے والے لوگ جلد ہی شرم محسوس کریں گے۔ یہ بیان ثقافتی ہی نہیں بلکہ سیاسی بھی ہے – جو زبان، تعلیم، پہچان اور عالمی مسابقت سے متعلق سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ یہ خیال معاشرے میں تفرقہ پیدا کرتا ہے اور عدم مساوات کو وسیع کرتا ہے۔

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/امت شاہ)

نئی دہلی: مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے جمعرات (19 جون، 2025) کو کہا کہ ہندوستان میں انگریزی بولنے والے لوگ جلد ہی شرم محسوس کریں گے، اور ایسا معاشرہ بننے میں اب زیادہ دیر نہیں ہے۔

شاہ نے یہ تبصرہ سابق آئی اے ایس افسر آشوتوش اگنی ہوتری کی کتاب ‘میں بوند سویم، خود ساگر ہوں’ کی تقریب رونمائی کے دوران کیا۔ اس پروگرام میں کی گئی ان کی تقریر کا ویڈیو نیوز ایجنسی اے این آئی نے اپنے ایکس ہینڈل پر شیئر کیا تھا، لیکن بعد میں اسے ہٹا لیا گیا۔ یہی نہیں، اے این آئی نے اپنی ویب سائٹ سے امت شاہ کے تبصرے کی بنیاد پر شائع ہونے والی خبر کو بھی حذف کر دیا۔

تاہم، ہندوستانی سیاست میں اس طرح کی باتیں پہلے بھی سننے کو ملتی رہی ہیں، لیکن امت شاہ کا یہ بیان اس لیے زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں دوسرے اہم لیڈر مانے جاتے ہیں اور مرکزی حکومت کے وزیر داخلہ بھی ہیں۔ یعنی ان کے بیان کو محض ذاتی رائے کے طور پر نہیں دیکھا جا رہا ہے بلکہ حکمران جماعت کے پالیسی اشارے کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔

اس بیان کو ہندوتوا کے دیرینہ نظریہ – ‘ہندی، ہندو، ہندوستان’ کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ صرف ایک ثقافتی تبصرہ نہیں  رہ جاتا۔ اس کا اثر بہت گہرا اور وسیع ہے، جس میں قومی شناخت، سماجی ترقی، دانشوری اور ہندوستان کی بین الاقوامی امیج جیسے پہلوؤں کی جھلک ملتی ہے۔

جہاں شاہ کا بیان ایک طرف ملک میں انگریزی زبان کے بارے میں عام تاثر کو چیلنج کرتا ہے، وہیں اس سے یہ بحث بھی چھڑ جاتی ہے کہ کیا ہندوستان میں کسی زبان کا استعمال اب ثقافتی برتری بمقابلہ شرم کا معاملہ بن گیا ہے۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عالمی سطح پر ہندوستان کی کثیر لسانی شناخت کو ایک طاقت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے – لیکن اندر سے اس شناخت کو ‘ایک زبان، ایک ثقافت’ کے ڈھانچے میں ڈھالنے کی کوششیں بھی تیز ہوتی نظر آ رہی ہیں۔

امت شاہ کے بیان کے پانچ اہم پہلو یہ ہوسکتے ہیں؛

لسانی برتری اور تقسیم

ہندوستان کی اصل طاقت اس کے لسانی تنوع میں مضمر ہے۔ یہاں کوئی ایک قومی زبان نہیں ہے، لیکن آئین کے آٹھویں شیڈول میں 22 تسلیم شدہ زبانیں ہیں۔ ایسے میں انگریزی کو ‘غیر ملکی تسلط’ کہنے اور اسے ‘شرم’ سے جوڑنے کی سوچ لسانی برتری کو فروغ دیتی ہے۔

ہندوستان میں، انگریزی زبان اکثر ایک پل کا کام کرتی ہے – خاص طور پر اعلیٰ تعلیم، کاروبار اور بین ریاستی مواصلات میں۔ امت شاہ کے بیان کو ملک کے ان حصوں میں جہاں ہندی نہیں بولی جاتی ہے (خاص طور پر جنوبی ہندوستان، شمال مشرق اور مشرقی ہندوستان میں) ہندوتوا سیاست کی ہندی تھوپنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سے علاقائی عدم اطمینان اور تقسیم کے گہرا ہونے کا خطرہ ہے۔

نوآبادیاتی وراثت کے بہانے ہندوتوا کو فروغ دینے کی کوشش

امت شاہ کا بیان ہندی کو ہندوستانی شناخت کے مرکز میں قائم کرنے کی بی جے پی کی پرانی سیاسی حکمت عملی سے میل کھاتا ہے۔ انگریزی کو ‘نوآبادیاتی میراث’ اور ‘شرم’ کی علامت قرار دے کر، وہ قوم پرست جذبات سے فائدہ اٹھانے اور پارٹی کے حامیوں کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

ان کی یہ زبان اس خیال کو فروغ دیتی ہے کہ سچا محب وطن وہ ہے جو ہندوستانی زبانوں کو اپناتا ہے (بنیادی طور پر بی جے پی کی نظر میں ہندی)۔

یہ درست ہے کہ نوآبادیاتی ذہنیت سے نکلنے کی ضرورت ہے، لیکن انگریزی اب عالمی رابطے کی زبان بن چکی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر جڑنے کا یہ ایک اہم ذریعہ ہے۔ ایسے میں انگریزی کو ‘شرم’ کے ساتھ جوڑنا ایک حساس معاملے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنے کے مترادف ہے۔

یہ نقطہ نظر عوام کی توجہ حقیقی مسائل جیسے کہ عوامی تعلیم کے معیار سے ہٹا سکتا ہے۔

ہندوستان کی عالمی مسابقت کو خطرے میں ڈالنے والا خیال

انفارمیشن ٹکنالوجی (آئی ٹی) اور خدمات کے شعبے میں ہندوستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طاقت اس کے انگریزی بولنے والے نوجوانوں کے ذریعہ چل رہی ہے۔ یہ لسانی برتری ہندوستان کو چین جیسے ممالک سے الگ کرتا ہے اور اسے عالمی سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش بناتا ہے۔

