پروفیسر عبدالرحمٰن گیلانی کو سزائے موت بس اس بنا پر سنائی گئی تھی کہ انہوں نے کشمیر ی زبان میں ٹیلی فون پر بات کرکے اس حملہ پر مبینہ طور پر خوشیاں منائی تھیں۔ یہ تو ہائی کورٹ کا بھلا ہوا کہ وہ بری ہوگئے۔ اس کو اگر بنیاد بنایا جائے، تو گوسوامی کے لیے سزائے موت سے بھی بڑی سزا تجویز ہونی چاہیے۔
چوبیس دسمبر1999…نیپال کے دارالحکومت کاٹھمنڈو سے انڈین ائیر لائنز کی فلائٹ 814دہلی کی طرف محو پراو ز تھی کہ اس کو اغوا کرکے پہلے امرتسر، پھر لاہور، دبئی اور بعد میں قندھار لے جایا گیا۔ امرتسر سے روانگی کے بعد جب یہ جہاز رات کے 8بجے لاہور ایئر پورٹ پر اترا، تو دہلی میں کرائسس مینجمنٹ گروپ کی میٹنگ میں خفیہ محکمہ کے ایک اہلکار نے مشورہ دیا کہ اس جہاز کو پاکستانی سرزمین پر دھماکہ سے اڑادیا جائے۔
یہ میٹنگ ابھی جاری ہی تھی کہ خبر آئی کہ جہاز لاہور سے پرواز کر کے کسی نامعلوم منزل کی طرف رواں ہے۔ رات کے کسی پہر جہاز نے دبئی ایئر پورٹ پر لینڈ کیا۔ اگلی صبح کرائسس مینجمنٹ گروپ کی دوبارہ میٹنگ تھی اور اس بار وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی خود اس کی صدارت کر رہے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ مذکورہ افسر نے دوبارہ جہاز کو بارود سے اڑانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ؛
ہم دنیا میں یہ موقف اختیار کریں گے کہ پاکستان سے اس پر گو لہ بارود لادا گیا تھا اور اس طرح دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرنے کا نایاب موقع فراہم ہوگا۔
واجپائی نے اس موقع پر مداخلت کرکے اس افسر کو ڈانٹ پلائی اور خشم آلود لہجے میں کہا کہ سفارتی منفعت کے لیے وہ 180مسافروں کی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتے ہیں۔ یہ افسر بعد میں نالاں تھا کہ واجپائی نے اپنے سکریٹری این کے سنگھ کی ایماپر اس آپریشن کی اجازت نہیں دی، کیونکہ اس جہاز میں ہندوستان کی خارجہ خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ انالیسس ونگ یعنی راء کے ایک سینئر افسر ششی بھوشن سنگھ تومر سوار تھے جو این کے سنگھ کے بہنوئی ہیں۔
راء کے ایک افسر آر کے یاد و کا کہنا ہے کہ کاٹھمنڈو میں راء کے ایک افسر یو وی سنگھ نے تومر کو طیارہ کے اغواء کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ مگر اس اطلاع پر کان دھرنے اور اس کی معقولیت جانچنے کے بجائے وہ خود ہی اس جہاز پر سوار ہوگئے تھے۔ یہ شاید بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ طیارہ کو اڑانے کا مشورہ دینے والا افسر اس وقت وزیر اعظم نریندر مودی کی حکوت میں اعلیٰ عہدہ پر فائز ہے۔
اسی طرح انعام یافتہ برطانوی صحافیوں ایڈریان لیوی اور کیتھی اسکاٹ کلارک نے کتاب The Meadow میں بتایا ہے کہ جولائی 1995میں جنوبی کشمیر میں ایک غیر معروف عسکری تنظیم الفاران کے ذریعہ اغوا کیےگئے پانچ مغربی سیاحوں کو بچایا جا سکتا تھا۔
