ایک ٹی وی انٹرویو میں سابق امریکی صدر براک اوباما نے کہا کہ اگر وہ نریندر مودی سے بات چیت کرتے تو ملک میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا ذکر ہوتا۔ دوسری جانب امریکہ میں صدر جو بائیڈن کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں پی ایم مودی نے کہا کہ ہندوستان میں مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں ہے۔
سی این این کے ساتھ انٹرویو میں براک اوباما اور ہوئے امریکہ کے دورے پر صدر جو بائیڈن کے ساتھ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی۔ (تصویر بہ شکریہ: Twitter/@POTUS & @amanpour)
نئی دہلی: سابق امریکی صدر براک اوباما نے جمعرات کو
کہا کہ ہندوستانی جمہوریت کے بارے میں تشویش کا اظہار کرنا بھی سفارتی بات چیت میں شامل ہونا چاہیے۔
سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘اگر میں نریندر مودی سے بات کرتا تو میری بات چیت کا ایک حصہ یہ ہوتا کہ اگر آپ ہندوستان میں نسلی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کرتے ہیں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ کسی نقطہ پر ہندوستان کا شیرازہ بکھرناشروع ہو جائے گا۔ اور ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب آپ اس طرح کے بڑے اور اندرونی تنازعات میں شامل ہونے لگتے ہیں تو اس کا کیا نتیجہ ہوتا ہے… یہ نہ صرف مسلم ہندوستان، بلکہ ہندو ہندوستان کے بھی مفادات کے خلاف ہوگا۔ میرے خیال میں ان چیزوں کے بارے میں ایمانداری سے بات کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے یہ تبصرہ یہ اعتراف کرتے ہوئےکیا کہ انہوں نے ماحولیاتی تبدیلی اور دیگر شعبوں پر وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ کام کیا ہے اور جمہوریت کے مسائل پر بھی بات چیت کی ضرورت ہے۔
ایتھنز میں موجود سابق امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ آمروں یا جمہوریت مخالف رہنماؤں سے ملاقات امریکی صدارتی عہدے کے پیچیدہ پہلوؤں میں سے ایک ہے۔
انہوں نے سی این این کو بتایا،’دیکھیے، یہ تھوڑا پیچیدہ ہے۔ امریکی صدر کے پاس جواز ہوتا ہے۔ اور جب میں صدر تھا تو میں کچھ ایسی شخصیات سے ملتا جلتا تھا کہ جن کے بارے میں اگر آپ مجھ سے نجی طور پر پوچھیں کہ کیاوہ اپنی حکومتیں اور اپنی سیاسی پارٹیاں اس طریقے سے چلاتے ہیں جسے میں جمہوری مانتا ہوں، تو میرا جواب ہوگا کہ نہیں۔آپ کو ان کے ساتھ کاروبار کرنا ہوگا کیونکہ وہ قومی سلامتی کی وجوہات کی بناء پر اہم ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ معاشی مفادات کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔
اوباما نے مثال کے طور پرموسمیاتی تبدیلی پر چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ اپنے کام کاحوالہ دیتے ہوئے مشترکہ مفادات پر متفق ہونے، یہاں تک کہ انسانی حقوق کے خراب ریکارڈ والے رہنماؤں کے ساتھ دینے کا بھی ذکر کیا۔
انہوں نے کہا،مجھے لگتا ہے کہ امریکہ کے صدر کے لیے یہ مناسب ہے کہ وہ ان اصولوں کو برقرار رکھیں اور پریشان کن ٹرینڈ کو چیلنج کریں – خواہ بند دروازے کے پیچھے ہو یا عوامی طور پر۔ اور اس لیے میں کسی مخصوص روایت کے مقابلے میں لیبل دیے جانے کے بارے میں کم فکر مند ہوں۔
اوباما کا یہ تبصرہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات سے چند گھنٹے قبل سامنے آیا تھا۔
اوباما نے ایک سوال کے جواب میں یہ بھی
کہا تھا کہ بائیڈن اور مودی کی ملاقات میں ہندو اکثریتی ہندوستان میں مسلم اقلیتوں کی سلامتی کا ذکر ہونا چاہیے۔
