کورونا: دوسری لہر سے پہلے کئی صوبوں  نے بند کیے تھے اپنے اسپیشل کووڈ سینٹر

کورونا مہاماری کی دوسری لہر آنے سے پہلے ملک کے کئی صوبوں نے اپنے اسپیشل کووڈ سینٹر بند کر دیےتھے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ سرکاریں کورونا کی اگلی لہر کی صلاحیت کا اندازہ کرنے میں پوری طرح ناکام رہیں۔

کورونا مہاماری کی دوسری لہر آنے سے پہلے ملک کے کئی صوبوں  نے اپنے اسپیشل کووڈ سینٹر بند کر دیےتھے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ سرکاریں کورونا کی اگلی لہر کی صلاحیت  کا اندازہ  کرنے میں پوری طرح ناکام رہیں۔

دہلی کے کھیل گاؤں کا کووڈ کیئر سینٹر۔ (فوٹو:  پی ٹی آئی)

دہلی کے کھیل گاؤں کا کووڈ کیئر سینٹر۔ (فوٹو:  پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ہندوستان اس وقت کورونا مہاماری کی دوسری سب سے خطرناک لہر کا سامنا کر رہا ہے۔ اس بیچ مختلف صوبوں  میں آکسیجن، آئی سی یو، وینٹی لیٹر، بیڈس وغیرہ  کی شدید کمی دیکھنے کو مل رہی ہے اور ایسی سہولیات  نہ ملنےکی وجہ سے کئی کورونا مریضوں کی موت بھی ہو چکی ہے۔

حالانکہ دھیان دینے والی بات یہ ہے کہ کورونا مہاماری کی دوسری لہر آنے سے پہلے ملک  کے کئی صوبوں نے اپنے اسپیشل کووڈ سینٹر بند کر دیے تھے۔ ظاہر ہے کہ سرکاریں کورونا کی اگلی لہر کی صلاحیت  کا اندازہ کرنے میں پوری طرح ناکام رہی ہیں۔

دہلی

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق،پچھلے سال دہلی میں کورونا کے لیے چارقلیل مدتی اسپتال بنائے گئے تھے۔ لیکن اس سال فروری میں جب کورونا معاملوں کی تعدادہردن گھٹ کر 200 سے کم ہو گئی تو ریاستی سرکار نے اسے بند کر دیا تھا۔ اب اسے پھر سے شروع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس میں آئی ٹی بی پی کے زیر اہتمام چلنے والے چھترپور اسپتال،دھولا کنواں اورکھیل گاؤں  کووڈ سینٹرشامل ہیں۔ چھترپور سینٹر میں 10000 سے زیادہ  مریضوں کو ایڈمٹ کرنے کی صلاحیت ہے، جس میں سے تقریباً1000 بیڈس آکسیجن سپورٹ والے ہیں۔

معلوم ہو کہ دہلی میں اس وقت ہردن 25000 سے زیادہ معاملے آ رہے ہیں، جس کی وجہ سے سرکار کو چھترپور سینٹر کو پھر سے شروع کرنا پڑا ہے۔

یوپی

اسی طرح کورونا کی پہلی لہر میں اتر پردیش سرکار نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے 503 کووڈ اسپتال بنائے ہیں، جس میں تقریباً 1.5 لاکھ بیڈس ہیں۔لیکن فروری مہینے کے پہلے ہفتے میں کورونا مریضوں کا علاج کرنے والے اسپتالوں کی تعدادگھٹ کر 83 ہو گئی، جہاں صرف 17000 بیڈ ہی تھے۔ممکنہ طور پراسی کا نتیجہ ہے اس وقت صوبے کی حالت بدتر ہے۔

