الیکشن کمیشن نے 2002-03 کی مثال دیتے ہوئے بہار میں ایس آئی آرکے 97 دن کے عمل کا دفاع کیا ہے۔ لیکن ریکارڈ اور سابق عہدیداروں کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت یہ عمل آٹھ ماہ تک جاری رہا تھااور شہریت اور ووٹر آئی ڈی کے بارے میں موقف بالکل مختلف تھا۔
موجودہ ایس آئی آر کے عمل کے بارے میں خدشات ہیں کہ الیکشن کمیشن دراصل شہریت کی تصدیق کی مہم چلا رہا ہے۔تصویر: ایکس/الیکشن کمیشن
نئی دہلی: بہار کی ووٹر لسٹ کے اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر) کو لے کر الیکشن کمیشن کی طرف سے دی گئی وضاحت اب سوالوں کے دائرے میں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جس 2002-03 کی مشق کو کمیشن نے مثال کے طور پر پیش کیا، اس کا جائزہ لیا جائے تو وقت کی حد، شہریت کی تصدیق اور ووٹر شناختی کارڈ کے کردار جیسے مسائل پر بڑے تضادات سامنے آتے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں داخل کیے گئے حلف نامے میں 2025 کے اس ایس آئی آر کے لیے97 دنوں کی مختصر مدت اور سخت دستاویزی قوانین کا دفاع کیا ہے۔ لیکن انڈین ایکسپریس کی ایک جانچ،جس میں ریکارڈ اور سابق الیکشن کمشنروں کے بیانات شامل ہیں، نے انکشاف کیا کہ پچھلی ایس آئی آر کہیں زیادہ لمبی اور زیادہ جامع تھی۔
یہ تضادات سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں کی بنیاد ہیں۔ ان عرضیوں میں کہا گیا ہے کہ بہار جیسی ریاست کے لیے موجودہ تین ماہ کی مدت بہت کم ہے۔ یہ بھی الزام ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی حدود سے تجاوز کر رہا ہے اور شہریت کے سوالوں میں مداخلت کر رہا ہے۔
جب 2002-03 اور 2025 کی نظرثانی کا موازنہ کیا جائے تو جو اختلافات سامنے آتے ہیں، وہ بہت واضح اور چونکا دینے والے ہیں۔
دورانیہ کا فرق
سب سے بڑا فرق اس پیچیدہ کام کے لیے مقررہ مدت میں ہے۔ اپنے حلف نامے میں الیکشن کمیشن نے موجودہ ٹائم لائن پر اٹھائے گئے خدشات کو ‘غلط اور گمراہ کن’ قرار دیا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ گھر گھر گنتی کی مدت وہی ہے جو 2002-03 میں تھی۔
یہ بات اس مخصوص مرحلے کے لیے حقائق کی رو سے درست ہے، لیکن یہ وسیع تناظر سے محروم ہے۔ 2002-03 کی نظرثانی، جو جھارکھنڈ، اتراکھنڈ، اتر پردیش، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور پنجاب سمیت چھ دیگر ریاستوں میں بھی نافذ کی گئی تھی، مئی 2002 سے جنوری 2003 میں حتمی فہرست شائع ہونے تک کل 243 دن یا تقریباً آٹھ ماہ تک جاری رہی۔
اس عمل میں وہ 74 دن کا عرصہ بھی شامل ہے جو اس کی تیاری میں صرف کیا گیا تھا۔ تیاری کے دوران ہی تربیت، سروے اور پولنگ بوتھوں کی تنظیم نو کی گئی تھی۔ اس کے بعد ڈیٹا انٹری، اعتراضات اور دعوؤں کا عمل مختلف مراحل میں ہوا تھا۔
