واقعہ سیوان ضلع کا ہے۔ الزام ہے کہ جمعرات کو مہاویری اکھاڑہ کے جلوس کے دوران ایک مسجد کے قریب فرقہ وارانہ نعرے لگائے گئے، جس کے بعد دو گروپوں کے درمیان پتھراؤ ہوا اور ایک دکان کو آگ لگا دی گئی۔
واقعے کے بعد سامنے آئے ایک ویڈیو میں کچھ لوگ لاٹھیوں سے گھروں میں توڑ پھوڑ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ (اسکرین گریب کریڈٹ: ٹوئٹر)
نئی دہلی: بہار کے سیوان ضلع میں جمعرات کو مہاویری اکھاڑہ کے جلوس میں فرقہ وارانہ تصادم کے بعد پولیس نے
ایک 70 سالہ شخص اور ایک نابالغ کو گرفتار کیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ جب جلوس ایک مسجد کے قریب سے نکل رہا تھا تب اس میں شامل بھگوا دھاری اور لاٹھی لیےلوگوں نے فرقہ وارانہ نعرے لگائے۔ الزام ہے کہ اس کی وجہ سے بڑہریا تھانہ حلقہ کے پرانے بازار میں پتھراؤ ہوا۔
مقامی میڈیا کے مطابق اس دوران ایک گمٹی کو بھی آگ لگا دی گئی۔
دی وائر کو ملے ویڈیو میں ہندوتوا کارکن پتھراؤ کرتے اور مسلمانوں کے گھروں میں توڑ پھوڑ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان کا تعلق کس تنظیم یا گروہ سے ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق،معاملے کے سلسلے میں گرفتار کیے گئے بزرگ شخص اور نابالغ کو تاحال رہا نہیں کیا گیا ہے۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق، سیوان پولیس نے 35 لوگوں میں- 25 مسلمانوں اور 10 ہندوؤں- کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے اور 20 لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔
دی وائر کے ذریعہ حاصل کردہ ایف آئی آر میں تعزیرات ہند کی دفعہ 147 (فساد)، 148 (مہلک ہتھیاروں سے فساد)، 149 (غیر قانونی طور پر جمع ہونے)، 188 (حکم کی نافرمانی)، 296 (مذہبی اجتماع میں خلل ڈالنا)، 337 (چوٹ پہنچانا)، 338 (شدید چوٹ پہنچانا)، 505 (امن کی خلاف ورزی کے ارادے سے جان بوجھ کر توہین کرنا)، 307 (قتل کی کوشش)، 353 (حملہ، مجرمانہ طور پرطاقت کا استعمال) اور 120بی (مجرمانہ سازش کا پہلو) سمیت کچھ دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے ایک مقامی شخص فاروق (بدلا ہوا نام)نے بتایا، مہاویری اکھاڑے کا جلوس جمعرات کی شام عصر کی نماز کے وقت مسجد کے قریب سے گزر رہا تھا۔ اس میں شامل لوگوں نے اپنے ہاتھوں میں لاٹھیاں اٹھا رکھی تھیں اور وہ فرقہ وارانہ نعرے لگا رہے تھے۔ مسجد کے ساتھ ساتھ قریبی دکانوں میں لاٹھیوں سے توڑ پھوڑ کی گئی۔ اس کے بعد دونوں طرف سے پتھراؤ شروع ہو گئے۔
انہوں نے مزید کہا، دراصل یہ انتظامیہ کی ناکامی ہے، یہ علاقہ ہمیشہ سے حساس رہا ہے۔ مہاویری اکھاڑے کی شوبھا یاترا چار دن پہلے شروع ہوئی تھی، لیکن تب ہمیشہ پولیس تعینات تھی، اس لیے ایسا کچھ نہیں ہوا۔ چونکہ یہ علاقہ فرقہ وارانہ طور پر حساس ہے اس لیے علاقے کے مسلمانوں نے پولیس سے سیکورٹی بڑھانے کے لیے کہا تھا، لیکن تین جونیئر پولیس اہلکار تعینات کیے گئے۔
ان کا کہنا ہے کہ پولیس نے بے گناہ لوگوں کو گرفتار کیا ہے جو صرف مسجد میں نماز پڑھنے آئے تھے۔
گرفتار کیے گئے بزرگ اور نابالغ کے اہل خانہ کا بھی کہنا ہے کہ وہ بے قصور ہیں اور ان کا اس تصادم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
دی وائر نے سیوان کے ایس پی شیلیش کمار سنہا سے رابطہ کیا، لیکن انہوں نے اس بارے میں کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
اس کیس کے شکایت کنندہ اور مجسٹریٹ پریم چند نے دی وائر کو بتایا،مجھے ایک دن کے لیے علاقے کا مجسٹریٹ بنایا گیا تھا، اس لیے میں نے شکایت درج کروائی۔ مسجد کے سامنے جلوس پر پتھراؤ کیا گیا اور یہ اس وقت بھی ہوا جب وہ وہاں سے پرانے بازار پہنچے۔ اس کے بعد ماحول کشیدہ ہوگیا تو انتظامیہ نے صورتحال کو سنبھال لیا۔ اس پتھراؤ کے دوران ایک دکان کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
فاروق نےبتایا کہ اس واقعے کے بعد پولیس نے علاقے میں امن وامان کو یقینی بنانے کے لیے دونوں برادریوں کے درمیان ایک میٹنگ کا اہتمام کیا تھا، لیکن ماحول اب بھی کشیدہ ہے۔ وہ کہتے ہیں،لوگ انتظامیہ کے خلاف آواز اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔ واقعے سے متاثرہ افراد سسٹم کے دباؤ میں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انہیں خاموش رہنے کا کہا گیا ہے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)