لیکن جب امت شاہ جیسے سینئر لیڈر انگریزی کو شرم کا باعث قرار دیتے ہیں، تو اس سے پوری دنیا میں یہ پیغام جاتا ہے کہ ہندوستان ایک تنگ نظر، ماضی میں الجھا ہواملک بن  رہا ہے، جو اپنی طاقت کو کمزور کرنے پر تلا ہوا ہے۔

اس طرح کا رویہ نوجوانوں کو ان مہارتوں سے محروم کر سکتا ہے جو انہیں عالمی مسابقت میں برتری فراہم کرتی ہیں – ہندوستان کے معاشی مستقبل کو متاثر کرتی ہے۔

اگر شاہ کے بیان کو ہندوتوا حکومت کی پالیسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے، تو یہ ایک کھلے، جدید اور عالمی سطح پر جڑے ہوئے ملک کے طور پر ہندوستان کی شبیہ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

سماجی تحرک اور تعلیم پر اثرات

ہندوستان میں انگریزی کو اکثر بہتر تعلیم، ملازمتوں اور اعلیٰ سماجی حیثیت کے لیے ایک گیٹ وے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ امت شاہ کا انگریزی کو شرم کے ساتھ جوڑنے سے لاکھوں لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے جو عملی وجوہات کی بنا پر یہ زبان سیکھنا چاہتے ہیں۔

اس بیان کے تعلیمی پالیسی پر بھی اثرات پڑ سکتے ہیں – خاص طور پر زبان سے متعلق فیصلوں میں۔ اگر انگریزی کو تعلیم سے ہٹا دیا جاتا ہے، تو غیر مراعات یافتہ طلباء کے لیے عالمی مواقع تک رسائی مشکل ہو سکتی ہے۔

اس سے شہری اور دیہی تقسیم اور انگلش میڈیم بمقابلہ مقامی میڈیم اسکولوں کے درمیان فرق مزید بڑھ سکتا ہے، جس سے معاشرے میں عدم مساوات بڑھنے کا خطرہ ہے۔

دانشوری  کی مخالفت اور ثقافتی پسماندگی کا فروغ

انگریزی بولنے کو ‘شرم’ سے جوڑنا دانشوری کی شدید مخالف کی علامت ہے۔ امت شاہ کا بیان ان لوگوں کو حاشیے پر ڈالتا ہے، جو انگریزی میں بے ساختگی سے بات چیت کرسکتے ہیں – اور اکثر وہی لوگ ہوتے ہیں جو بہتر تعلیم یافتہ، عالمی سطح پر جڑے ہوئے اور ہندوستان کے نمائندہ چہرے ہیں۔

اس سے یہ پیغام جاتاہے کہ  کھلا، عالمی نقطہ نظر ہندوستانی نہیں ہے۔ اس طرح کی سوچ ہندوستان کو دنیا سے جوڑنے کے بجائے اندر کی طرف موڑ دیتی ہے، جو سماجی اور ثقافتی تنگ نظری کو  فروغ دیتاہے۔

Next Article

ایران پر اسرائیلی حملے اور ٹرمپ کی دھمکی سے بے نقاب ہوا عالمی سیاست کا حقیقی چہرہ

اسرائیل نے ایران پر یہ کہتے ہوئے حملہ کیا کہ یہ اس کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ ایک  ملک جس کے پاس ایٹم بم ہے، ایک پڑوسی ملک پر یہ کہہ کر حملہ کرتا ہے کہ وہ ایٹم بم بنانے کے قریب ہے۔

بائیں سے- آیت اللہ علی خامنہ ای، ڈونالڈ ٹرمپ اور بنجمن نیتن یاہو (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

پوری دنیا کے لوگ ایک ناقابل یقین منظر دیکھ رہے ہیں۔ یا اصل حقیقت اب بے نقاب ہو گئی ہے۔ یعنی دنیا میں ڈپلومیسی نام کی کوئی شےنہیں ہے۔ جو ہے وہ غنڈہ گردی یا مسلح قوت ہے۔ بین الاقوامی اصول، قوانین اور ضابطوں کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اگر کچھ طاقتور غنڈے، جنہیں قوم کے نام سے قابل فخر سمجھا جاتا ہے، ساتھ آ جائیں تووہ  کسی کو بھی گھیر کر مار ڈال سکتے ہیں۔

یہ بھی ایک ناقابل یقین منظر ہے کہ دنیا کے سب سے طاقتور مانے جانے والے ملک امریکہ کے سربراہ کو اسرائیل نے نکیل ڈال رکھی ہے اور اپنی مرضی سے اسے نچا رہا ہے۔ جیسا کہ بہت سے امریکی ماہرین ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ یہ اسرائیل ہے جو امریکہ کی بین الاقوامی پالیسی کا فیصلہ کرتا ہے، امریکہ نہیں۔

اسرائیل نے ایران پر اچانک حملہ کر دیا ہے۔ تزویراتی طور پر اہم اہداف پر حملہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے ایران کی فوج کے رہنماؤں کو نشانہ بنا کر ہلاک کیا ہے۔


اسرائیل نے فوج اور حکومت میں خامنہ ای کے تمام قریبی لوگوں کو نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا ہے۔ اب یہ دھمکی دے رہا ہے کہ وہ ایران کے لیڈر خامنہ ای کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ ایران میں بغاوت کی بات کر رہا ہے۔ نیتن یاہو ایران کے عوام سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ اپنی حکومت کو معزول کر دیں۔ اور خود کو اس کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ یعنی ایران میں جو تباہی برپا کر رہا ہے اس کے مطابق وہ ایران کی بھلائی کے لیے ہے۔


وہ یہ سوچ بھی پا رہا ہے کہ جو ایرانی عوام اس کی بمباری سے ہلاک اور تباہ ہو رہے ہیں وہ اسے اپنا نجات دہندہ سمجھ کر اس کو خوش آمدید بھی کہیں گے۔

امریکہ اب تک اپنے پٹھے اسرائیل کے ساتھ براہ راست میدان میں نظر نہیں آ رہا۔ نیتن یاہو پہلے دن سے ہی اپنے سرپرست سے کہہ رہاہے کہ اسے میدان میں اترنا ہی پڑے گا۔ امریکی صدر کو اکسانے کے لیے وہ کھلے عام کہہ رہاہے کہ ایران ٹرمپ کا قتل کر سکتا ہے۔ نیتن یاہو ٹی وی پر کہہ رہا ہے کہ ٹرمپ ایران کا پہلا ہدف ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ٹرمپ خود کو بچانا چاہتے ہیں تو وہ ایران پر اسرائیلی حملے میں شامل ہو جائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تنہا ایران کو شکست نہیں دے سکتا۔

