گنگا میں بہتی لاشوں کو دیکھ کر افسردہ گجراتی شاعرہ پارل کھکر نے اپنی افسردگی کو چودہ مصرعوں کی ایک نظم میں ڈھال دیا ہے، جسے ادیبوں کے علاوہ عام لوگوں نے بھی پسند کیا۔ حالانکہ اس کے بعد بنیادی طور پرغیرسیاسی پارُل مقتدرہ بی جے پی کی ٹرول آرمی کے نشانے پر آ گئیں۔
پارل کھکر۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک اکاؤنٹ)
کسی زمانے میں رائٹ ونگ کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ادیبوں کے ذریعے‘گجراتی ادب کا اگلا آئی کان’بتائی جانے والی شاعرہ اب بی جے پی آئی ٹی سیل کی ٹرول آرمی کی تازہ ترین شکار بنی ہیں۔اس کی وجہ بنی ہے شاعرہ کی وہ نظم جو انہوں نے مرکزی حکومت کے ذریعے مہاماری کی دوسری لہر کے مایوس کن انتظامات کی وجہ سےہندوستانیوں پرآئی مصیبتوں پر لکھی ہے۔
پارل کھکر کی نظم شوواہنی گنگا، جو انہوں نے 11 مئی کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شیئرکی تھی، گجراتی میں تحریر کی گئی ایک مختصر مگرانتہائی طنزیہ نظم ہے، جس میں وزیر اعظم کاتذکرہ اس ‘رام راج’ پرحکومت کر رہے ‘ننگے راجہ’کے طور پر کیا گیا ہے، جس میں گنگا ‘شوواہنی’ کا کام کرتی ہے۔
دیکھتے ہی دیکھتے 14مصرعوں کی اس نظم کا کم سے کم چھ زبانوں میں ترجمہ ہو گیا اور یہ نظم ان تمام ہندوستانیوں کی آواز بن گئی، جو مہاماری کے ذریعے لائی گئی مصیبتوں سے افسردہ ہیں اور سرکار کی بے حسی اور بدانتطامی سے مشتعل ہیں۔
ادیبہ مرنال پانڈے نے کھکر کی نظم کی تعریف کی ہے۔1973-74 میں بدعنوانی کے الزامات پر گجرات کے اس وقت کے وزیراعلیٰ چمن بھائی پٹیل کو اقتدار سے بےدخل کرنے والے نونرمان آندولن کی صدر رہیں، منیشی جانی نے بھی اس کی تعریف کی ہے۔
مجاہد آزادی اور سیاستداں جئےپرکاش نارائن نے نونرمان آندولن کی تعریف اس کی اصلیت، توانائی اور تخلیقی صلاحیتوں کے لیے کی تھی۔دوسری طرف بی جے پی کی ٹرول آرمی بھی متحرک ہو گئی اور اس نے کھکر پر اپنی معروف گالی گلوچ اور خاتون مخالف تبصروں سے حملہ بول دیا۔
سچائی بیان کرنے والی شاعرہ
ایک ایسےصوبے؛جہاں دو دہائی پہلے ‘رام راج’ کی شروعات ہوئی تھی سے آنے والی کھکر کی نظم، اس زبان میں ہے جسے نریندر مودی‘ننگا راجہ’- اچھی طرح سے جانتے ہیں، اور یہ اقتدار کو سچ کا آئینہ دکھاتی ہے۔
نظم ایک ایسے نظام کی تفصیل پیش کرتی ہے، جہاں اپنے ملک کے شہریوں کے تئیں راجہ کی بے حسی سب کے سامنے آ گئی ہے اور چاروں طرف لاچاری، غریبی اور بدانتظامی ہے۔ یہ نظم نہ صرف سرکار پر وار کرتی ہے بلکہ مین اسٹریم میڈیا، اپوزیشن اور دوسروں پر بھی حملہ کرتی ہے، جنہوں نے ‘ننگے راجہ’ کے اقتدار میں خاموش رہنا مناسب سمجھااور جن کی ریڑھ کی ہڈیاں سلامت نہیں ہیں ۔
اس سچائی کے مدنظر کہ ہندوستان میں مہاماری کی دوسری لہر کے حقائق کو کم کرکے یا غلط طریقے سے بتایا جا رہا ہے، یہاں تک کہ اس پر پابندی تک لگائی جا رہی ہے، کھکر کی نظم اپنے آپ میں ایک جوکھم بھرا کارنامہ ہے۔
