مظفرپورضلع کا معاملہ۔ضلع میں22 نومبر کو منعقدہ ایک میڈیکل کیمپ میں موتیا بند کے شکار 65 لوگوں کی آنکھوں کا آپریشن کیا گیا تھا۔سرجری کے بعد کئی مریضوں نے آنکھوں میں درد کی شکایت کی، جس کے بعد ڈاکٹر کی صلاح پر کئی لوگوں کو اپنی آنکھیں نکلوانی پڑیں۔
نئی دہلی: بہار کےمظفر پور ضلع کے ایک اسپتال میں موتیا بند کی سرجری کے بعد ہوئے انفیکشن کی وجہ سے کم از کم 15 لوگوں کو اپنی آنکھیں نکلوانی پڑی ہیں۔
ضلع میں22 نومبر کو منعقدہ ایک میڈیکل کیمپ کے تحت ہیلتھ ورکز نے موتیا بند کے شکار 65 لوگوں کی آنکھوں کا آپریشن کیا۔
یہ آپریشن ایک ٹرسٹ کے زیر انتظام ایک نجی ہسپتال میں ہوا جہاں کئی مریضوں نے سرجری کے بعد آنکھوں میں درد کی شکایت کی۔
مقامی میڈیا میں معاملے کی رپورٹ آنے کے بعد بہار کےمحکمہ صحت کے ساتھ ساتھ ضلع انتظامیہ حرکت میں آئی۔ ریاستی حکومت نے معاملے کی جانچ کے لیے تین رکنی ٹیم بنائی ہے۔
مظفر پور کے سول سرجن اور ضلع کےڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ونے کمار شرما نے اس میں شامل 14 لوگوں کے خلاف دو دسمبر کو ایف آئی آر درج کی۔
ہندوستان کی رپورٹ کے مطابق، ایف آئی آر میں نامزد لوگوں میں اسپتال انتظامیہ اور وہاں کام کر رہے ڈاکٹروں کے نام بھی شامل ہیں۔
ایف آئی آر میں لاپرواہی،انسانی زندگی کو خطرے میں ڈالنے اور قتل کی کوشش کی آئی پی سی کی دفعات کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے ایک دسمبر کو بہار کے چیف سکریٹری تری پراری شرن کو نوٹس جاری کیا تھا۔
نوٹس میں کہا گیا،‘ڈاکٹروں کو سرجری کے بعد انفیکشن کی وجہ سے لگ بھگ درجن بھر سے زیادہ مریضوں کی آنکھیں نکالنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔مبینہ طور پر میڈیکل پروٹوکال کے مطابق ایک ڈاکٹر 12 سرجری تک کر سکتا ہے لیکن اس معاملے میں ایک ڈاکٹر نے 65 سرجری تک کی ہے۔’
تری پراری شرن نے کیمپ میں آپریشن کیے گئے لوگوں کی صحیح تعداد، اس دوران کتنے لوگوں کی آنکھوں کی روشنی گئی، ریاستی حکومت نے انہیں کتنی راحت کا وعدہ کیا تھا اور آپریشن کے اس عمل کے بعد اس کے لیے ذمہ دار لوگوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی۔ ان سب کی تفصیلات طلب کی ہے۔
اس معاملے میں چیف سکریٹری کو چار ہفتے کے اندر جواب دینا ہے۔
مظفر پور کے سول سرجن شرما نے تین دسمبر کو دی وائر سائنس کو بتایا،‘شروعاتی جانچ کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے، جس سے پتہ چلا ہے کہ آپریشن کی جگہ پر انفیکشن تھا۔’
حالانکہ ابھی تک انفیکشن کی نوعیت،متاثرہ اشیا(آلات، دوائیوں وغیرہ)کا پتہ نہیں چل پایا ہے۔ شرما نے کہا،’آپریشن کی جگہ سے نمونے اکٹھے کیے گئے ہیں اور لیب بھیجے گئے ہیں۔’
دراصل کچھ مریضوں کی آنکھوں میں مبینہ طور پر انفیکشن اتنا شدید تھا کہ مظفر پور کے شری کرشنا میڈیکل کالج کے ڈاکٹروں نے انہیں آنکھیں نکلوانے کی صلاح دی۔ ان میں سے کچھ متاثرہ لوگوں کا ابھی بھی علاج چل رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق،اکثر مریض مظفر پور اور ملحقہ ضلعوں کے ہیں اور غریبی میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، سرجری کرانے والے مریضوں کی اصل تعداد250 تک ہو سکتی ہے۔ حالانکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سرجری کرنے والے سرجن پوری طرح سے آلات سے لیس تھے۔
مظفر پور کی ضلع انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ سرجری کی وجہ سے ہونے والی پیچیدگیوں سے جوجھ رہے سبھی مریضوں کو پٹنہ کے میڈیکل کالجوں کے جدید مراکز میں ریفر کیا گیا ہے، جہاں ان کا مفت علاج کیا جائےگا۔
ضلع انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے، مثلاً جن مریضوں کی آنکھیں نکالنی پڑی ہیں، انہیں مناسب معاوضہ دیا جائےگا۔ ابھی معاوضے کی رقم طے نہیں کی گئی ہے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)