مشرقی چمپارن ضلع کے مہسی تھانہ حلقہ کے ایک نوجوان محمد اجرائیل کا الزام ہے کہ دو جون کو پڑوس کے ایک گاؤں میں اپنے دوست سے ملنے جانے کے دوران ایک گروپ نے انہیں روک کر جئے شری رام کا نعرہ لگانے کو کہا۔ ایسا نہ کرنے پر گا لی گلوچ کرتے ہوئے بری طرح مارپیٹ کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ حملہ آور بجرنگ دل کے لوگ ہیں۔
بہار کے مشرقی چمپارن ضلع میں ایک مسلم نوجوان کو مبینہ طور پر دھمکی دی گئی اور جئے شری رام کا نعرہ نہیں لگانے پر بے رحمی سے پیٹا گیا۔ضلع کے مہسی تھانہ حلقہ کے مین مہسی بہادرپور کے 18 سالہ محمد اجرائیل کے اہل خانہ نے 4 جون کو مہسی تھانے میں تحریری درخواست دےکر کہا ہے کہ وہ اپنے دوست سے ملنے جا رہا تھا، تبھی راستے میں ایک درجن سے زیادہ لوگوں نے اسے گھیر لیا اور دھمکاتے ہوئے جئے شری رام کا نعرہ لگانے کو کہا۔
یہ واقعہ 2 جون کی دوپہر کی ہے۔ دخواست میں محمداجرائیل نے لکھا ہے، ‘2 جون کی دوپہر قریب 2.30 بجے وہ اپنے گھر سے اپنی موٹر سائیکل سے بتھنا گاؤں میں رہنے والے اپنے دوست معراج سے ملنے جا رہا تھا۔ مداری چک کی بغل سے جو سڑک جاتی ہے، وہاں ایک مندر کے قریب 10-15 کی تعداد میں لوگ گھات لگائے بیٹھے تھے۔’
درخواست میں ایک ملزم کے نام (چونکہ درخواست میں ملزمین کی عمر کا ذکر نہیں ہے، اس لیے اس کا نام نہیں لکھا جا رہا ہے)کا ذکر کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ اس نے اجرائیل سے کہا، ‘اے میاں ٭٭٭ تم ادھر کہاں آ رہا ہے۔ تم جانتا نہیں ہے کہ بتھنا میں میاں ٭٭٭ سب کو جانا منع ہے۔ کچھ دن پہلے ہی تو بتھنا کے میاں سب کو گھر میں گھساگھساکر مارے تھے، اس کے باوجود بھی تم ٭٭٭ میرے گاؤں میں جا رہا ہے۔’
اتنا کہنے کے ساتھ ہی سب اجرائیل پر ٹوٹ پڑے۔ اجرائیل نے درخواست میں لکھا ہے، ‘وہ لوگ کہنے لگے کہ تم جئے شری رام بولو… نہیں بولوگے، تو یہیں پر کاٹ دیں گے۔ میرے جئے شری رام نہیں بولنے پر وہ لوگ مجھے بری طرح مارنے لگے۔’درخواست کی کاپی مہسی تھانے میں جمع کر دی گئی ہے، لیکن متاثرہ کے اہل خانہ کو ابھی تک ایف آئی آر کی کاپی نہیں ملی ہے۔ مہسی تھانے کے انچارج اونیش کمار نے د ی وائر کو بتایا کہ ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔
اجرائیل کے مطابق، ان سبھی لوگوں کے ہاتھوں میں لاٹھی، ڈنڈے اور دھاردار ہتھیار تھے۔ زخمی اجرائیل نے اسپتال سے د ی وائر کو فون پر بتایا، ‘حملہ آوروں نے سر، کان کے پاس اور گردن پر چاقو سے وار کیا۔ ان لوگوں نے گمچھا سے منھ ڈھک دیا تھا اور کسی وزن دار چیز سے سر پر بھی زوردار وار کیا تھا۔’
اجرائیل کے بھائی محمد طاہر نے دی وائر کو بتایا کہ دوپہر کو وہ دوست سے ملنے گیا تھا، لیکن کافی دیر تک اس کی کوئی خبر نہیں آئی۔ بعد میں معراج سے خبر ملی کہ اسے بےرحمی سے پیٹا گیا اور مرا سمجھ کر جھاڑی میں پھینک دیا گیا تھا۔طاہر نے بتایا،‘دراصل جہاں اس پر جان لیوا حملہ ہوا تھا، وہاں سے معراج کا گھر قریب ہے۔ اجرائیل کافی دیر تک بےہوش تھا۔ جب ہوش آیا تو اس نے معراج کو فون لگایا کیونکہ اس کا گھر نزدیک تھا۔ معراج اور اس کے کچھ دوست فوراًموقع پر پہنچے اور اجرائیل کو مہسی اسپتال لے گئے۔ اس کے بعد مجھے فون کر کےانہوں نے اس کے بارے میں بتایا، تو ہم لوگ اسپتال گئے۔’
مہسی اسپتال سے اجرائیل کو بہتر علاج کے لیے مظفر پور کے سرکاری اسپتال میں ریفر کر دیا گیا۔ مظفر پور میں کچھ وقت علاج کرانے کے بعد اجرائیل کو مشرقی چمپارن کے ہی نجی اسپتال میں بھرتی کرا دیا گیا۔ فی الحال اس کا علاج چمپارن کے نجی اسپتال میں چل رہا ہے۔
جس دن واقعہ ہوا تھا، اسی دن اجرائیل کے گھروالے تھانے میں گئے تھے، تو تھانے کے پولیس حکام نے متاثرہ کا بیان لکھواکر درخواست دینے کو کہا تھا۔طاہر کہتے ہیں،‘پولیس نے کہا کہ متاثرہ شخص کا بیان لکھ کر درخواست کرنے پر وہ لوگ ایف آئی آر درج کر کےجانچ کریں گے، اس لیے تھانے میں درخواست دینے میں دو دن لگ گئے۔’
