ذات کا تعارف: بہار میں کرائے گئے ذات پر مبنی سروے میں مذکور ذاتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے مقصد سے دی وائر نے ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ تیسرا حصہ مڈریا ذات کے بارے میں ہے۔
(علامتی تصویر: منوج سنگھ/دی وائر)
ذات پات کا نظام آسمان پر وجود میں نہیں آیا، اور یہ بھی ہے کہ انسانوں کے درمیان تفریق کرنے کو کسی خدا نے نہیں کہا۔ اس باب میں شواہد کا فقدان نہیں ہے، لیکن تازہ ترین ثبوت مڈریا ذات ہے۔ ایک ایسی ذات جو برٹش دور میں وجود میں آئی اور وہ بھی 1857 کے بعد۔
یہ ذات صرف بہار اور جھارکھنڈ کے سرحدی اضلاع میں موجود ہے۔
دراصل ان کی کہانی بہت پرانی نہیں ہے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اس کو تاریخ میں کہیں منظم طریقے سے درج کیا گیا ہے۔ ماہرین نسلیات نے تو کبھی ان پرتوجہ ہی نہیں کی۔ ماہرینِ سماجیات کے لیے بھی وہ محض مڈریا ہی رہے۔ ایک ایسی ذات، جس کے لوگ اس وقت بہار کے دو اضلاع بھاگلپور اور بانکا کے سنہولا اور دھوریا بلاک میں آباد ہیں۔ لیکن یہ کون ہیں اور انہیں مڈریا کیوں کہا گیا؟
ان دو سوالوں سے پہلے ایک سوال یہ بھی ہے کہ یہ لوگ کرتے کیا ہیں؟ یا پھر ان کا روایتی پیشہ کیا ہے؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ لوگ بنیادی طور پر کھیتی باڑی کرتے رہے ہیں۔ اکثر کے پاس برائے نام زمین ہے۔ مطلب بس اتنی کہ 3 سے 6 ماہ کے لیے دانا اور پانی کا انتظام ہو جاتا ہے۔ باقی مہینوں کے لیے انہیں مزدوری کرنی پڑتی ہے اور وہ کوئی بھی کام کرنے کو تیار رہتے ہیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ ہندو ہیں یا مسلمان؟ آپ یہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اگر یہ ہندو ہیں تو کیا وہ ‘اچھوت’ ہیں؟ اگر آپ کے ذہن میں ایسے سوال ہیں تو مجھے حیرت نہیں ہوگی۔ میں نے کہا کہ ذات پات کا نظام آسمان پر وجود میں نہیں آیا۔ جو کچھ ہوا، وہ اسی زمین پر ہوا ہے۔
زمین کے باشندوں نے اپنے لیے مذہب بنائے اور شناخت کے لیے ذات پات کا نظام ۔ مثال کے طور پر اگر کوئی گائے اور بھینسیں پالتا ہے تو وہ گوالا یا یادو ہے، اگر کوئی چمڑے سے آرام دہ جوتے اور دیگر سامان بناتا ہے تو وہ کفش دوز (چمار) ہے، اگر کوئی حجامت کرتا ہے تو وہ نائی یا حجام ہے، اگر کوئی دوسروں کے گندے کپڑے دھو تا ہے تو وہ دھوبی ہے اور اگر کوئی دھان کی کھیتی کرتا ہے تو وہ دھانک ہے۔
ہاں، مڈریا ذات کے لوگ بنیادی طور پر دھانک ہی ہیں۔ مڈریا مسلمان اور دھانک ہندو۔ بہار کے دھانک اب پہلے جیسے دھانک نہیں رہے جو اپنے نام کے ساتھ منڈل لکھتے ہیں۔ اب وہ اپنے آپ کو گنگا کے جنوب میں رہنے والے کرمی ذات کے برابر سمجھتے ہیں۔
تاہم یہ بات تحقیق طلب ہے کہ پٹنہ، نالندہ، جہان آباد، گیا، نوادہ وغیرہ اضلاع میں رہنے والے کرمیوں کے پاس کاشت کی بڑی زمینیں ہیں، جبکہ گنگا کے اس علاقے میں جہاں گنگا ریاستی حدود سے باہر جاتی ہے، وہاں دھانکوں کے پاس کم زمینیں کیوں ہیں؟ اور کیا ان کے درمیان کوئی تعلق ہے یا پھر یہ ایک سیاسی پروپیگنڈہ ہے؟
دراصل، دھانکوں، جن کی آبادی بہارسرکاری کی جانب سے کرائی گئی ذات پر مبنی مردم شماری-2022 کی رپورٹ کے مطابق 27 لاکھ 96 ہزار 605 ہے۔ شمالی بہار میں اس ذات کی موجودگی وسیع پیمانے پر دیکھی جا سکتی ہے۔ جبکہ بہار حکومت کی رپورٹ کے مطابق ریاست میں کرمیوں کی کل آبادی 37 لاکھ 62 ہزار 969 ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اس میں مڈریا ذات کی آبادی بھی شامل کر سکتے ہیں – 86 ہزار 665۔ اس طرح مجموعی آبادی بنتی ہے – 66 لاکھ 46 ہزار 239۔
اس اعداد و شمار کے سیاسی مضمرات پر آنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ مڈریا ذات کے لوگوں نے اسلام کیوں قبول کیا؟ کیا ان پر کوئی دباؤ تھا؟ کیا کسی مسلمان حکمران نے ان پر ظلم کیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نےایسا کیا؟