کیونکہ راء اور دیگر سکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکار اغوا کے پورے واقعے کے دوران نہ صرف سیاحوں ا ور اغواکاروں پر مسلسل نگاہ رکھے ہوئے تھے بلکہ ان کی تصویریں بھی لیتے رہے تھے۔دونوں برطانوی صحافیوں نے شواہد کی بنیاد پر لکھا ہے کہ سرکاری اداروں نے چاروں سیاحوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا تاکہ پاکستان کے خلاف ایک بڑی سرد جنگ جیتی جا سکے۔
اسی طرز پر پر 26 نومبر 2008کو ہندوستان کے اقتصادی مرکز ممبئی پر ہونے والا دہشت گرد حملہ بھی اس لحاظ سے منفردتھاکہ امریکی سی آئی اے اور ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں جیسے انٹلی جنس بیورو، راء سمیت تقریباً سبھی خفیہ اداروں حتیٰ کہ ممبئی پولیس اور پانچ ستارہ ہوٹل تاج کی انتظامیہ کو بھی اس کی پیشگی اطلاع تھی۔
ان دونوں مصنفین نے اپنی دوسری کتاب دی سیج (The Seige) میں انکشاف کیا ہے کہ اس حملے سے پہلے ایک سال کے دوران مختلف اوقات میں چھبیس اطلاعات ان اداروں کوموصول ہوئیں جن میں ان حملوں کی پیش گوئی کے علاوہ حملہ آوروں کے راستوں کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔ اتنی واضح خفیہ اطلاعات کے باوجود ہندوستانی سکیورٹی ایجنسیوں نے ان حملوں کو روکنے کی پیش بندی کیوں نہیں کی؟
یہ ایک بڑا سوال ہے جس سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔ خفیہ معلومات اس حد تک واضح تھیں کہ اگست2008 میں جب ممبئی پولیس کے ایک افسر وشواس ناگرے پا ٹل نے شہر کے فیشن ایبل علاقے کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس کا چارج سنبھالا تو ان کی نظر اس خفیہ فائل پر پڑی جس میں نہ صرف حملوں کا ذکر تھا بلکہ اس کے طریقہ کار پر بھی معلومات در ج تھیں۔
اس افسر نے فوراً تاج ہوٹل کی انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ وہ معقول حفاظتی انتظامات کا بندوبست کریں۔ستمبر 2008 ء میں اسلام آبادکے میریٹ ہوٹل میں دھماکہ اور اکتوبر میں دوبارہ اسی طرح کی خفیہ معلومات ملنے کے بعد پاٹل نے تاج ہوٹل کی سکیورٹی کے ساتھ گھنٹوں کی ریہرسل کی،کئی دروازے بند کروائے اور اس کے ٹاور کے پاس سکیورٹی پکٹ قائم کی۔ ان انتظامات کے بعد پاٹل چھٹی پر چلے گئے۔اس دوران حفاظتی بندشیں اورسکیورٹی پکٹ ہٹوادی گئی تاکہ حملہ آوروں کو ہوٹل تک پہنچنے میں کوئی تکلیف نہ ہو۔
پچھلی دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے ان سبھی واقعات کا مشاہدہ اور رپورٹنگ کرنے کے بعد جب یہ خبر آئی کہ ہندوستان کے ایک انتہائی قوم پرست ٹی وی چینل ری پبلک کے اینکر اور منیجنگ ڈائریکٹر ارنب گوسوامی کو فروری 2019میں کشمیر کے پلوامہ علاقے میں ہوئے خود کش حملے اور بعد میں پاکستان کے بالا کوٹ پر ہندوستانی فضائیہ کے حملوں کی پیشگی اطلاع تھی، تو مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔
