شمال–مشرقی دہلی میں ایک ہندو نوجوان کی ہلاکت پر احتجاج کرنے کے لیے وشو ہندو پریشد اور دیگر کی طرف سے منعقد ایک پروگرام میں ایک خاص کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی گئیں، جہاں مقررین نے خون ریزی کی اپیل کی۔ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس نے منتظمین کے خلاف بغیر اجازت پروگرام کرنےکا معاملہ درج کیا ہے۔
مغربی دہلی کے بی جے پی ایم پی پرویش ورما۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک)
نئی دہلی: نئی دہلی سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن پارلیامنٹ پرویش ورما نے مبینہ طور پر شمال–مشرقی دہلی میں ایک ہندو نوجوان کی ہلاکت کے خلاف منعقد ایک تقریب میں ایک خاص کمیونٹی کے مکمل بائیکاٹ کی اپیل کی۔
منیش (19) کو 1 اکتوبر کو شمال–مشرقی دہلی کے سندر نگری علاقے میں مبینہ طور پر چاقو مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ پولیس نے معاملے میں تمام ملزمین–عالم، بلال اور فیضان کو گرفتار کر لیا ہے۔
پولیس نے بتایا کہ ملزمین نے پرانی رنجش کی وجہ سے منیش کو قتل کیا۔ نوجوان کے قتل کے خلاف اتوار کو منعقد ہونے والے اس پروگرام کے مبینہ ویڈیو میں ورما کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ جہاں بھی وہ آپ کو دکھائی دیں تو ان کا دماغ کو ٹھیک کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے – مکمل بائیکاٹ۔
اس پروگرام میں مکمل بائیکاٹ کی اپیل کرتے ہوئے ایم پی ورما نے لوگوں سے کہا، ‘جہاں جہاں یہ آپ کو دکھائی دیں… میں کہتا ہوں کہ اگر ان کا دماغ ٹھیک کرنا ہے، ان کی طبعیت ٹھیک کرنی ہے تو ایک ہی علاج ہے، وہ ہے۔ مکمل بائیکاٹ ۔
اس کے بعد انہوں نے وہاں موجود لوگوں سے پوچھا کہ، آپ اس بات (مکمل بائیکاٹ) سے اتفاق کرتے ہو؟
مبینہ ویڈیو میں انہوں نے لوگوں سے کہا کہ ہاتھ اٹھا کر بتائیں کہ وہ اس سے متفق ہیں یا نہیں۔
ساتھ ہی، لوگوں سے کہا کہ وہ ان کے ساتھ یہ بات دہرائیں کہ ‘ہم ان کا مکمل بائیکاٹ کریں گے۔ ہم ان کی دکان ریہڑیوں سے کوئی سامان نہیں خریدیں گے۔ ہم انہیں کوئی مزدوری نہیں دیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘آپ یہ ایک کام کرلینا، یہی ان کا علاج ہے۔’
انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے ورما نے کہا کہ انہوں نے کسی بھی مذہبی برادری کا نام نہیں لیا تھا۔
انہوں نے کہا، میں نے کہا تھا کہ جن خاندانوں کے افراد نے ایسے قتل کیے ہیں ان کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔ ایسے خاندان، اگر وہ کوئی ریستوراں یا کوئی کاروبار چلاتے ہیں تو ان کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔ ایسے جرائم میرے علاقے میں بھی ہو چکے ہیں۔ اور ان معاملوں میں ان کے کاروبار کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔
غور طلب ہے کہ ورما کی اشتعال انگیز تقریریں کرنے کی تاریخ رہی ہے۔ 2020 کے دہلی فسادات سے پہلے بھی وہ اشتعال انگیز تقریریں کرتے رہے ہیں۔
وہاں پروگرام میں اتر پردیش کے لونی سے بی جے پی ایم ایل اے
نند کشور گجر نے دادری میں ماب لنچنگ کا نشانہ بننے والے محمد اخلاق کے قتل کو ‘سور’ کے قتل سے تعبیر کرتے ہوئے 2015 میں ہوئی ان کی ہلاکت کو یاد کرایا۔
ساتھ ہی انہوں نے دہلی فسادات کے دوران ‘جہادیوں کو مارنے کے لیے 2500 حامیوں’ کو لانے کا دعویٰ بھی کیا۔
انڈیا ٹوڈے کے مطابق، مہنت نول کشور داس نے لوگوں سے بندوق اٹھانے کو کہا۔ انہوں نے کہا بندوق لو۔ لائسنس لو۔ اگر آپ کو لائسنس نہیں ملتا ہے تو فکر نہ کرو۔جوآپ کو مارنے آتے ہیں، کیا ان کے پاس لائسنس ہوتا ہے؟ اس لیے آپ کو کیوں لائسنس کی ضرورت ہے؟’
رپورٹ کے مطابق ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘اگر ہم متحد ہو گئے تو دہلی پولیس کمشنر بھی ہمیں چائے پلائیں گے اور ہمیں جو کرنا ہے وہ کرنے دیں گے’۔