اس میں سے 25 اسپتالوں میں ساری سہولیات جیسے وینٹی لیٹر، آئی سی یو اور ڈائلسس کا انتظام تھا۔ وہیں تقریباً 75 اسپتالوں میں آکسیجن سپورٹ اور وینٹی لیٹر کی سہولت تھی۔ باقی کے تقریباً 400 اسپتالوں میں کم سے کم 48 گھنٹے آکسیجن سپلائی کا انتظام تھا۔

حالانکہ پہلی لہر کے بعد کیس کم ہونے کی وجہ سےصوبے نے ان میں سے اکثر کووڈ سینٹر کو بند کر دیا اور صرف 83 اسپتال ہی کام کر رہے تھے۔ اب کورونا معاملے بڑھنے کے بعد صوبے نے 31 مارچ کو پھر سے 45 اسپتالوں کو شروع کیا ہے۔

ملک میں اس وقت مہاراشٹر کے بعد سب سے زیادہ معاملے اتر پردیش سے آ رہے ہیں۔ گزشتہ اتوار کوصوبے میں38055 معاملے آئے اور 223 لوگوں کی موت ہو گئی۔

کرناٹک

رپورٹ کے مطابق کرناٹک، جہاں پہلی لہر میں دوسرے سب سے زیادہ معاملے آئے تھے، نے پہلی اور دوسری لہر کے بیچ بنگلورو میں وینٹی لیٹر کے ساتھ صرف 18 اضافی بیڈ تیار کیے۔بنگلورو کے سینٹرلائزڈ ہاسپٹل بیڈڈسٹری بیوشن سسٹم کےمطابق اس وقت کووڈ 19مریضوں کے لیے سرکاری اسپتالوں میں117 آئی سی یو وینٹی لیٹر بیڈ ہیں، جس میں سے میڈیکل کالج اسپتالوں میں47 اور 13دیگر سرکاری اسپتالوں میں70 بیڈس ہیں۔

مرکزکی مدد سے اس طرح کے بیڈکی تعدادکو بڑھاکر 300 کرنا تھا، لیکن جب نومبر اور جنوری کے بیچ معاملوں میں گراوٹ آئی تو اسے ٹال دیا گیا۔

اسی طرح ہندوستان  کے سب سے زیادہ کورونامتاثرہ شہروں میں سے ایک پونے میں جنوری میں ایک800 بیڈ کے اسپتال کو بند کیا گیا تھا۔ بعد میں مارچ میں اسے پھر سے شروع کرنا پڑا۔

جھارکھنڈ

رپورٹ کے مطابق،جھارکھنڈ کے رانچی میں سب سے بڑے سرکاری اسپتال ‘راجیندر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز’ میں ایک بھی ہائی ریزولوشن سی ٹی اسکین مشین نہیں ہے۔ ہائی کورٹ کی سرزنش  کے بعد سرکار نے اس کی خریداری کا عمل  شروع کیا ہے۔

جھارکھنڈ سرکارنے ضلع کے ایک اسپتال کو کورونا سینٹرقراردیا تھا۔ اس کے علاوہ بڑے شہروں جیسے رانچی، دھنباد، بوکارو اور جمشیدپورواقع 12 پرائیویٹ اسپتالوں کو بھی کووڈ 19 کے ضروری تمام سہولیات سے لیس کیا گیا تھا۔

اس کی وجہ سے پچھلی لہر میں کئی لوگوں کو بچایا جا سکا تھا۔ حالانکہ اس بار ریاستی سرکار نے پرائیویٹ اسپتالوں سے ایسا کوئی کام نہیں لیا ہے۔

بہار

بہار کی حالت اور بھی قابل رحم  ہے، جہاں کے 38 میں سے صرف 10 اضلاع میں پانچ سے زیادہ  وینٹی لیٹر ہیں۔صوبےمیں اسپتالوں، ڈاکٹروں، میڈیکل سہولیات کی شدید کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ بہار میں ابھی بھی ڈاکٹروں کے لیےتقریباً 5000عہدے خالی ہیں لیکن انہیں ابھی تک نہیں بھرا گیا ہے۔