گجرات ایک کووڈ 19 ہاٹ اسپاٹ ہے۔ یہ بی جے پی کی سرکار بنانے والا پہلا صوبہ بھی تھا۔ یہ وزیراعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست بھی ہے، جن کو دنیا بھر میں بدترین کووڈ مینجمنٹ کی وجہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔
لیکن اس نظم کو لکھنے کے پس پردہ کھکر کا ارادہ بالکل بھی سیاسی نہیں تھا۔ وہ تو محض ہندوستان کی سب سے مقدس اور ہندوستانی تہذیب کی علامت گنگا ندی میں بہہ رہی کووڈ کے شکار لوگوں کی لاشیں دیکھ کر افسردہ ہو گئی تھیں۔
کھکر کے ایک دور کے رشتہ دار نے دی وائر کو بتایا کہ پارل کھکر خود کو پارٹ ٹائم شاعرہ اور فل ٹائم گھریلو خاتون کے طور پر دیکھتی ہیں۔ ان کو جاننے والے لوگوں کے مطابق ان کی تخلیقیت کا سب سے اچھا لمحہ تب آتا ہے جب وہ گھر صاف کر رہی ہوتی ہیں یا روٹی بنا رہی ہوتی ہیں۔ بینک میں کام کرنے والے ان کے شوہر کو ان کی تخلیقی صلاحیت اورتخلیقات پر فخر ہے۔
ان کے رشتہ دار نے بتایا، ہندوستان کی کئی لڑکیوں کی طرح کھکر، جو جولائی میں51 سال کی ہونے والی ہیں، نے گریجویشن کے دوسرے سال میں کالج چھوڑکر شادی کر لی تھی اور گھریلو زندگی کی شروعات کی تھی۔ لیکن انہیں لکھنا ہمیشہ سے پسند تھا۔ ان کی پہلی نظم 1984 میں لکھی گئی تھی، جب وہ دسویں جماعت میں تھیں۔ یہ نظم اندرا گاندھی کی شخصیت اور ان کی ہلاکت کے بارے میں تھی۔ ان کی نظروں میں یہ نظم خاص تھی، لیکن شادی ہونے کے بعد انہوں نے لکھنا چھوڑ دیا۔
سال 2011 میں کھکر کے بیٹے نے ان کا تعارف انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے کروایا اور انہوں نے نظم کے لیے اپنے جنون کی ایک طرح سے دوبارہ جستجوکی۔ ان کے جاننے والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے محسوس کیا غزل لکھنا انہیں‘بادلوں پر چلنے’کا احساس کراتا ہے۔
اپنے بلاگ کی تمہید میں کھکر کہتی ہیں،‘شاعری میری زندگی کا خاموش سہارا رہی ہے۔ میرا پہلا پیار۔ میں زندگی کی مشکلوں کو پار کرنے میں ہمیشہ شاعری پر بھروسہ کر سکتی تھی۔ میں گجراتی، ہندی اور اردو میں لکھتی ہوں۔ میں غزل لکھنا پسند کرتی ہوں۔ میں روحانی اورمذہبی ہوں۔ میں خود کو ایشور کی سب سے اچھی اولاد سمجھتی ہوں۔’
راج کوٹ میں تانیثیت پر مقالہ لکھ رہے صحافت کے ایک طالبعلم کو دیے ایک انٹرویو میں کھکر نے اس بات پر زور دیا تھا کہ وہ ٹھیٹ قسم کی فیمنسٹ نہیں ہیں اور ان کی سب سے بڑی خوشی فیملی کے آس پاس رہنا اور گھریلو کام کرنا ہے۔
بکسر کے چوسہ گاؤں میں گنگا کے گھاٹ پر لاش۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
رائٹ ونگ آئی کان
مزاحمت یا احتجاج کی شاعری کبھی بھی پارل کی صنف نہیں رہی، لیکن رام راج میں گنگا کے شوواہنی بن جانے کی ان کی نظم نے ہمعصر ہندوستان کی سفاک حقیقت کو بیان کیا ہے۔ ابھی تک اس کا ترجمہ آسامی، ہندی، انگریزی اور تمل میں ہو چکا ہے اور بھوجپوری، ملیالم اور بنگالی ترجمے بھی ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا ہر ترجمہ وائرل ہو گیا ہے۔
اس نظم کی تخلیق سے پہلے تک کھکر انتہائی پولرائزڈ گجرات صوبے کے رائٹ ونگ رجحان والے ادیبوں کی آنکھوں کا تارہ تھیں۔
