آر ٹی آئی کارکن کے بیٹے کو فروری میں گرفتار کیا گیا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ ان کی آواز دبانے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔ وہیں پولیس کا کہنا ہے کہ اس کے پاس سے ایک دیسی پستول ملی تھی، جس کے بعد اسے دو دیگر لوگوں کے ساتھ بکسر جیل بھیج دیا گیا۔
نئی دہلی: بہار کے ایک آر ٹی آئی کارکن کا کہنا ہے کہ پولیس نے ان کے نابالغ بیٹے کو بالغ بتاکر جیل میں ڈال دیا ہے۔ ان کا بیٹاگزشتہ پانچ مہینے سے جیل میں ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، کارکن کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے اور دو دیگر پر آرمس ایکٹ کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے اور ان کا بیٹا تبھی سے بکسر کی جیل میں بند ہے۔
آر ٹی آئی کارکن نے اس معاملے کو لےکر کورونا کی وجہ سے لگائے گئے لاک ڈاؤن سے پہلے ہی ریاست کے ڈی جی پی سے اس کی شکایت بھی کی تھی۔کارکن نے کہا، ‘ان کا 14 سال کا بیٹا 29 فروری کو دسویں جماعت کے اپنے ایک امتحان کے بعد گاؤں کے ہی دو لوگوں کے ساتھ بائیک سے جا رہا تھا کہ بکسر کے راج پور علاقے میں پولیس نے ان کی بائیک روک لی۔’
پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں کارکن کے بیٹے کے پاس سے ایک دیسی پستول اور باقی کے دو لوگوں سے زندہ کارتوس ملے تھے۔ اس کے بعد تینوں کو گرفتار کرکے بکسر جیل بھیج دیا گیا۔کارکن کا کہنا ہے کہ باقی کے دو لوگوں کو بعد میں ضمانت پر رہا کر دیا گیا، لیکن ان کا بیٹا ابھی بھی جیل میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے بیٹے نے گرفتاری سے پہلے پانچ امتحانات میں کل 83 فیصدی نمبر حاصل کیے تھے اور اس کو ایک اور امتحان دینا تھا۔اسکول ریکارڈ کے مطابق، بچہ کی پیدئش اپریل 2006 میں ہوئی تھی۔مقامی سطح پر بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھانے والے اس آر ٹی آئی کارکن کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کو پھنسانے میں ان لوگوں کا ہاتھ ہے، جنہیں وہ بے نقاب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان لوگوں کی مقامی پولیس سے ملی بھگت ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ سال میں انہوں نے بہار سرکار کی فلیگ شپ اسکیم ،سات نشچیہ(گاؤں کی سڑکوں، صفائی اورپینے کا پانی) منریگا اورپرائمری اگریکلچرکریڈٹ سوسائٹی(پی اے سی ایس)کے ذریعے دھان کی خریداری میں مبینہ بے ضابطگی کو لےکر کئی آر ٹی آئی دائر کیے تھے۔
انہوں نے کہا، ‘میرے بیٹے کو پھنسایا گیا کیونکہ میں نے دھان خریداری کی تفصیلات مانگی تھی۔پولیس میرے نابالغ بیٹے کو بالغ کیسے قرار دےسکتی ہے؟ کیا اگزام سینٹر سے پستول کے ساتھ لوٹنے کی پولیس کی کہانی پر کوئی یقین کر سکتا ہے؟ ‘ایک سڑک پراسکیم کو لےکر کارکن کے ذریعے آر ٹی آئی دائر کرنے کے بعد اس معاملے کی جانچ بھی ہوئی تھی۔
اتنا ہی نہیں آر ٹی آئی کارکن نے بچوں کے نام پر منریگا روزگار کارڈ جاری ہونے کے معاملے کو بھی اجاگر کیا تھا۔انہوں نے کہا،‘مقامی پنچایت اہلکاروں نے سات مہینے پہلے مجھے ایس سی/ایس ٹی معاملے میں پھنسایا تھا لیکن مجھے کلین چٹ مل گئی تھی۔ انہوں نے پھر میرے بے قصوربیٹے کو پھنسانے کی سازش کی۔’
کارکن کے وکیل للن پانڈے نے کہا، ‘ہم لاک ڈاؤن اور عدالت بند ہونے کی وجہ سے اس معاملے کو اٹھا نہیں پائے۔مقامی پولیس نے ایک بچہ کو بالغ قراردینے کی غلطی کو ٹھیک کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ہم نے جووینائل جسٹس بورڈ سے بھی رابطہ کیا اور ہم اسکول سے بچے کی صحیح پیدائش کی تاریخ بتانے والے سند کو بھی پیش کریں گے۔’
پولیس کے پاس کوئی وضاحت نہیں ہے کہ آخر کیسے دسویں جماعت کے ایک اسٹوڈنٹ کو بالغ بتاکر جیل بھیجا گیا۔اس معاملے میں شکایت گزار راج پور پولیس تھانے کے اے ایس آئی مہیش پرساد سنگھ نے بتایا، ‘میرا اس میں بہت کم رول ہے۔ میں نے وہی کیا، جو مجھے کرنے کو کہا گیا۔’
بہار کے ڈائریکٹرجنرل آف پولیس گپتیشور پانڈے نے کہا، ‘ہم نے راج پور معاملے کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ ہم اس کی پوری جانچ کر رہے ہیں۔ میں نے اس معاملے کو بکسر کے ایس پی کے سامنےبھی اٹھایا تھا، جب لاک ڈاؤن سے پہلے بچہ کے والد نے مجھ سے رابطہ کیا تھا۔’
بکسر کے ایس پی اپیندرناتھ ورما نے کہا، ‘میں نے مقامی پولیس اسٹیشن سے اس معاملے کی جانچ کرنے کو کہا تھا کہ آخر کیسے ایک نابالغ کو بالغ دکھایا گیا اور کن حالات میں ایک بچے کے خلاف معاملہ درج کیا گیا۔ میں بچہ کے والدسے بھی ملنے جا رہا ہوں۔’