ان سوالوں کے جواب سننے سے پہلے اپنے ذہن میں یہ بات رکھیں کہ یہ ذات وکٹورین دور میں وجود میں آئی تھی۔ یعنی 1857 کے بعد۔ اس وقت بہار کے جس حصے میں اس ذات کے لوگ رہتے ہیں وہاں کسی مسلمان حکمران کا کوئی خوف نہیں تھا۔ ہاں پیر فقیروں کا اثر ضرور تھا۔ اس کا اثر اس قدر تھا کہ گنگا کے کنارے واقع صنعتی شہر بھاگلپور جو کبھی ریشم کے کپڑوں کے لیے مشہور تھا، اس نام ہی ایک پیر کے نام پر ہے۔ اس پیر کا نام تھا بھگلو میاں۔ آج بھی اس پیر کی مزار بھاگلپور شہر کے وسط میں موجود ہے۔
تو یہ بات واضح ہے کہ جب انہوں نے جب اسلام قبول کیا تو اس کے پیچھے ان کا اپنا شعور تھا اور ممکن ہے کہ انہوں نے پیر فقیروں سے یہ جانا ہو کہ اسلام میں ہندومت کی طرح ذات پات کاکوئی نظام نہیں ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ ان کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہو گا۔ انہوں نے اسلام قبول کیا، لیکن ایک ہندو کے طور پر ان کی ذات طویل عرصے تک ان سے جڑی رہی اور یہی وجہ رہی کہ انہوں نے اپنے نام کے ساتھ منڈل کو جوڑے رکھا۔ آج بھی ان لوگوں کے اراضی کے ڈیڈس (دستاویز) میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح اس ذات کے لوگ اپنے آپ کو سلیمان منڈل یا رحیم منڈل یا اشفاق منڈل کہتے تھے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بعد کے زمانے میں اسلام کے بارے میں ان کی سمجھ میں وسعت آئی اور انہوں نے ایک ہندو کے طور پر اپنی شناخت ختم کر دی۔ لیکن پھر بھی انہیں اس مخمصے کا سامنا تھا کہ وہ خود کو کیا کہہ سکتے تھے؟ وہ اپنے آپ کو اشراف (سید، شیخ یا پٹھان) تونہیں کہہ سکتے تھے۔ نہ ہی وہ قریشی (قصاب) یا لال بیگی-ہلال خور (مسلم ڈوم) کی طرح تھے۔
ہوا یہ ہوگا کہ کچھ عرصے بعد انہوں نے اپنے لیے مختلف قسم کے کنیت رکھ لیے ہوں گے۔ لوگوں نے احتجاج کیا ہوگا تو ایک نسل کے بعد دوسری نسل کو اسے بدلنا پڑا ہوگا۔
صورتحال میں تبدیلی اس وقت آئی جب یہ ملک آزاد ہوا اور ریزرویشن کا سوال سامنےآیا۔ مڈریا برادری کے لوگوں نے مان لیا کہ وہ دھانک نہیں ہیں اور نہ ہی اشراف مسلمانوں کی طرح ہیں۔ وہ یا تو بے زمین ہیں یا بہت کم زمین رکھنے والے کسان ہیں، جن کی سماجی حیثیت بھی ویسی ہی ہے۔
درحقیقت اس ملک میں سماجی حیثیت زمین پر حقوق کے متناسب ہے۔ یعنی جس کے پاس جتنی زمین ہے اس کی اتنی حیثیت۔ اب ان کے پاس زمینیں کم ہیں تو ان کی حیثیت بھی کم ہے۔
خیر، منڈل کمیشن کے نفاذ سے پہلے جب 1978 میں بہار میں مونگیری لال کمیشن کی سفارشات کو نافذ کیا گیا تھا، تو مڈریا کے لوگوں کو بھی ریزرویشن کا حقدار قرار دیا گیا تھا اور انہیں یادو، کرمی، کشواہا کوئری وغیرہ کے زمرے میں رکھا گیا تھا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ بعد میں جب نتیش کمار کی حکومت آئی تو اس ذات کے لوگوں کو انتہائی پسماندہ کی فہرست میں ڈال دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ اس کے سیاسی مضمرات بھی تھے اور وہ تھالالو پرساد کے ووٹ بینک کو توڑنا۔
لیکن سیاست سے قطع نظر مڈریا آج بھی لہلاتے دھان کے کھیتوں میں موجود ہے۔ اب یقیناً اس ذات کے لوگوں نے کچھ اور پیشہ بھی اختیار کر لیا ہے، کیونکہ کھیتی باڑی منافع بخش نہیں رہی۔ اور دوسری بات یہ کہ آبادی میں اضافہ ہوا ہے اور کھیتوں کا حجم وہی ہے۔
جھارکھنڈ بننے کے بعد حالات مزیدخراب ہوئے ہیں۔ پہلے مڈرا ذات کی ایک بڑی آبادی ہوتی تھی جس کی وجہ سے انتخابات میں ان کی اہمیت تھی۔ تاہم اس کی اہمیت آج بھی کم نہیں ہے۔ کم از کم بھاگلپور کے سنہولہ اور بانکا کے دھوریا میں، جہاں جیت اور ہار کا فیصلہ اسی ذات کے لوگ کرتے ہیں۔