اسرائیل یورپ اور امریکہ کو سمجھا رہا ہے کہ وہ دراصل انہیں بچانے کے لیے ایران پر حملہ کر رہا ہے۔ اور وہ سن رہے ہیں۔


اسرائیل میں امریکی سفیر ٹرمپ کو ایک بے ڈھنگا  خط بھیجتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ٹرمپ کو اسے خدا نے کچھ ایسے کام کو انجام دینے کے لیے بھیجا ہے جو کوئی دوسرا صدر نہیں کر سکتا۔ وہ کہتا ہے کہ 1945 کے ٹرومین کے بعد وہ دوسرا صدر ہے جسے خدا نے اپنا کام کرنے کے لیے چنا ہے۔ سب کو یاد ہے کہ ٹرومین نے 1945 میں کیا کیا تھا۔ اس نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا یا تھا۔ سفیر صدر کو ایران کے ساتھ ٹرومین جیسا کچھ کرنے پر اکسا رہا ہے۔ اور صدر اس خط کو پبلک بھی کر دیتا ہے۔


جب  اسرائیل بغیر کسی اشتعال کے ایران پر بمباری کر رہا ہو اور پورے علاقے میں تباہی کا منظر ہو، اس وقت ٹرمپ نے کہا تھا کہ ایران کے ساتھ بات چیت بہت اچھی چل رہی ہے۔ ایران کی طرف سے جو امریکہ سے بات چیت کر رہے تھے ، ان ایرانی اہلکار کو اسرائیل نے مار ڈالا اورامریکی صدرتالی بجا رہا ہے۔ کہہ رہا ہے؛ وہ مارا گیا۔

امریکہ ایک خودمختار قوم کو دھمکی دے رہا ہے کہ وہ اس کے سربراہ مملکت کو مار سکتا ہے لیکن ابھی ایسا نہیں کرے گا۔ ایران ہتھیار ڈال دے ورنہ…!

اسرائیل نے ایران پر یہ کہتے ہوئے حملہ کیا کہ یہ اس کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ ایک  ملک جس کے پاس ایٹم بم ہے، ایک پڑوسی ملک پر یہ کہہ کر حملہ کرتا ہے کہ وہ ایٹم بم بنانے کے قریب ہے۔

اور دنیا کے تمام ممالک جو اپنے آپ کو تہذیب کا محافظ کہتے ہیں، اسرائیل کی طرف سے ایران پر زبانی حملے شروع کر دیتے ہیں۔ فرانس، جرمنی، انگلینڈ سب چیخنے لگتے ہیں کہ ایران خطرہ ہے۔ جس کے پاس ایٹم بم ہے وہ خود کو غیر محفوظ کہہ کر اپنے پڑوسی پر حملہ کر رہا ہے۔ اگر ایٹم بم بھی کسی کو نہیں بچا سکتا تو اس کے ہونے کا کیا فائدہ؟

دنیا کی طاقتور ترین قومیں کینیڈا میں جمع ہوتی  ہیں۔ لیکن یہ جی7 جوکروں کے اڈے کی طرح لگتا ہے۔ یہ جوکر ہیں، لیکن خطرناک ہیں کیونکہ ان کے پاس پوری دنیا کی طاقت ہے۔

امریکہ کا  صدر یہ اڈے بازی درمیان میں چھوڑ کر اٹھ جاتا ہے یہ کہہ کر کہ وہ کچھ بہت بڑا کرنے کے لیے واشنگٹن لوٹ رہا ہے۔

سب قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ وہ بڑا کیا ہوگا! ‘ میرے ذہن میں کیا ہے، کوئی نہیں بتا سکتا ‘، وہ سب کو چڑاتا ہے۔


صحافی پوچھتے ہیں کہ صرف 3 ماہ قبل امریکی محکمہ انٹلی جنس کی سربراہ تلسی گبارڈ نے بیان دیا تھا کہ ایران کے پاس بم بنانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ پھر امریکہ اب اس بیان سے کیسے پیچھے ہٹ سکتا ہے؟ اور صدر یہ کہتا ہے کہ اسے  ذرا بھی پرواہ نہیں  کہ وہ کیا بولی تھی۔ ابھی اس کے ذہن میں جو آئے گا وہ کرے گا۔ امریکہ میں لوگ چیخ رہے ہیں کہ جنگ کا فیصلہ صرف کانگریس یا سینیٹ ہی کر سکتی ہے، لیکن صدر کے پاس ان اصول و ضوابط کے لیے وقت نہیں ہے۔


آپ کینیڈا میں اس منظر کو دوبارہ دیکھیے؛ فرانس، انگلینڈ، اٹلی، کینیڈا، جاپان، امریکہ اور یورپی یونین کے سربراہان کو دیکھیے۔ ان کے باہمی مسخرے پن کو دیکھیے۔ یہ سب اپنے کاروباری مفادات کے تحفظ کے لیے اکٹھا ہیں۔ اور وہ چاہتے ہیں کہ دنیا یقین کرے کہ وہ انسانیت کے لیے بھلائی کے طریقے سوچ رہے ہیں۔

مستقبل میں جب کوئی یہ تصویریں دیکھے گا تو کیا وہ اندازہ لگا سکے گا کہ یہ اس وقت کا منظر ہے جب ان ملکوں کا ایک پٹھوں دنیا کے ایک حصے میں تباہی مچا رہا تھا؟ جب غزہ میں روزانہ وہ پٹھوںسینکڑوں فلسطینیوں کو قتل کر رہا تھا؟

یہ 6 مغربی ممالک پوری دنیا کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ باقی ممالک ان کے دعوت نامے کا انتظار کرتے ہیں، ان کے ساتھ تصویر لینے کے لیے دھکا مکی کرتے ہیں۔ سب کوواپس اپنےملکوں میں اپنے ووٹروں کو تصویر دکھانی ہے!