دراصل ممبئی پولیس نے ٹی وی ریٹنگ یعنی ٹی آر پی میں ہیرا پھیری کے کے الزام میں گوسوامی اور براڈکاسٹ آڈینس ریسرچ کمپنی کے سربراہ پارتھو داس گپتا کے خلاف 3400صفحات پر مشتمل چارچ شیٹ کورٹ میں دائر کی، جس میں 1000صفحات پر مشتمل ان دونو ں کے درمیان ہوئی وہاٹس اپ پر ہوئی گفتگو کی تفصیلات ہیں۔
ان پیغامات سے گوسوامی کی وزیر اعظم مودی کے ساتھ اس قدر قربت ظاہر ہوتی ہےکہ بالا کوٹ پر ہوئے فضائی حملوں سے سرینگر کی15ویں کور کے سربراہ کو لاعمل رکھا گیا تھا، مگر گوسوامی کو 23فروری 2019یعنی تین دن قبل ہی بتایا گیا تھا۔ گوسوامی چیٹ پر داس گپتا کو بتا رہے ہیں کہ پاکستان کے خلاف کچھ بہت ہی بڑا ہونے والا ہے، جس سے بڑے آدمی(مودی)کو انتخابات میں بڑا فائدہ ہوگا۔ اسی دن رات کو 10بجے وہ بتار ہے ہیں کہ کشمیر پر مودی حکومت ایک بڑا قدم اٹھانے والی ہے۔
یعنی اگست 2019میں لیے گئے فیصلے فروری میں ہی گوسوامی کے گوش گزار کیے گئے تھے۔ 23فروری کو جب خود کش حملے میں 40سکیورٹی کے اہلکاروں کے مارے جانے کی اطلاع آئی تو اس کے چند منٹ بعد گوسوامی وہاٹس اپ پر شادیانے منا رہے ہیں اورگویا کہہ رہے ہیں کہ ایک بڑا معرکہ سر ہوگیا۔ یہ موڈ اس کے برعکس تھا جو شام کو ری پبلک ٹی وی کے اسٹوڈیومیں تھا، جہاں سوگوارای کا عالم تھا اور لمحہ بہ لمحہ جنگی جنون طاری کیا جا رہا تھا۔
مجھے یاد ہے کہ 2001 میں ہندوستانی پارلیامان پر حملہ کے بعد دہلی یونیورسٹی کے مرحوم پروفیسر عبدالرحمٰن گیلانی کو سزائے موت بس اس بنا پر سنائی گئی تھی کہ انہوں نے کشمیر ی زبان میں ٹیلی فون پر بات کرکے اس حملہ پر مبینہ طور پر خوشیاں منائی تھیں۔ ان کے برادر نے فون پر ان کو پوچھا تھا ”کہ دہلی میں آج کیا ہوگیا؟“ جس کا ترجمہ ہندی میں کیا گیا تھا کہ ”دہلی میں آج آپ نے کیا کردیا؟“ پروفیسر صاحب نے ہنستے ہوئے کشمیری میں جواب دیا ”چھایہ ضروری“ یعنی کہ”کیا یہ ضروری تھا؟“پولیس نے اس کو لکھا ”یہ چھہ ضروری“ یعنی ”یہ ضروری تھا“۔
یہ تو ہائی کورٹ کا بھلا ہوا کہ وہ بری ہوگئے۔ اس کو اگر بنیاد بنایا جائے، تو گوسوامی کے لیے سزائے موت سے بھی بڑی سزا تجویز ہونی چاہیے۔ اس گفتگو کے تین ماہ بعد مودی نے انتخابات میں اپوزیشن کا صفایا کرکے واضح برتری حاصل کی۔ اس سے عیاں ہوتا ہے کہ بالا کوٹ پر فضائی حملے کسی فوجی یا اسٹریٹجک نکتہ نگاہ سے نہیں بلکہ قومی تفریح اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔
چنگیز خان اور ہلاکو خان کو فوت ہوئے صدیاں بیت چکی ہیں۔ مگر مردہ اجسام پر خوشیاں منانا اور ان کو انتخابات میں بھنانا اور اس پر متزاد اپنے آپ کو قوم پرست بھی جتلانا مودی اور اس کے حواریوں کا ہی خاصہ ہے۔ ان کے اس طرح کے رویوں سے چنگیز اور ہلاکو کی روحیں بھی شرم سے پانی پانی ہوتی ہوں گی۔