عبدالجبار 1984 کی گیس ٹریجڈی کی متاثرہ خواتین کی تنظیم سے وابستہ تھے اور ان کو حق دلانے کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ ان کے بائیں پیر میں گینگرین تھا، جس کے علاج میں وہ معاشی بحران کی حالت میں پہنچ گئے تھے۔
نئی دہلی : بھوپال گیس ٹریجڈی کے متاثرین کو انصاف دلانے کے لیے جدوجہد کرنے والے سماجی کارکن عبدالجبارکا جمعرات کو طویل علالت کے بعد انتقال ہو گیا۔ وہ بھوپال گیس متاثرین کے حق میں کام کرنے والی ایک تنظیم کے کنوینر تھے۔ علاج کے لیے انہیں بھوپال کے ہاسپٹل میں داخل کرایا گیا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ ایک دن پہلے ہی مدھیہ پردیش سرکار نے ان کے علاج کا خرچ اٹھا نے کا اعلان کیا تھا۔ان کی تنظیم تقریباً تین دہائیوں سے گیس ٹریجڈی کے متاثرین لیے کام کر رہا ہے۔
عبدالجبار نے اس گیس ٹریجڈی میں اپنے والدین کو کھو دیا تھا۔ ان کے پھیپھڑوں اور آنکھوں پر بھی اس کا شدید اثر ہوا تھا۔ انہیں ایک آنکھ سے بے حد کم دکھائی دیتا تھا۔ واضح ہوکہ کہ 2 دسمبر 1984 کی رات بھوپال کی یونین کاربائیڈ کی فیکٹری سے زہریلی میتھائل آئسوسائینیٹ گیس لیک ہوئی تھی جس نے ہزاروں لوگوں کی جان لے لی۔ بھوپال میں اس ٹریجڈی کے نشان اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ تباہی ایسی تھی کہ ہوا جس جانب بھی بہتی تھی لوگوں کی موت ہوتی چلی جاتی تھی۔ کچھ ہی گھنٹوں میں وہاں تین ہزار لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔
لوگوں کا ماننا ہے کہ وہاں تقریباً 10 ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ اس ٹریجڈی کا اثر اب بھی نظر آتا ہے۔ اس ٹریجڈی کے بعد عبدالجبار آگے آئے اور وہ متاثرین کی آواز بنے۔ اپنے این جی او کے ذریعے وہ متاثرین کے اہل خانہ کی مدد کرتے تھے اور ان کے مسائل کو سرکار تک پہنچانے کا بھی کام کرتے تھے۔ دینک بھاسکر کی ایک رپورٹ کے مطابق، بھوپال گیس ٹریجڈی کے حق کی لڑائی لڑنے والے عبدالجبار کا جمعرات کی رات تقریباً 10:15 بجے انتقال ہو گیا۔طویل عرصے سے علیل جبار کا گزشتہ کچھ دنوں سے ایک نجی ہاسپٹل میں علاج چل رہا تھا۔ اس سے قبل دوپہر میں سابق وزیر اعلیٰ دگ وجئے سنگھ نے ہاسپٹل پہنچ کر ان کی صحت کی جانکاری لی تھی۔ بعد میں دگ وجئے نے ان کے اہل خانہ کو بھروسہ دلایا تھا کہ سرکار علاج کا پورا خرچ اٹھائے گی۔
شام کو ریاست کے وزیر اعلیٰ کمل ناتھ نے بھی ٹوئٹ کر کے عبدالجبار کو علاج کے لیے ممبئی بھیجنے کی بات کہی تھی۔ اس کے بعد چیف سکریٹری ایس آر موہنتی ان کو دیکھنے ہاسپٹل پہنچے تھے۔ ان کا علاج کر رہے ڈاکٹر عباس نے بتایا کہ جبار ہارٹ کے مریض تھے۔ ان کو شوگر بھی تھا۔ جمعرات کی رات 9 اور 10 بجے انہیں دو بار دل کا دورہ پڑا، جس سے ان کی موت ہو گئی ۔غور طلب ہے کہ یادگار شاہجہانی پارک پر ہو رہے تجاوزات کے خلاف بھی انہوں نے لمبی لڑائی لڑی تھی۔
عبدالجبار 1984 کی گیس ٹریجڈی کی متاثرہ خواتین کی تنظیم سے وابستہ تھے اور ان کو حق دلانے کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔ ان کے بائیں پیر میں گینگرین تھا، جس کے علاج میں وہ معاشی بحران کی حالت میں پہنچ گئے تھے۔ کچھ سماجی کارکنوں اور دوستوں نے ان کے علاج کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر مہم بھی چلا رکھی تھی۔ پتر یکا کی ایک خبر کے مطابق، عبدالجبار کے اہل خانہ نے جانکاری دی کہ ان کو گینگرین ہو گیا تھا۔ اس کی وجہ سے پیروں کی انگلیاں بھی خراب ہو گئی تھیں۔
گھر والوں نے ان کو 2 مہینے پہلے کملا نہرو ہاسپٹل میں داخل کرایا تھا۔ جہاں ڈاکٹروں نے ان کی انگلیاں کاٹنے کی بات کہی تھی۔ حالانکہ کملا نہرو میں علاج کے دوران ان کی حالت میں ٹھیک نہیں لگی تو اہل خانہ ان کو لےکر بی ایم ایچ آر سی پہنچے۔ وہاں بھی ان کی حالت میں خاص سدھار نہیں ہوا اور ہفتے بھر پہلے انہیں نجی ہاسپٹل میں بھرتی کرایا گیا۔ جبار کے ہارٹ میں ڈاکٹروں نے تین بلاکیج بتائے تھے۔ اس کے ساتھ ہی شوگر اور بلڈ پریشر سے بھی وہ جوجھ رہے تھے. معاشی تنگی کی وجہ سے گھر والے ان کو شہر کے باہر علاج کے لیے نہیں لے جا سکے اور ایک لمبی جدوجہد کے بعد وہ زندگی کی جنگ ہار گئے۔
غور طلب ہے کہ سوشل میڈیا پر ان کے علاج کے لیے مالی مدد کی اپیل کے بعد سرکار حرکت میں آئی، لیکن جب تک سرکار کی مدد ان کو ملتی اس سے پہلے ہی ان کا انتقال ہو گیا۔جمعرات کو کئے ٹوئٹ میں وزیر اعلیٰ کمل ناتھ نے ان کو بہتر علاج کے لیے باہر بھیجنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
آج دوپہر جمعہ کی نماز کے بعد ان کے جنازے کی نماز بھوپال کے رحمانی مسجد میں ادا کی جائے گی اور گرم گاڑھا قبرستان میںان کو سپرد خاک کیا جائے گا۔