دنیا میں قیادت کا فقدان ہے، ہم افسوس کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں شاید ٹرمپ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے ہمیں دکھایا کہ بین الاقوامی تعلقات جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ زمین کے وسائل کی اجتماعی لوٹ مار کے لیے طاقتوروں کے باہمی معاہدے کا دوسرا نام ہے۔ ایک طرح سے 20ویں صدی کا پہلا نصف ختم نہیں ہوا ہے۔ جس طرح یہ ممالک مشرق وسطیٰ کو آپس میں تقسیم کر رہے تھے، آج پھر کر رہے ہیں۔ استعماریت جاری ہے۔

اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔

Next Article

اسرائیل کا جوہری پروگرام: پردہ اٹھانے کی ضرورت

اگرچہ اسرائیل نے سخت رازداری قائم رکھی ہے، تاہم جوہری ماہرین کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ اسرائیل ایک جوہری طاقت ہے۔ مگر شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی صلاحیتیں، حکمت عملیاں اور خطرے کی حدود اب بھی اندھیرے میں چھپی ہیں۔یہ ابہام ایک طرف دشمنوں کو باز رکھنے کا ذریعہ ہے، تو دوسری طرف کھلے اعتراف سے بچنے کا طریقہ ہے۔

علامتی تصویر، بہ شکریہ ایکس: @TheFlagOfIsrae

پوکھرن میں جوہری تجربات کے چار ماہ بعد وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کو خطاب کرنے کے لیے ستمبر  1998کو نیو یارک آپہنچے تھے۔ منموہن سنگھ اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے برعکس ان کے کام کا طریقہ نہایت آسان، سست مگر چست ہوتا تھا۔ وہ صرف کام اور کام پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

بالعموم وہ شام کو کوئی اپائنٹمنٹ نہیں رکھتے تھے اور دن میں بھی لنچ کے بعد وہ وزیر اعظم ہاؤس کے احاطہ میں موجود رہائشی بنگلہ میں قیلولہ کرنے چلے جاتے تھے۔ اس لیے بیرون ملک ان کے سرکاری دورے تین دن کے بجائے پانچ دن کے رکھے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ میڈیا ٹیم کے مزے ہوتے تھے۔

ایک تو وہ خود بھی ملنا جلنا پسند کرتے تھے۔ پھر چونکہ ان کی تین یا چار سے زیادہ اپائنٹمنٹ نہیں ہوتی تھیں، اس لیے میڈیا ٹیم کو اس شہر کو دیکھنے اور خریداری کرنے کے بھر پور مواقع فراہم ہوتے تھے۔

یہ عیاشیاں سنگھ کے دور میں نہیں ہوسکتی تھی،کیونکہ ان کے کام کاج کا اسٹائل ہی اذیت بھرا ہوتا تھا۔ مودی نے ویسے تو میڈیا ٹیم کو ساتھ لینا ہی بندکردیا، مگر ان کا بھی ورک اسٹائل منموہن سنگھ جیسا خود گزیدہ ہے۔

خیر نیو یارک کے اس دورہ کے دوران ان کی اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات طے تھی۔ نیتن یاہو بھی پہلی بار 1996 میں وزیر اعظم کی کرسی پر فائز ہو گئے تھے۔ میڈیا ٹیم کو بتایا گیا کہ وزیر اعظم کی ملاقاتوں کے حوالے سے دوپہر کو بریفنگ ہوگی اور تب تک ہندوستانی سفارت خانے نے ان کے لیے شہر گردی کا پروگرام رکھا  ہواہے۔

ایک ہندی اخبار کے ایڈیٹر کا اپنا کوئی پروگرام تھا، اس لیے انہوں نے اس ٹیم میں شمولیت نہیں کی۔ اسی ہوٹل کے ایک سیوٹ میں نیتن یاہوکو وزیر اعظم واجپائی کا استقبال کرنا تھا۔ جب یہ ایڈیٹر باہر جانے کے لیے لابی میں آئے، تو واجپائی دروازے سے اندر آرہے تھے۔ چونکہ وہ خاصے یار باش شخص تھے اور ایڈیٹر صاحب کو ایک عرصے سے جانتے تھے انہوں نے ان کا حال چال پوچھا اور ہاتھ پکڑ کر سیوٹ میں اپنے ساتھ لے گئے، جہاں نیتن یاہو ان کا انتظار کر رہے تھے۔

 اسرائیلی وزیر اعظم نے واجپائی کا استقبال کرتے اور ان کو گلے لگاتے ہوئے کہا؛

مسٹر پرائم منسٹر، اب آپ نیوکلیر ہیں، ہم نیوکلیر ہیں، کیوں نہ ہم اس طرح (گلے لگتے ہوئے) پاکستان کو کرش کریں۔

ہندوستانی وزارت خارجہ کے افسران کے پسینے چھوٹ رہے تھے۔ اسرائیلی وزیر اعظم پہلی بار نیوکلیر ہونے کا اعلان ایک صحافی کے سامنے کر رہے تھے۔ واجپائی ابھی بھی ایڈیٹر صاحب کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے اور ان کو اپنے پاس ہی بٹھایا ہوا تھا۔

خیر سفارت خانے کے کسی افسر کی دماغ کی بتی جل گئی، انہوں نے ایڈیٹر صاحب سے کہا کہ باہر ریسیپشن پر آپ کا فون آیا ہے۔ ان کو باہر لےجاکر دروازہ بند کروادیا۔ ان کو تاکید کی گئی کہ جو کچھ انہوں نے دیکھا اور سنا، اس کی تشہیر نہیں ہونی چاہیے اور سرگوشیوں میں بھی کبھی یہ سننے میں نہیں آنا چاہیے، ورنہ ان کو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

ایڈیٹر صاحب اور میڈیا ٹیم میں جن افراد کو بھنک مل گئی تھی، نے بھی اس کی کسی کو ہوا لگنے دی نہ کبھی اس کو اخبارات کی زینت بنادیا۔

خیر جس طرح خاص طور پر مغربی دنیا  ابھی ایران اور شمالی کوریا اور ماضی میں پاکستان اور ہندوستان کے ایٹمی پروگرام پر نظریں جمائے ہوئے بیٹھی تھی، اب وقت آگیا ہے کہ ان کو اسرائیل کے مبہم اور غیر اعلانیہ ایٹمی ذخیرہ کا بھی نوٹس لینا چاہیے۔ کیونکہ جس طرح کے غیرذ مہ دار لیڈران اس وقت تل ابیب میں برسر اقتدار ہیں، وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

