بنگلہ دیش کی پہلی خاتون وزیر اعظم خالدہ ضیا طویل علالت کے بعد 80 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ ضیا لیور سرروسس سمیت کئی بیماریوں میں مبتلا تھیں۔
بنگلہ دیش کی سابق خاتون وزیر اعظم خالدہ ضیا۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی سربراہ اور تین بار ملک کی وزیر اعظم رہ چکیں خالدہ ضیا طویل علالت کے بعد 80 برس کی عمر میں انتقال کر گئیں۔
بی این پی نے منگل کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس کی جانکاری دی۔ بیان میں کہا گیا،’بی این پی کی سربراہ اور سابق وزیر اعظم، قومی رہنما بیگم خالدہ ضیا آج صبح 6 بجے فجر کی نماز کے فوراً بعد انتقال کر گئیں۔’
ضیا لیور سروسس، آرتھرائٹس، شوگر، سینے اور دل کے امراض میں مبتلا تھیں۔
بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم اور اپنی سخت حریف شیخ حسینہ کے ساتھ مل کر انہوں نےایک پوری نسل تک ملک کی سیاست کو سمت عطاکی۔ بنگلہ دیش کی پہلی خاتون وزیر اعظم ضیا نے فوجی آمریت کے خلاف عوامی تحریک کو تیز کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، جسے بالآخر 1990 میں اقتدار سے بے دخل کیا گیاتھا۔ اس کے بعد ضیا 1991 میں پہلی بار وزیر اعظم بنیں اور 2001 سے دوبارہ اس عہدے پر فائز رہیں۔
تاہم ضیا 2006 سے اقتدار سے باہر تھیں اور کئی سال جیل میں یا نظر بندی میں گزار چکی تھیں، اس کے باوجود وہ اور ان کی پارٹی بی این پی وسیع پیمانے پر عوامی حمایت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔
غور طلب ہے کہ ضیا کے خلاف بدعنوانی کے متعددمعاملے درج کیے گئے تھے، جنہیں وہ سیاسی سازش بتاتی تھیں۔ تاہم، جنوری 2025 میں، سپریم کورٹ نے ان کے خلاف بدعنوانی کے آخری مقدمے میں انہیں بری کر دیا تھا، جس سے فروری کے انتخابات میں حصہ لینے کی
راہ ہموار ہو گئی تھی ۔
اس سال جنوری کے اوائل میں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے انہیں بیرون ملک سفر کی اجازت دے دی تھی، جس کے بعد ضیا مئی میں برطانیہ میں علاج کروانے کے بعد وطن واپس آئی تھیں۔
اس سے قبل شیخ حسینہ کی حکومت کم از کم 18 مرتبہ غیر ملکی سفر کے ان کے مطالبے کو مسترد کر چکی ہے۔
شوہر ضیاء الرحمن کے قتل کے بعد سیاست میں آئی تھیں
وہ 15 اگست 1945 کو دیناج پور میں پیدا ہوئیں۔ اگر حالات مختلف ہوتے تو شاید ان کی زندگی
ایک اعلیٰ طبقے کی گھریلو خاتون تک محدود ہوتی ۔ تاہم، 30 مئی 1981 کو بنگلہ دیش کے اس وقت کے صدر اور ان کے شوہر ضیاء الرحمان کو مسلح افواج کے اندر سرگرم ایک باغی گروپ نے قتل کر دیا۔ اس واقعہ نے خالدہ ضیا کو سیاست میں آنے کو مجبور کیا اور انہیں پارٹی کی قیادت سنبھالنی پڑی۔
انہوں نے فوجی آمر حسین محمد ارشاد کے خلاف تحریک کی قیادت کی۔ خالدہ ضیانے 1983 میں ارشاد کی آمرانہ حکومت کے خاتمے کے لیے سات جماعتی اتحاد بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، جہاں شیخ حسینہ کی قیادت میں عوامی لیگ نے 1986 کے متنازعہ اور غیر قانونی انتخابات میں حصہ لیا، وہیں خالدہ ضیا نے تحریک جاری رکھی اور انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔
بی این پی کے لیے آگے کا راستہ
پارٹی کے قائم مقام صدر اور خالدہ ضیا کے بیٹے 60 سالہ طارق رحمان تقریباً 17 سال کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد گزشتہ ہفتے وطن واپس آئے ہیں اور انہیں وزارت عظمیٰ کے لیے مضبوط امیدوار تصور کیا جا رہا ہے۔
فروری میں مجوزہ پارلیامانی انتخابات میں بی این پی کو جیت کا مضبوط دعویدار مانا جا رہا ہے۔