سیاسی مؤرخ اور 22 سال کی عمر سے ہی آر ایس ایس اور اس کے گجراتی ماؤتھ پیس سادھنا سے جڑے رہے وشنو پانڈیہ جنہیں مودی کےوزیر اعظم بننے کے بعد پدم شری دیا گیا تھا نے کھکر کو ‘گجراتی نظم کا اگلا بڑا آئی کان’کہا تھا۔
کھکر نے کم سے کم چھ نظمیں شری ناتھ جی پر لکھی ہے۔ شری ناتھ جی بھگوان کرشن کے ایک روپ ہیں، جن کی پوجا گجرات میں ویشنووں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ انہوں نے رادھا اور کرشن پر بھی نظمیں لکھی ہیں، جو مقبول گجراتی نغمے بن گئے ہیں۔
لیکن کبھی اسٹیج پر کھکر کی بڑی فیاضی سے تعریف کرنے والے پانڈیہ نےبی جے پی کی ٹرول آرمی کے خلاف کھکر کا دفاع نہیں کیا ہے۔بی جے پی کی ٹرول آرمی نے ‘ملک دشمن’،‘ناپختہ’اور ہندومخالف جیسےلفظوں سےکھکر پر حملہ کیا اور ان پر ‘بدکرداراور اخلاقی قدروں سے گری ہوئی عورت’ کا تغمہ تک دے دیا۔
کھکر کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ اور ان کی نظم کو شیئر کرنے والے ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کے اکاؤنٹ پر 28000 سے زیادہ گالی گلوچ اور خاتون مخالف تبصرے کیے جا چکے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ تمام تبصرےبی جے پی کی آئی ٹی سیل کی طرف سے پوسٹ کیے گئے ہیں، جو سرکار کی مخالفت کرنے والے کسی بھی شخص کو پریشان کرنے کے لیے، چاہے وہ سیاست سے وابستہ ہوں یا نہیں،بدنام زمانہ ہے۔ اس کی وجہ سے کھکر کو فیس بک اور انسٹاگرام پر اپنے پبلک اکاؤنٹ کو پرسنل لاکڈ اکاؤنٹ میں بدلنا پڑا ہے۔
گجرات سےبی جے پی کے ایک رہنما نے دی وائر کو بتایا کہ ایک غیرسیاسی شاعرہ کو ان کی پارٹی کی طرف سے جس طرح سے ٹرول کیا گیا ہے، وہ کافی خراب تھا اور اس نے اس بات کومزید اجاگر کرنے کا کام کیا کہ پارٹی زمینی حالات سے کس قدربےخبر ہے۔
انہوں نے کہا کہ نظم میں استعمال کیے گئے ‘بلا رنگا’اور ‘راجہ ننگا’ لفظ ان پر کیے جا رہے حملے کی بنیادی وجہ ہیں۔
کھکر کے کچھ نزدیکی دوست ہیں، لیکن ان سے صرف سماجی پہچان رکھنے والے بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ‘پارل ایک کم گو اور دل سے بےحد نیک خاتون ہیں۔’ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ‘ہندو ہونے پر فخر کرنے والی’ ایک اوسط گجراتی خاتون ہیں، جنہوں نے مودی کے وزیر اعظم بننے پر ان کی کھل کر تعریف کی تھی۔
سیاسی طور پر ان کی فیملی بی جے پی کے لیے ہمدردی رکھتی ہے۔ راج کوٹ میں رہنے والے ایک معروف شاعرنے پہچان اجاگر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ کھکر کبھی بھی بی جے پی مخالف نہیں رہی ہیں۔ لیکن گنگا میں تیر رہی لاشوں کی تصویروں نے ان کے اندر کے شاعر کو جھنجھوڑ دیا۔
ان کے ایک اور دوست کا کہنا ہے کہ ان کا ارادہ کوئی سیاسی بیان دینے کا نہیں تھا۔ وہ صرف ہندوستانیوں کی تکلیف کو دیکھ کر ہوئے اپنے دکھ کو لفظ دینا چاہتی تھیں۔ایک شاعر، جو پہلے صحافی ہوا کرتے تھے نے دی وائر سے کہا، ‘کسی طرح کے احتجاج کو آواز دینے کے لیے گجرات ایک محفوظ جگہ نہیں ہے۔ ہمیں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔’