قابل ذکر ہے کہ جنوری 2015 میں ہندوستان میں یوم جمہوریہ کی تقریبات میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرنے کے ایک دن بعد اوباما نے دہلی میں ایک تقریب میں ہندوستان کے ساتھ ساتھ امریکہ میں بھی مذہبی آزادی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا، ہمارے دونوں عظیم ملکوں میں ہندو اور مسلمان، عیسائی اور سکھ، یہودی اور بدھ اور جین اور بہت سارے مذہب ہیں۔ اور ہم گاندھی جی کی فلاسفی کو یاد کرتے ہیں، جنہوں نے کہا تھا کہ میرے لیے مختلف مذاہب ایک ہی باغ کے خوبصورت پھول ہیں یا ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں۔ ہماری مذہبی آزادی ہمیں تعمیر کرنے والے دستاویزوں میں درج ہے۔ یہ امریکہ کی پہلی ترمیم کا حصہ ہے۔ آپ کا آرٹیکل 25 کہتا ہے کہ تمام لوگ ‘ضمیر کی آزادی اور آزادی کے ساتھ مذہب کو ماننے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کے حق کے برابر کے حقدار ہیں۔’
مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے سوال پر مودی نے کہا- ہندوستان کی جمہوریت میں امتیازی سلوک کے لیے کوئی جگہ نہیں
وزیر اعظم نریندر مودی وہائٹ ہاؤس میں امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں۔ (تصویر بہ شکریہ: Twitter/@POTUS)
امریکہ کے دورے پر پہنچےہندوستانی وزیر اعظم نے جمعرات کو وہائٹ ہاؤس میں امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں حصہ لیا تھا۔ اس دوران انہوں نے دو سوالوں کے جواب دیے۔
پہلا سوال وال اسٹریٹ جرنل کے ایک رپورٹر کی طرف سے آیا، جنہوں نے پوچھا تھاکہ ہندوستان میں مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ کے لیےایک جمہوریت کے طور پر ہندوستانی حکومت کیا اقدامات کرنے جا رہی ہے۔
اس سوال کے جواب میں
وزیر اعظم نے کہا، ‘ہندوستان تو جمہوریت ہے ہی۔ جیسا کہ صدر بائیڈن نے کہا کہ ہندوستان اور امریکہ دونوں کے ڈی این اے میں جمہوریت ہے۔ جمہوریت ہماری رگوں میں ہے۔ ہم جمہوریت جیتے ہیں۔ ہمارے اسلاف نے اس کو لفظوں میں ڈھالا ہے۔ یہ ہمارا آئین ہے۔ ہماری حکومت جمہوری اقدار کو مدنظر رکھ کر بنائے گئے آئین پر چلتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ جمہوریت اچھے نتائج دے سکتی ہے۔ ہمارے یہاں ذات، پات،عمر، جنس وغیرہ کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی بالکل جگہ نہیں ہے۔ جب آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں، اگر انسانی اقدار نہ ہوں، انسانیت نہ ہو، انسانی حقوق نہ ہوں تو اس حکومت کوجمہوریت کہا ہی نہیں جا سکتا۔
وزیر اعظم نے کہا، ‘جب آپ جمہوریت کو قبول کرتے ہیں، اسے جیتے ہیں، تو امتیاز کی کوئی جگہ نہیں ہوتی ہندوستان سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس، سب کا پریاس کے بنیادی اصول پر چلتا ہے۔ ہندوستان میں عوام کو جو فوائد حاصل ہوتے ہیں وہ ان تمام لوگوں کے لیے ہیں جو ان کے حقدار ہیں۔ اسی لیے ہندوستان کی اقدار میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔ نہ مذہب کی بنیاد پر، نہ ذات، پات اورعمر یا علاقے کی بنیاد پر۔
غور طلب ہے کہ مودی کے دورے سے پہلے کئی حقوق گروپوں اور امریکی قانون سازوں نے امریکی صدر جو بائیڈن وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران ہندوستان میں انسانی حقوق کے مسائل اور جمہوری زوال کا مسئلہ اٹھانے کی اپیل کی تھی ۔
اس پر وہائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے
کہا کہ جب امریکہ پریس، مذہبی یا دیگر آزادیوں کے لیے چیلنجز کو دیکھتا ہے، تو ‘ہم اپنے خیالات سے آگاہ کراتے ہیں’، لیکن ‘ہم ایسا اس طرح سےکرتے ہیں جہاں ہمیں لیکچر دینےیا اس بات پر زور دینے کی کوشش نہیں کرتے کہ خود ہمارے سامنے چیلنجز نہیں ہیں۔
اس کے ساتھ ہی انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ نے امریکی صدر سے ہندوستان میں آزادی صحافت کا مسئلہ مودی کے ساتھ اٹھانے کی بھی
اپیل کی تھی۔