اجرائیل گاؤں میں رہ کر کام کرتے ہیں جبکہ طاہر اور اجرائیل کے ایک دوسرے بھائی پنجاب میں رہتے تھے، جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے15 دن پہلے ہی نجی بس بھاڑے پر لےکر گاؤں لوٹے ہیں۔طاہر کہتے ہیں،‘لاک ڈاؤن لگنے سے 15 دن پہلے ہی ہم لوگ پنجاب گئے تھے۔ کمائی بھی نہیں ہو پائی تھی کہ لاک ڈاؤن ہو گیا تھا۔ قرض لےکر کھانا پڑا۔ کمرے کا مالک بھی کرایہ کے لیے پریشان کرنے لگا، جب حالات اور بدتر ہونے لگے، تو گاؤں سے پیسہ منگوایا اور بس کرایہ کرکے ہم لوگ آ گئے۔ میرے ایک بڑے بھائی گجرات میں رہتے ہیں۔ وہ اب بھی وہیں پھنسے ہوئے ہیں۔’
اجرائیل اور طاہر آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین سے جڑے ہوئے ہیں۔ حالانکہ اس حملے کی وجہ اجرائیل کے گھر والےاور خود اجرائیل اب تک نہیں سمجھ پائے ہیں۔ طاہر سے جب پوچھا گیا کہ کیا اجرائیل کا ان لوگوں سے کبھی جھگڑا ہوا تھا، تو انہوں نے صاف طور پر کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔
انہوں نے کہا، ‘اگر کسی کے ساتھ جھگڑا ہوا ہوتا، تو مجھے ضرور بتاتا، لیکن اجرائیل نے کبھی مجھے نہیں بتایا کہ کسی کے ساتھ اس کا جھگڑا جھمیلا ہوا تھا۔’البتہ یہ ضرور ہے کہ اجرائیل نے حملہ آوروں میں سے 7 کی شناخت کی ہے اور درخواست میں انہیں نامزد کیا ہے۔ نامزد املزمین بتھنا، قصبہ مہسی اور رام پوربا کے رہنے والے ہیں۔
ملزمین سے کبھی کوئی جھگڑا نہیں ہوا تھا اور وہ اجرائیل کے گاؤں کے تھے بھی نہیں، پھر اس نے انہیں کیسے پہچان لیا، اس سوال پر اجرائیل نے د ی وائر کو بتایا، ‘وہ لوگ آس پاس کے ہی رہنے والے ہیں۔ کچھ دن پہلے بتھنا میں مسلمانوں پر حملہ ہوا تھا اور ایک مسجد کو بھی نشانا بنایا گیا تھا، تو ہم لوگ بتھنا گاؤں میں گئے تھے۔ وہاں یہ لوگ موجود تھے، اس لیے انہیں پہچان گیا تھا۔’
اجرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ نامزد ملزمین ہندوتوادی تنظیم بجرنگ دل سے جڑے ہوئے ہیں۔ بجرنگ دل کی مہسی اکائی کے کنوینر اویناش سنگھ سے دی وائر نے بات کی، تو انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں بجرنگ دل کے کارکنوں کو پھنسایا جا رہا ہے۔اویناش سنگھ نے پہلے تو کہا کہ جن لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے، وہ معاملے میں شامل ہی نہیں تھے، پھر انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر واقعہ ہوا بھی ہوگا، تو ذاتی دشمنی کو لےکر ہوا ہوگا، اس کومذہب سے نہیں جوڑا جانا چاہیے۔اویناش سنگھ نے کہا، ‘مسلم کمیونٹی اکثر بجرنگ دل کو نشانہ بناتی ہے۔ اس معاملے میں بھی سیاست کی جا رہی ہے اور اے آئی ایم آئی ایم ان کے ساتھ ملا ہوا ہے۔’
اویناش نے یہ بھی کہا کہ معاملے کو مذہبی رنگ دےکر علاقے میں بھائی چارے کو بگاڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن، اویناش کا فیس بک پوسٹ کچھ اور ہی کہانی کہتاہے۔گزشتہ 20 اپریل کو اویناش سنگھ نے فیس بک پوسٹ میں لکھا، ‘میں پہلے نفرت کرتا تھا مسلمان سے لیکن اب ‘گھرنا’ ہو گئی ہے۔ ہمیشہ یہ لوگ ہندوؤں کو ٹارگیٹ کیا ہے۔ ہر جگہ کہیں اکیلے پکڑے جاؤگے، تو یہ دوغلے لوگ تمہیں بنا مارے چھوڑیں گے نہیں۔’
اویناش سے جب اس پوسٹ کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا، ‘بھائی چارا ٹھیک ہے، لیکن وہ مسلمان کو بھائی نہیں بنا سکتا کیونکہ جس گائے کو ہم ماں مان کر پوجا کرتے ہیں، اسے ہی کاٹتے ہیں۔’اویناش نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر پولیس بجرنگ دل کے کارکنوں کو بناوجہ گرفتار کرتی ہے، تو تحریک کی جائےگی۔
تھانہ انچارج اونیش کمار نے بتایا کہ ابھی تک کسی کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘چھان بین چل رہی ہے۔ کئی اور چیزیں سامنے آئی ہیں، جنہیں ابھی عوامی نہیں کیا جا سکتا ہے۔’
(مضمون نگارآزاد صحافی ہیں۔)