اسی ایٹمی ذخیرہ کی سیکورٹی اور اس کے غلط استعمال کو روکنا بین الاقوامی سفارت کاری کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

ویسکونسن پروجیکٹ آن نیوکلئیر آرمز کنٹرول کے مطابق اسرائیل کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ ان کے ذخیرے کا اندازہ 90 سے لے کر 400 وار ہیڈز تک لگایا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ اسرائیل نے ایک مکمل ایٹمی سہ جہتی نظام (ٹریایڈ) تیار کر لیا ہے: ایف-15 اور ایف-16 لڑاکا طیاروں سے بم گرانے کی صلاحیت، ڈولفن کلاس آبدوزوں سے کروز میزائل داغنے کی صلاحیت، اور بین البرِاعظمی مار کرنے والی ‘یریکو’ میزائل سیریزان کی اسلحہ انوینٹری میں شامل ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ اسرائیل نے اپنا پہلا قابلِ استعمال ایٹمی ہتھیار 1966 کے آخر یا 1967 کے اوائل میں تیار کر لیا تھا، جو اسے دنیا کی آٹھویں ایٹمی قوت بناتا ہے۔ اس کے باوجود اسرائیل نے ‘مبہم پالیسی’ اختیار کر رکھی ہے—نہ کبھی تصدیق نہ انکار کیا۔

اس مبہم پالیسی کو حالیہ دنوں میں ایران پر اسرائیل کے بڑے پیمانے پر فضائی حملوں کے بعد ایک بار پھر توجہ ملی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ نہ صرف تہران بلکہ پورے خطے کو اسرائیل کی روایتی اور ممکنہ ایٹمی صلاحیتوں کا پیغام تھے۔

جوہری امور کی ماہر سوزی سنائیڈر نے اس حوالے سے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا اسرائیل کے ایٹمی پروگرام پر بھی بات کرے، جو خطے کے لیے ایک خطرہ ہے۔عالمی شفافیت کے مطالبوں کے باوجود، اسرائیل نے آج تک ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) پر دستخط نہیں کیے۔

اس کا موقف ہے کہ علاقائی امن اور باہمی اسلحہ کنٹرول کے معاہدے اس سے پہلے ہونا چاہیے۔ یہی موقف اسے بین الاقوامی معائنے کے نظام سے باہر رکھتا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کی بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسی مسلسل مانیٹرنگ کرتی ہے، مگر اسرائیلی جوہری پروگرام تک اس کی رسائی ہے نہ ہی اس کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

حالیہ برسوں میں اسرائیلی حکام کے بیانات سے اس کی صلاحیتوں کو زیادہ واضح طور پر تسلیم کرنے کے اشارے ملے ہیں۔ 2023 میں اُس وقت کے وزیرامیحائی ایلیاہو،  نے غزہ پر ایٹم بم استعمال کرنے کی تجویز  دی تھی، جس پر انہیں وزیرِاعظم نیتن یاہو نے معطل کر دیا۔

اگرچہ اس بیان کی سرکاری طور پر تردید کی گئی، مگر اس نے اسرائیل کے ایٹمی ارادوں اور تیاریوں کے بارے میں شکوک و شبہات کو مزید تقویت دی۔

اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کی تاریخ  1948 میں اس کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی۔ فرانس کی مضبوط پشت پناہی اور خفیہ ذرائع سے ضروری مواد اور ٹکنالوجی حاصل کر کے، اسرائیل نے ‘دیمونا’ میں نیگیو نیوکلئیر ریسرچ سینٹر تعمیر کیا۔1986 میں ایک وسل بلور خائی وانونو کے انکشافات نے اس پروگرام کی پہلی جھلک دنیا کے سامنے رکھی، جس میں ایڈوانس ہتھیاروں کے ڈیزائن، بشمول تھرمو نیوکلئیر وار ہیڈز کی تصاویر شامل تھیں۔

وانونو کو بعد میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے روم سے اغوا کر کے اسرائیل لا کر غداری کے الزام میں سزا دلوادی۔نامور مؤرخ ایوینر کوہن کے مطابق، اسرائیل نے 1966 میں باضابطہ طور پر اپنی ایٹمی پالیسی تشکیل دی۔ اس کی نیوکلیر ڈاکٹرائن میں چار ریڈ لائنز متعین کی گئیں۔ان میں  اسرائیل کی 1967 سے پہلے کی سرحدوں میں فوجی مداخلت، اسرائیلی فضائیہ کی مکمل تباہی؛ اسرائیلی شہروں پر زہریلی گیس یا حیاتیاتی ہتھیاروں سے مہلک فضائی حملے؛ اور اسرائیلی سرزمین پر ایٹمی حملہ شامل ہیں۔

معروف صحافی سیمور ہرش نے اپنی کتاب ‘دی سیمسن آپشن’ میں دعویٰ کیا کہ اسرائیل  1973 کی یوم کپور جنگ کے دوران ایٹم بم کو استعمال کرنے کے قریب پہنچ گیا تھا۔ 8 اکتوبر کو، جنگ کے چند دن بعد، وزیرِاعظم گولڈا مئیر اور ان کے مشیروں نے مبینہ طور پر آٹھ جوہری ہتھیاروں سے لیس ایف-4 فینٹم طیاروں کو ‘تل نوف’ ائیر بیس پر ہمہ وقت الرٹ پر رکھاہوا تھا۔ اسی دوران ‘سدوت میخا’ بیس پر جوہری میزائل لانچرز بھی فعال کیے گئے تھے۔

ہرش کے مطابق، اسرائیل کے ابتدائی اہداف میں قاہرہ اور دمشق میں مصری اور شامی فوجی ہیڈکوارٹر شامل تھے۔ یہ الرٹ محض دفاعی نہیں تھا بلکہ سوویت یونین کے لیے پیغام تھا کہ وہ اپنے عرب اتحادیوں کو لگام دے، اور امریکہ پر دباؤ ڈالنا تھا تاکہ وہ اسرائیل کی بکھری ہوئی فوج کے لیے بھاری فوجی امداد فراہم کرے۔