اس کے بالکل برعکس، 2025 کے پورے اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر) کو صرف 97 دنوں میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ تینوں مراحل – تربیت، پولنگ بوتھوں کی تنظیم نو اور گھر گھر گنتی – کو اسی 31 دن کی ونڈو میں فٹ کر دیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے ایک ریٹائرڈ اہلکار جو 2002-03 کے عمل میں شامل تھے کہتے ہیں کہ پہلے کا لمبا شیڈول اس عمل کو زیادہ گہرائی اور بغیر کسی جلد بازی کے پورا کرنے کا موقع دیتاتھا۔
شہریت کا سوال: پہلے اور اب
الیکشن کمیشن کی قانونی دلیل کی ایک اہم بنیاد یہ ہے کہ 2003 کے نظرثانی کے عمل کے بعد انتخابی فہرستوں میں شامل ووٹرز کو شہری سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ اس عمل نے ‘اہلیت کا ٹھوس ثبوت’ فراہم کیا تھا۔ لیکن ان عہدیداروں کی یادیں جنہوں نے اس وقت اس عمل کی نگرانی کی تھی کچھ اور ہی تصویر پیش کرتی ہیں۔
سال 2002-03 کی نظرثانی میں شامل ایک سابق چیف الیکٹورل افسر کے مطابق، اس وقت جنہیں ووٹروں کی گنتی کا کام سونپا گیا تھا، انہیں موجودہ ووٹرز سے شہریت کا ثبوت مانگنے کی کوئی ہدایت نہیں تھی۔ ان کا بنیادی کام عمر اور رہائش کی تصدیق کرنا تھا۔ اس وقت الیکشن کمیشن کی ہدایات نے شہریت کی تصدیق کو صرف دو مخصوص حالات تک محدود رکھا تھا؛
پہلی بار درخواست دہندگان کے لیے، جب الیکٹورل رجسٹریشن آفیسر کو شک ہو۔
ان مخصوص علاقوں میں جن کی شناخت ریاستی حکومت نے بڑی تعداد میں غیر ملکی شہریوں کے گھر کے طور پر کی ہو۔
یہاں تک کہ ان حساس علاقوں میں بھی پہلے سے درج ووٹروں سے شہریت ثابت کرنے والے دستاویز نہیں مانگے گئے ۔
اس کے برعکس، موجودہ عمل کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ الیکشن کمیشن دراصل شہریت کی تصدیق کی مہم چلا رہا ہے – جس کے بارے میں درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ یہ الیکشن کمیشن کے آئینی دائرہ اختیار سے باہر ہے۔
ووٹر شناختی کارڈ کا کردار
ووٹر فوٹو شناختی کارڈ (ای پی آئی سی) کے حوالے سے بھی بڑا فرق آیا ہے۔ ریاست کے ایک سابق چیف الیکٹورل آفیسر کے مطابق، 2002-03 کے نظرثانی کے دوران ای پی آئی سی ‘تصدیق کی ریڑھ کی ہڈی’ تھی۔ ووٹرز کی گنتی کرنے والوں کو اس کارڈ کی مدد سے ووٹر لسٹ میں درج تفصیلات کو ملانے اور درست کرنے کی واضح ہدایات دی گئی تھیں۔
دو دہائیوں بعد کمیشن کا موقف مکمل طور پراس کے برعکس ہے۔ سپریم کورٹ میں دائر اپنے حلف نامے میں الیکشن کمیشن نے اہلیت کے ثبوت کے طور پر ای پی آئی سی کو قبول کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا۔
کمیشن کا استدلال ہے کہ چونکہ موجودہ نظرثانی انتخابی فہرست کو شروع سے تیار کرنے کا عمل ہے، اس لیے ای پی آئی سی کارڈز پر انحصار کرتے ہوئے – جو اسی انتخابی فہرست پر مبنی ہیں جسے دوبارہ بنایا جا رہا ہے –’پورے عمل کو بے معنی بنا دےگا۔’
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ووٹر لسٹ کو ‘صاف’ کرنے کے لیے ایک خصوصی نظر ثانی ضروری ہے کیونکہ شہری کاری، نقل مکانی اور دو دو بار نام کی وجہ سے بڑے تضادات سامنے آئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے بھی اس معاملے کو اٹھایا ہے۔