بی جے پی کے دہلی انچارج اور نائب صدر بیجینت پانڈا نے کہا ہے کہ نئی دہلی میں رہ رہے ‘غیر قانونی مہاجروں’ کو ان کے ہاؤ بھاؤ سے پہچانا جا سکتا ہے۔ وہ ‘ڈان’ کی طرح کپڑے پہنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے سویڈن، ہالینڈ اور بیلجیم وغیرہ میں دیکھا ہے، جہاں مہاجر کمیونٹی نے ’نو گو زون‘ بنا رکھے ہیں، جہاں لوگ حتیٰ کہ پولیس بھی جانے سے ڈرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ غیر قانونی مہاجرین نے دہلی میں بھی ایسا ہی کیا ہے۔
بیجینت پانڈا۔ (تصویر: دی وائر)
نئی دہلی: بی جے پی کے دہلی انچارج نے دارالحکومت کے کچھ حصوں کا موازنہ یورپی ممالک کے نام نہاد ‘نو گو زون’ (جہاں جا نہیں سکتے)سے کیا ہے، جہاں مہاجر رہتے ہیں۔
انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق، بی جے پی کے دہلی انچارج اور نائب صدر بیجینت پانڈا نے کہا ہے کہ نئی دہلی میں رہنے والے ‘غیر قانونی مہاجرین’ کو ان کے ہاؤ بھاؤ سے پہچانا جا سکتا ہے، وہ ‘ڈان’ کی طرح کپڑے پہنتے ہیں۔ انہوں نے ان مہاجرین کا موازنہ جرائم پیشہ افراد، مافیا اور دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ رابطے میں رہنے والے لوگوں سے کیا ہے۔
انہوں نے کہا، جیسا کہ ہم نے یورپ، سویڈن، ہالینڈ اور بیلجیم وغیرہ میں دیکھا ہے، جہاں مہاجرین نے ‘نو گو زون’ بنا رکھا ہے، جہاں لوگ حتیٰ کہ پولیس بھی جانے سے ڈرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ غیر قانونی مہاجرین نے دہلی میں بھی ایسا ہی کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا، یہ ہندوستانی آئین کے خلاف ہیں۔ ان کے پاس رام نومی کے جلوس پر حملہ کرنے کا حق نہیں ہے۔ ہم نے انہیں غیر قانونی طور پر بندوقوں کا استعمال کرتے اور غیر قانونی تعمیراتی جگہوں سے کام کو انجام دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ آپ ڈان جیسے کپڑے پہنے ان لوگوں کے ہاؤ بھاؤدیکھ سکتے ہیں۔
پانڈا نے کہا، بی جے پی کسی کمیونٹی کے خلاف نہیں ہے، ہم سب کا ساتھ، سب کا وکاس پر کام کرتے ہیں، لیکن بی جے پی حکومت تمام جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے گی۔ یہ کسی کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے لیے نہیں ہے، لیکن ان جرائم پیشہ افراد، مافیا اور دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے ہے۔
ان کا یہ بیان امت شاہ اور دیگر اعلیٰ رہنماؤں کی پارٹی کی دہلی یونٹ کے رہنماؤں کے ساتھ میٹنگ کے بعد سامنے آیا، یہ بیٹھک اسی دن ہوئی تھی، جب شمالی دہلی میونسپل کارپوریشن (این ڈی ایم سی) نے توڑ پھوڑ کی مہم کے تحت بلڈوزر کا استعمال کرکے جہانگیرپوری میں مسجد کے بیرونی حصے سمیت مبینہ طور پرغیر قانونی دکانوں اور عمارتیں کے کے کچھ حصے کوگرادیا تھا۔
بتادیں کہ 16 اپریل کو رام نومی کے دن جہانگیر پوری میں اس وقت فرقہ وارانہ تشدد کا واقعہ پیش آیاجب ہندوتواوادی جلوس میں شامل لوگوں نے مبینہ طور پر مقامی مسجد کے سامنے بھگوا جھنڈا پھہرانے کی کوشش کی۔ اس کے بعد اس معاملے میں کئی گرفتاریاں ہوئیں اور پانچ لوگوں پر این ایس اے لگایا گیا۔
ٹھیک اسی طرح مدھیہ پردیش اور گجرات جیسی بی جے پی مقتدرہ ریاستوں میں رام نومی کے دن فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات دیکھنے کو ملے۔
دہلی میں این ڈی ایم سی نے انہی جگہوں پر انسداد تجاوزات مہم شروع کرنے کا منصوبہ بنایا جہاں جہاں تشدد ہوا تھا۔ یہ فیصلہ دہلی بی جے پی کے سربراہ آدیش گپتا کی طرف سے جہانگیرپوری میں ‘فسادیوں’ کے غیر قانونی تعمیرات کی نشاندہی کر کے اسے بلڈوزر کے ذریعے منہدم کرنے کے لیے این ڈی ایم سی کے میئر کو خط لکھنے کے بعد لیا گیا۔
کئی اپوزیشن لیڈروں اور سول سوسائٹی کے ارکان نے عوامی طور پر میونسپل کارپوریشن کی اس کارروائی کو بی جے پی کی فرقہ وارانہ اور مسلم مخالف سیاست قرار دیا ہے۔
گپتا نے الزام لگایا تھا کہ یہ تشدد غیر قانونی طریقے سے رہ رہے روہنگیا اور بنگلہ دیشی مہاجرین کو عام آدمی پارٹی کی حکومت کی طرف سے مدد کرنے کا نتیجہ ہے۔
حالاں کہ سپریم کورٹ نے اس توڑ پھوڑ کی مہم پر صورتحال کوجوں کا توں برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا تھا لیکن عدالت کے فیصلے کے تقریباً ایک گھنٹے بعدتک یہ انہدامی مہم جاری رہی۔
وہیں، بی جے پی نے 20 اپریل میٹنگ کے بعدان تمام قانونی اختیارات کو تلاش کرنے کی بات کہی، جس سے کہ موجودہ مشق کو منطقی انجام تک پہنچایا جاسکے۔
انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بی جے پی کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، چاہے سوشل میڈیا پر ہو یا پھرزمینی سطح پر یا پھر سنگھ میں دہلی کی قیادت یوگی (آدتیہ ناتھ) کا ماڈل چاہتی ہے۔ آپ کو یہ معلوم ہو کہ اس طرح کے فیصلے کرنا اور پولیس اور نوکرشاہوں کو یقین دلانا ریاستی سطح پر نہیں ہو سکتا۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