بتایا جاتا ہے کہ ایک سوویت انٹلی جنس افسر نے مصر کے فوجی سربراہ کو اسرائیلی ایٹمی تیاریوں سے آگاہ کیا تھا۔ ادھر امریکی قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر کے قریبی افراد نے بعد میں تسلیم کیا کہ جوہری خطرے کے خدشے نے واشنگٹن کو فوجی امداد کے جلد آغاز پر مجبور کردیا۔

کسنجر کے سوانح نگار مارٹن انڈک کے مطابق اسرائیل کی ناقابل تسخیریت کے بھر م کو توڑنے کے لیے اس جنگ کے ابتدائی دنوں میں امریکہ نے مداخلت سے گریز کیا تھااو ر مصر کو پوری آزادی دی۔ اسرائیل کے دماغ میں دوبارہ بٹھایا گیا کہ اس کا وجود امریکہ کے مرہون منت ہے۔

ہرش کا مزید کہنا ہے کہ سیٹلائٹ نگرانی کی صلاحیت حاصل کرنے سے پہلے، اسرائیل نے سوویت اہداف کی معلوما ت امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کی جاسوسی کرکے حاصل کی تھی۔ 1991 کی خلیجی جنگ میں جب عراق نے اسرائیل پر اسکڈ میزائل داغے، اسرائیل نے مکمل ایٹمی الرٹ نافذ کردیا تھا۔ ممکنہ کیمیائی یا حیاتیاتی حملے کے خدشے کے تحت جوہری صلاحیت والے موبائل میزائل لانچرز تعینات کیے گئے۔ اگرچہ اسرائیل نے امریکی دباؤ کے تحت جوابی کارروائی سے گریز کیا، لیکن یہ لمحہ بھی ایک سنجیدہ جوہری غور و فکر کی مثال بن گیا۔

اسی طرح 2003  میں بھی امریکی صدر جارج بش کو اسرائیلی وزیرِاعظم ایرئیل شیرون نے خبردار کیا تھا کہ اگر اسرائیل کو بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا، تو اسرائیل ایٹمی اسلحہ کا استعمال کر سکتا ہے۔

فوجی تجزیہ کار اور منصوبہ ساز تسلیم کرتے ہیں کہ اگرچہ اسرائیل کی جوہری پالیسی کبھی باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کی گئی، لیکن یہ قومی سلامتی کے اصولوں کا بنیادی جزو بن چکی ہے۔

لوئس رینی بیرس، جو ‘پروجیکٹ ڈینیئل’ کے نمایاں رکن ہیں، نے اس پالیسی کو مزید مضبوط بنانے کی وکالت کی ہے۔ ان کے مطابق، اسرائیل کو اپنی حکمت عملی امریکی پنٹاگون کی ‘ڈاکٹرائن فار جوائنٹ نیوکلئیر آپریشنز ‘کے مطابق رکھنی چاہیے، جو پیشگی حملے پر زور دیتی ہے۔اسرائیل کی جوہری صلاحیتوں کے بارے میں دانستہ ابہام اب بھی ایک مؤثر سفارتی ڈھال کا کام دے رہا ہے۔

مگر مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورتِ حال میں، جہاں غیر روایتی خطرات اور ہائبرڈ جنگوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے، ماہرین کا خیال ہے کہ پرانی ‘ریڈ لائنز”بھی بدل سکتی ہیں۔ ان کے ساتھ ایٹمی استعمال کے خطرہ بھی حقیقت بن چکا ہے۔

اسرائیل کے رہنماؤں نے متواتر ایٹمی ہتھیاروں کو قومی بقا کا آخری سہارا قرار دیا ہے، اور اکثر ہولوکاسٹ کے ساتھ اس کو نتھی کیا جاتا ہے۔  ‘سیمسن آپشن’یعنی بڑے خطرے کی صورت میں زبردست جوابی کارروائی اسی سوچ کی نمائندگی کرتا ہے۔

اسی طرح 1980 کی دہائی میں بنائی گئی ‘بیگن ڈاکٹرائن’کے تحت اسرائیل کسی بھی دشمن ریاست کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اسی اصول کے تحت عراق کا ‘اوسیرک’ ری ایکٹر 1981 میں، شام کی ممکنہ جوہری تنصیب 2007 میں، اور ایران کے ‘نطنز’ پلانٹ پر ‘سٹکس نیٹ’ سائبر حملہ 2010 میں کیا گیا۔ اب حال میں ایران پر حملوں کا جواز بھی یہی ڈاکٹرائن فراہم کرتی ہے۔

اسرائیل مسلسل اپنے جوہری پروگرام کو بین الاقوامی جانچ سے بچاتا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی قراردادوں میں، عرب ممالک اور دیگر غیر وابستہ ریاستیں مسلسل اسرائیل پر زور دیتی رہی ہیں کہ وہ این پی ٹی  یعنی جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں شامل ہو کر اپنے جوہری اثاثے عالمی معائنے کے لیے کھول دے۔ مگر اسرائیل امریکہ کی پشت پناہی کے باعث ڈٹا ہوا ہے۔امریکہ کے ساتھ ایک غیر اعلانیہ مفاہمت کے تحت،  اسرائیل جوہری ہتھیا کا تجرنہ کرتا ہے، نہ اس کا اعلان کرتا ہے۔

اس کے باوجود اسرائیل کے ایٹمی ‘ڈیلیوری سسٹمز’  ایک خطرناک سہ جہتی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ماہرین کے مطابق، یریکو-III میزائل بیک وقت کئی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور بین البرِاعظمی مار کر سکتے ہیں۔

اسرائیلی فضائیہ کے ترمیم شدہ ایف-15I اور ایف-16I طیارے دور دراز اہداف پر حملہ کر سکتے ہیں، جیسا کہ عراق، شام اور اب ایران میں میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جرمن ساختہ ڈولفن کلاس آبدوزیں جوہری صلاحیت والے کروز میزائل سے لیس ہیں، جو ‘سیکنڈ اسٹرائیک’ کی صلاحیت فراہم کرتی ہیں۔ جہاں واشنگٹن ایران پر تو سختی کرتا ہے مگر اسرائیل کی طرف آنکھیں بند رکھتا ہے۔

