بہارمیں ذات پر مبنی مردم شماری کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرنے کا عمل 6 اگست کو مکمل ہو چکا ہے۔ پرائیویسی کے حق کا حوالہ دیتے ہوئے درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا تھا کہ پبلک ڈومین میں ڈیٹا جاری یا اپ لوڈ کرنے پر پابندی عائد کی جائے۔ عدالت نے اس سے انکار کر دیا۔
سپریم کورٹ (فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بہار سے متعلق ذات پر مبنی مردم شماری پر روک لگانے سے
انکار کر دیا ہے اور عرضی گزاروں کی اس دلیل کو بھی مسترد کر دیاکہ اس سے شہریوں کے پرائیویسی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
چونکہ ڈیٹا اکٹھا کرنے کا کام6 اگست کو مکمل ہو گیا تھا، اس لیے اس کی مخالفت کرنے والے عرضی گزاروں نے سپریم کورٹ سے پبلک ڈومین میں ڈیٹا کو جاری کرنے یا اپ لوڈ کرنے پر روک لگانے کا حکم دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم عدالت نے ان کی درخواست مسترد کر دی۔
دی ہندو کے مطابق، جسٹس سنجیو کھنہ نے کہا، ‘جب کسی سے اس کی کاسٹ یا سب–کاسٹ بتانے کے لیے کہا جاتا ہے توپرائیویسی کا حق کیسے متاثر ہوتا ہے؟ وہ شخصی ڈیٹا عوام کے لیے جاری نہیں کیا جاتا ہے… جو جاری کیا جاتا ہے وہ مجموعی اعداد و شمار ہوتے ہیں۔
تاہم، این جی او یوتھ فار ایکولیٹی کی طرف سے پیش ہوئےسینئر ایڈوکیٹ سی ایس ویدھ یا ناتھن نے کہا کہ سروے کے نام پر لوگوں کو ‘اپنی کاسٹ ظاہر کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا’۔
اس پر جسٹس کھنہ نے کہا، ‘آپ کی کاسٹ آپ کے پڑوسیوں کو معلوم ہے… سروے میں پوچھے گئے 17 سوالوں میں سے کون سا پرائیویسی کی خلاف ورزی ہے؟’
ویدھ یا ناتھن نے تب دلیل دی کہ ذات، مذہب اور شخصی آمدنی سے متعلق سوالات کی فہرست میں صرف ‘آدھار’ سے متعلق معلومات رضاکارانہ تھیں اور کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سروے کے تحت اپنی کاسٹ کو ظاہر کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے اور یہ ‘آج کی سوچ’ نہیں ہے۔
جسٹس کھنہ نے اس بات سے انکار کیا کہ اس میں جبر کا کوئی عنصر موجود ہے۔ سروے کی حمایت میں، انہوں نے کہا، اگر کوئی شخص اسے نہ بھرنے کا انتخاب کرتا ہے تو اس میں اس سےکوئی جرمانہ لینا شامل نہیں ہے۔’
درخواست گزار کے وکیل نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ سروے گزشتہ سال 6 جون کو منظور کیے گئے واحد ایگزیکٹو آرڈر کی بنیاد پر کیا گیا تھا، لیکن قانونی حمایت کے ساتھ نہیں۔ ان کے مطابق، اس طرح کے سروے – جو پرائیویسی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کرتے ہیں – کی ایک قانونی بنیاد ہونی چاہیے اور اس کے لیے پولیٹیکل ایگزیکٹو کا ایڈمنسٹریٹو آرڈرکافی نہیں ہوگا۔
انہوں نے دلیل دی کہ ‘کسی ایڈمنسٹریٹو آرڈر کی بنیاد پر بنیادی حق کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی۔’
تاہم، بہار حکومت کی طرف سے پیش ہوئے ایڈوکیٹ شیام دیوان نے درخواست گزاروں کے دلائل کو مسترد کر دیا اور انہیں ‘پوری طرح سےسیاست سے مٹاثر’ قرار دیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سروے 6 اگست کو ہی مکمل ہو چکا ہے۔
دیوان نے کہا، ‘یہ ایک سماجی سروے ہے۔ اس سے حاصل ہونے والی معلومات کا تجزیہ کیا جائے گا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ سروے سے حاصل ہونے والی معلومات سے بہار حکومت کو فلاحی پروگراموں کی فراہمی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے یہ بھی یقین دلایا کہ شخصی ڈیٹا کو محفوظ رکھا جائے گا۔
عدالت نے ایک اور درخواست گزار کی درخواست کو بھی مسترد کر دیا،جس نے پبلک ڈومین میں ڈیٹا کو اپ لوڈ کرنے/جاری کرنے پر روک لگانے کی مانگ کی تھی۔
عدالت نے کہا، ‘جب تک ہمیں پہلی نظر میں یقین نہ ہو کہ اس کی ضرورت ہے، ہم کسی بھی چیز پر پابندی نہیں لگائیں گے… ہائی کورٹ کا فیصلہ پہلے ہی ریاست کے حق میں آ چکا ہے۔ سروے مکمل ہو گیا ہے۔ ڈیٹا عوامی طور پر دستیاب ہوگا۔’
عدالت نے درخواست گزاروں کی اس دلیل کو بھی مسترد کر دیا کہ بہار حکومت کو ایسا سروے کرنے کا حق نہیں ہے، کیونکہ مردم شماری کرانے کا اختیار صرف مرکزی حکومت کے پاس ہے۔
واضح ہو کہ بہار میں ذات پر مبنی سروے کے
پہلے دور کا اہتمام جنوری میں 7 سے 21 جنوری تک کیا گیا تھا۔ دوسرا دور 15 اپریل کو شروع ہوا اور ایک ماہ تک جاری رہنے والا تھا۔ تاہم، 4 مئی کو، پٹنہ ہائی کورٹ نے بہار حکومت کو ذات پر مبنی سروے کو
فوری طور پر روک دینے اور اس بات کو یقینی بنانے کی ہدایت کی کہ پہلے سے جمع کیے گئے ڈیٹا کو کسی کے ساتھ شیئر نہ کیا جائے جب تک کہ کوئی حتمی فیصلہ نہ دیا جائے۔ بعد میں اسی عدالت نے اس کی اجازت دے دی۔
اس مشق کے پیچھے بہار کی نتیش حکومت کا استدلال یہ ہے کہ سماجی و اقتصادی حالات پر تفصیلی معلومات سے پسماندہ گروہوں کی مدد کے لیے بہتر حکومتی پالیسی بنانے میں مدد ملے گی۔
ذات پر مبنی مردم شماری حالیہ مہینوں میں ایک بڑی سیاسی تشویش بن گئی ہے، حزب اختلاف کی جماعتیں مرکزی حکومت پر قومی بنیادوں پراس مشق کو شروع کرنے کے لیے دباؤ بنارہی ہیں۔