مہنت داس نے انڈین ایکسپریس کو بتایا،’میں نے لوگوں سے بندوق اٹھانے کے لیے نہیں کہا۔ میں نے کہا کہ ملک کی حفاظت کے لیے منیش کو مارنے والوں کے خلاف سب کو ایک ساتھ آنا چاہیے۔ ہمیں جہادیوں کے خلاف کارروائی کرنی ہوگی اور پولیس ہمیں نہیں روک سکتی۔
ایک اور مقرر جگت گرو یوگیشور آچاریہ نے کہا، ‘اگر ایسے لوگ ہمارے مندروں پر انگلیاں اٹھائیں تو ان کی انگلیاں مت کاٹو، ان کے ہاتھ کاٹو۔ اگر ضرورت پڑے تو ان کا گلا بھی کاٹ دو، کیا ہوگا؟ ایک دو پھانسی ہو گی، دو کو پھانسی ہوگی… ہم سب بھی اس کا دھیان دیں… ان کو چن چن کر مارنے کا کام کریں۔
جب میڈیا نے ان سے ان کی تقریر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا، ‘میں اس کے لیے بار بار کہوں گا… میں سناتن دھرم کے لیے پھانسی پر لٹکنے کوتیار ہوں۔’
تقریب کے منتظمین میں وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) بھی شامل تھی۔ اس پروگرام کو ‘وراٹ ہندو مہاسبھا’ کا نام دیا گیا تھا۔
وی ایچ پی کے ترجمان ونود بنسل نے مقررین کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ میٹنگ میں جہادی عناصر کو پیغام دیا گیا تھا نہ کہ کسی کمیونٹی کو۔
انہوں نے کہا، ‘لوگ غصہ ہیں۔ ان کا مطلب تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ جہادی عناصر کے خلاف اپنے دفاع میں آگے آ سکتے ہیں۔
دہلی پولیس نے معاملے میں ایف آئی آر درج کی
تاہم دہلی پولیس نے تقریب کے منتظمین کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی ہے۔
وہیں، اس پروگرام کے منتظمین میں سے ایک وی ایچ پی نے اس دعوے کو مضحکہ خیز قرار دیا کہ پروگرام میں کچھ مقررین نے نفرت انگیز تقریریں کی تھیں۔ وی ایچ پی نے کہا کہ دلشاد گارڈن میں منعقد اس پروگرام میں پولیس اہلکار تعینات تھے۔
ڈپٹی کمشنر آف پولیس (شاہدرہ) آر ستیہ سندرم نے کہا،پولیس سے اجازت نہ لینے کے لیے تعزیرات ہند کی دفعہ 188 (سرکاری ملازم کے ذریعہ جاری کردہ حکم کی نافرمانی) کے تحت منتظمین کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
غورطلب ہے کہ اس پروگرام کا انعقاد وی ایچ پی سمیت کئی ہندو تنظیموں نے کیا تھا۔ وی ایچ پی کے ترجمان ونود بنسل نے کہا کہ انہیں ایف آئی آر کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔
بنسل نے دعویٰ کیا،اجازت کی چھوڑیے، ہم نے سینئر پولیس افسران کی تجویز اور سفارش کے بعد دلشاد گارڈن میں رام لیلا میدان کوپروگرام کے لیےطےکیا تھا۔ ہم نے پہلے منیش کے گھر کے قریب میٹنگ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن پولیس کی درخواست پر اسے رام لیلا میدان میں کر دیا گیا۔
اس سے قبل، تنازعہ کھڑا ہونے کے بعد دہلی پولیس نے کہا تھا کہ وہ مشرقی دہلی کے دلشاد گارڈن میں ہونے والے پروگرام کے بارے میں معلومات اکٹھی کر رہی ہے اور اس پروگرام کے لیے کوئی اجازت نہیں لی گئی تھی۔
ایک سینئر پولیس افسر نے کہا تھا، ابھی تک کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی ہے۔ تاہم پروگرام میں تقاریر سے متعلق فوٹیج کی چھان بین کی جائے گی۔
غور طلب ہے کہ منیش کے قتل کا واقعہ سی سی ٹی وی میں قید ہو گیا تھا۔ کیمرے کی فوٹیج میں تین نوجوانوں کو منیش کو چاقو سے گودتے ہوئے دیکھا گیا۔ وی ایچ پی نے منیش کے اہل خانہ کے لیے ایک کروڑ روپے کے معاوضے کا مطالبہ کیا ہے۔
وی ایچ پی کی دہلی یونٹ کے صدر کپل کھنہ نے اتوار کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے وابستہ تنظیم نے نوجوان کے خاندان کو تحفظ فراہم کرنے اور ایک رکن کو نوکری دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ کو چھ نکاتی میمورنڈم پیش کیا ہے۔
وی ایچ پی نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر اس کے مطالبات پورے نہیں ہوئے تو وہ بڑا احتجاجی مظاہرہ کرے گی۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)