اب یہ دوہرا معیار نہیں تو کیا ہے۔ 2009 میں سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے اندازہ لگایا تھا کہ اسرائیل کے پاس 300 سے زائد وار ہیڈز ہو سکتے ہیں۔ ‘بلٹن آف اٹامک سائنٹسٹس’کے حالیہ جائزے میں اس تعداد کو تقریباً 80 بتایا گیا ہے، مگر مزید ہتھیار بنانے کی مکمل صلاحیت موجود ہے۔

اسرائیلی پروگرام کو ابتدائی طور پر غیر ملکی مدد سے فروغ ملا۔ فرانس نے دیمونا ری ایکٹر کی تعمیر اور ری پروسیسنگ ٹیکنالوجی فراہم کی۔ برطانیہ اور ناروے نے خفیہ یا بالواسطہ طریقوں سے بھاری پانی اور یورینیم مہیا کیا۔ جنوبی افریقہ سے بھی 1970 کی دہائی میں جوہری تعاون کے شواہد موجود ہیں۔

اگرچہ اسرائیل نے سخت رازداری قائم رکھی ہے، تاہم جوہری ماہرین کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ اسرائیل ایک جوہری طاقت ہے۔ مگر شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی صلاحیتیں، حکمت عملیاں اور خطرے کی حدود اب بھی اندھیرے میں چھپی ہیں۔یہ ابہام ایک طرف دشمنوں کو باز رکھنے کا ذریعہ ہے، تو دوسری طرف کھلے اعتراف سے بچنے کا طریقہ ہے۔

لیکن ناقدین کے مطابق، یہ خطے میں اسلحہ کنٹرول کی کوششوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور خاص طور  پڑوسی ممالک میں عدم تحفظ کو فروغ دیتا ہے۔ جہاں ایران کا 60 فیصد یورینیم افزودہ کرنا پابندیوں اور دھمکیوں کا سبب بنتا ہے، وہاں اسرائیل کے درجنوں یا سینکڑوں جوہری ہتھیار سفارتی سطح پر سوال سے بھی بچے رہتے ہیں۔

لیکن جیسے جیسے مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ رہی ہے اور سیاسی بیانیے میں ایٹمی خطرات دوبارہ ابھر رہے ہیں، اسرائیل کے ایٹمی پروگرام پر دہائیوں سے چھایا ہوا سکوت اب برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی ہوئی تزویراتی زمین، ایران کے ساتھ  کشیدگی کا عروج، اور عالمی سطح پر جوہری خطرات کے دوبارہ سر اٹھانے کے بعد، یہ تقاضا شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ جوہری مساوات میں دوہرا معیار ختم ہونا چاہیے۔

اگر ایران، شمالی کوریا  یاکسی اور ملک کی ایٹمی سرگرمی پر دنیا کی نظریں فوری طور پر مرکوز ہو جاتی ہیں، تو اسرائیل جیسے غیر اعلانیہ جوہری طاقت کو مسلسل استثنیٰ دینا نہ صرف علاقائی استحکام کے لیے خطرہ ہے بلکہ عالمی اصولوں کی ساکھ کے لیے بھی ایک تازیانہ ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل کی جوہری حقیقتوں پر سے بھی وہ پردہ ہٹایا جائے جس نے ایک خاموش مگر مہلک خطرے کو برسوں سے عالمی نظروں سے چھپائے رکھا ہے۔

Next Article

ہندوستان بھول گیا ایران کا احسان؟

سفارتی احسان فراموشی کی اس سے بدتر مثال کیا ہوسکتی ہے، جب ایران نے نازک وقت میں ہندوستان کو عالمی رسوائی سے بچایا اور بدلے میں نئی دہلی نے اس کو بے یار و مدد گار چھوڑ کر مغربی طاقتوں اور اسرائیل کا دامن پکڑا۔

علامتی تصویر، فوٹو: وکی پیڈیا

حال ہی میں ہندوستان نے ایک بار پھر شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) میں ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی مذمت پر مبنی قرارداد سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ اس سے قبل بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے ) میں بھی ہندوستان نے ایران کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

یہ پالیسی دہلی کے واشنگٹن اور تل ابیب کے ساتھ گہرے ہوتے اسٹریٹجک تعلقات کی عکاس ضرور ہے، لیکن دہلی شاید وہ سفارتی باب فراموش کر چکی ہے، جس میں ایران نے خاموشی سے ہندوستان کو اقوامِ متحدہ کی سخت پابندیوں اور عالمی ذلت سے بچایا تھا۔ اور جب ایران خود عالمی دباؤ اور تنہائی کا شکار ہوا، تو دہلی نے یا تو خاموشی اختیار کی یا اکثر مغربی طاقتوں کے شانہ بشانہ کھڑا دکھائی دیا۔

سال 1994:ایک خفیہ سفارتی محاذ

مارچ 1994 میں اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن (جسے اب انسانی حقوق کونسل کہا جاتا ہے) میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) ایک قرارداد پیش کرنے جا رہی تھی، جس میں کشمیر میں مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہندوستان کی مذمت کی جانی تھی۔ اس قرارداد کی منظوری کی صورت میں، اسے سلامتی کونسل میں لے جانے کا منصوبہ تھا، جہاں امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک ہندوستان پر اقتصادی پابندیاں لگانے کے لیے منتظر تھے۔

برخلاف مسئلہ فلسطین، مغربی ممالک کشمیر پر نسبتاً نرم رویہ رکھتے تھے، کیونکہ ہندوستان اب تک سویت یونین کی سوشلسٹ لابی کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب سوویت یونین بکھر چکا تھا، اور اس کا جانشین روس مغرب سے معاشی امداد کی آس میں تھا۔ ایسے میں ہندوستان کے لیے سلامتی کونسل میں کسی قرارداد کو ویٹو کروانا تقریباً ناممکن ہو چکا تھا۔

جنیوا میں قرارداد پر غور و خوض جاری تھا، اور دہلی میں وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ کو اس کے ممکنہ نتائج کا بخوبی ادراک تھا۔ انہوں نے ایک خفیہ، مگر فیصلہ کن سفارتی چال چلنے کا فیصلہ کیا۔

اسپتال سے تہران تک — دنیش سنگھ کا مشن

ان دنوں ہندوستانی وزیرِ خارجہ دنیش سنگھ شدید علیل تھے اور دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) میں انتہائی نگہداشت میں زیرِ علاج تھے۔ جنیوا اجلاس سے چند روز قبل، رات کے وقت وزیراعظم راؤ اسپتال پہنچے۔ بظاہر وہ وزیرِ خارجہ کی خیریت دریافت کرنے آئے تھے، مگر اصل میں ایک خفیہ مشن کا آغاز ہو رہا تھا۔