گجرات کو کافی باریکی سے دیکھنے والی اروشی کوٹھاری نے دی وائر سے کہا، ‘کوئی شاعر وہی لکھتا ہے، جو وہ وہ محسوس کرتا ہے اور وہ خود کو بہادر نہیں سمجھتا ہے۔ اس کے لیے یہ بس اس کے خیالات کے اظہار کا معاملہ ہے۔’
ساتھ ہی انہوں نے یہ جوڑا، ‘لیکن جو چیز سب سے زیادہ پریشان کن ہےوہ ہے اس معاملے میں گجرات کے ذریعے کیا گیالفظی تشدد۔ میں یہ نہیں کہوں گی کہ ان کو گالی دینے والا ہر شخص معاوضہ پانے والا بی جے پی ٹرول ہے، لیکن گجرات میں زہر اس قدرہے کہ یہ صوبے کے سماجی تانے بانے میں گھل گیا ہے۔
شاعرہ کو حمایت
کھکر کے ذریعےشوواہنی گنگا شائع کرنے کے دو دن بعدبی جے پی حامی ٹرولز نے یہ اعلان کیا کہ شاعرہ نے اپنے فیس بک پیج سے نظم ہٹا لی ہے۔ لیکن دی وائر اس بات کی تصدیق کر سکتا ہے کہ وہ نظم آج بھی وہاں ہے اور چونکہ ان کا اکاؤنٹ اب پرائیویٹ ہے، اس لیے اسے صرف ان کے دوست دیکھ سکتے ہیں۔ اور کھکر کے دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کو لےکر پرعزم ہیں کہ وہ اس نظم کو نہیں ہٹائیں گی۔
اس بیچ گجراتی لیکھک منڈل(رائٹرس فورم)، جس میں گجرات کے ایک ہزار سے زیادہ شاعرہیں،نے بولنے کی ہمت کرنے والی شاعرہ کی حمایت میں بیان دیا ہے۔گجراتی لیکھک منڈل کی صدراور نونرمان آندولن کی سابق صدرمنیشی جانی نے 13 مئی کو فورم پر ایک اعلان جاری کیا جس میں بالواسطہ طور پربی جے پی آئی ٹی سیل کے ٹرولز کا ذکر کیا گیا ہے۔
اس میں کہا گیا،‘پارل کھکر کوان کی نظم کی وجہ سے گالی گلوچ اور ٹرولنگ کا شکار بنایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسے خاص طریقے کے لوگ بھرے ہوئے ہیں جو دشنام طرازی کررہے ہیں اور انہیں اپنے اظہارپر بندش لگانے کے لیےمجبورکر رہے ہیں۔ لیکھک منڈل اس کی اور ایک گروپ کی جانب سےشاعرہ کے اظہار رائے کی آزادی کو دبانے کی کوششوں کی مذمت کرتا ہے۔’
جانی اور گجراتی لیکھک منڈل کے سکریٹری منہر اوجھا نے سوشل میڈیا پر آئی سپورٹ پارل کھکر کا ہیش ٹیگ چلایا ہے اور ہر ہندوستانی سے ان کے حق میں کھڑے ہونے کی اپیل کی ہے۔
گجراتی
پارُل کی نظم کا ریتا اور ابھیجیت کوٹھاری کے ذریعے کیا گیا انگریزی ترجمہ؛
الیاس شیخ کے ذریعے کیا گیا ہندی ترجمہ
سلیل ترپاٹھی کے ذریعے کیا گیا انگریزی ترجمہ
نظم کا اُردو مفہوم؛
جیسے مُردوں نے صدائے لبیک بلند کی ہو؛ سب ہے چنگا چنگا
صاحِب تمہارے رام راج میں’شو-واہنی گنگا‘
چھوٹے پڑگئے شمشان تمہارے
خاک ہوگئے درخت بھی سارے
گراں بارہیں کندھے
اورسُوکھ چکے نین ہمارے
در در ملک الموت کرے
موت کا ایک رقص بے ڈھنگا
صاحِب تمہارے رام راج میں’شو-واہنی گنگا‘
ہرآن جلتی چتائیں
راحت ڈھونڈیں پل بھر
ہر آن ٹو ٹے چوڑیاں
اور سینہ کوبی گھر گھر
دیکھ لپٹوں کو سارنگی بجائے واہ رے’بلا-رنگا‘
صاحِب تمہارے رام راج میں’شو-واہنی گنگا‘
صاحب تمہاری شان و شوکت اور تابانی
کاش لوگ یہ سمجھیں
ہو تم سنگ نہ گوہر
ہو جرأت تو سامنے آکر بولو
’میرا صاحِب ننگا‘
صاحِب تمہارے رام راج میں’شو-واہنی گنگا‘
(دیپل ترویدی وراگو میڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ کی بانی ہیں)
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)