اگلے ہی روز دنیش سنگھ ایک ہندوستانی فضائیہ کے طیارے میں سوار ہو کر تہران روانہ ہوئے۔ ان کے ہمراہ ایک ڈاکٹر اور تین معاونین تھے۔ ان کے پاس وزیراعظم راؤ کا ایرانی صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کے لیے ایک ذاتی اور خفیہ خط تھا۔

اسی دوران اعلان کیا گیا کہ جنیوا میں ہندوستانی وفد کی قیادت اپوزیشن لیڈر اٹل بہاری واجپائی کریں گے، جن کے ساتھ وزیرِ مملکت برائے خارجہ سلمان خورشید اور سابق وزیراعلیٰ جموں و کشمیر ڈاکٹر فاروق عبداللہ بھی ہوں گے۔ یہ اعلان اصل مشن سے توجہ ہٹانے کی چال تھی۔

مارچ کی ایک سرد صبح، جب ہندوستانی طیارہ تہران ایئرپورٹ پر اترا، تو دنیش سنگھ وہیل چیئر پر تھے۔ ایرانی وزیرِ خارجہ ڈاکٹر علی اکبر ولایتی پروٹوکول توڑ کر ان کا استقبال کرنے خود ایئرپورٹ پہنچے۔ انہوں نے حیرانی سے پوچھا؛

‘ایسی کیا افتاد آ گئی ہے کہ آپ اس حال میں تہران آئے ہیں؟’

سنگھ نے مسکرا کر وزیراعظم کا خط ان کے حوالے کر دیا۔

اسی روز دنیش سنگھ نے ایرانی صدر، وزیرِ خارجہ اور اسپیکر ناطق نوری سے ملاقاتیں کیں، اور کشمیر پر ہندوستانی موقف پیش کیا۔ صدر رفسنجانی نے نہ صرف ان کی بات غور سے سنی، بلکہ وزیراعظم راؤ کے لیے یہ پیغام بھی دیا کہ ایران ہندوستان کو ہر ممکن سفارتی تحفظ فراہم کرے گا۔

جنیوا میں ایران کا یوٹرن

تین دن بعد جنیوا میں جب پاکستانی وفد نے قرارداد کو آگے بڑھانے کی کوشش کی، تو ایران کے نمائندے نے — تہران کی براہِ راست ہدایت پر — اس کی حمایت سے انکار کر دیا۔ ایران نے موقف اختیار کیا کہ وہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کا دوست ہے، اور یہ مسئلہ نوآبادیاتی طاقتوں کی مداخلت کے بغیر حل ہونا چاہیے۔

یوں یہ قرارداد وہیں دم توڑ گئی، اور اقوامِ متحدہ میں کشمیر پر پاکستان کی سب سے سنجیدہ سفارتی کوشش ناکام ہو گئی۔

تہران مشن سے ایک ہفتہ قبل نئی دہلی میں ایرانی سفیر علی شیخ رضا عطار نے کشمیری حریت رہنماؤں سید علی گیلانی اور عبدالغنی لون کے اعزاز میں عشائیہ دیا تھا۔ دو دن بعد وہ دوبارہ گیلانی صاحب سے ملاقات کے لیے آئے اور یقین دہانی کروائی کہ کشمیر ایرانی خارجہ پالیسی کا مستقل جز ہے۔

مگر جیسے ہی جنیوا میں ایرانی موقف بدلا، دہلی میں پاکستانی سفیر ریاض کھوکھر اور حریت رہنما گم سم رہ گئے۔ سفیر عطار بھی حیرت زدہ تھے، لیکن اتنا ضرور کہہ رہے تھے؛

‘ہندوستان نے ایک بڑی پیشکش کی ہے، جسے رد کرنا ایران کے لیے ممکن نہیں۔’

اسی کے بعد ایران-پاکستان-ہندوستان گیس پائپ لائن کا منصوبہ سامنے آیا، جسے ‘امن کی پائپ لائن’ کہا گیا۔ چند ماہ بعد وزیراعظم راؤ نے برکینا فاسو میں غیر وابستہ تحریک(این اے ایم) کی سربراہی کانفرنس میں کہا کہ کشمیر پر ‘آزادی سے کم کسی آپشن پر بات ہو سکتی ہے’۔ ان کا جملہ؛

“Sky is the limit for Kashmir”

خاصا مشہور ہوا — مگر جیسے ہی عالمی دباؤ ختم ہوا، نہ پائپ لائن رہی، نہ کشمیری آپشن۔

وہ احسان جو یاد نہ رکھا گیا

جنیوا میں ایرانی موقف کی تبدیلی کا کریڈٹ واجپائی اور فاروق عبداللہ لیتے رہے، جبکہ اصل کارنامہ دنیش سنگھ کا تھا، جو تہران مشن کے بعد کچھ ہی عرصے میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کا یہ سفارتی مشن دہلی کے سفارتی حلقوں میں کئی دہائیوں بعد بھی ایک ‘ٹاپ سیکرٹ آپریشن’ کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے ایران کی اس احسان مندی کا ہندوستان نے کبھی باضابطہ اعتراف نہیں کیا۔ جب ایران پر جوہری پروگرام کے باعث مغربی پابندیاں لگیں، یا جب امریکہ نے اس کی تیل برآمدات پر دباؤ ڈالا، تو ہندوستان  نے نہ صرف ایرانی تیل کی درآمدات کم کر دیں، بلکہ تل ابیب اور واشنگٹن سے تعلقات مزید گہرے کیے۔

وہ برف پوش تہران، جس نے ہندوستان کو عالمی رسوائی سے بچایا، آج سفارتی تاریخ کے اوراق میں کہیں گم ہو چکا ہے — مگر تہران شاید آج بھی وہ لمحہ یاد رکھے۔

اس خطے میں، جہاں یادداشت، وعدے اور احسان کی اپنی سیاست ہے، ایران کا یہ ‘احسانِ خاموش’ جنوبی ایشیا کے ان کہے سفارتی قصوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا — اور ہندوستان کی طرف سے ملی بےحسی بھی۔