
بہار کے مونگیر شہر میں بجرنگ دل نے شیو راتری کی تقریبات کے دوران ‘لو جہاد’ کی جھانکی نکالی، جس میں ہندو لڑکیوں کے خلاف مسلمانوں کے مبینہ مظالم کو دکھایا گیا تھا۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس پر سخت تنقید کی ہے اور اسے فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکانے کی کوشش قرار دیا ہے۔

مونگیر شہر میں26 فروری کو بجرنگ دل نے شیو راتری کی تقریبات کے دوران ’لو جہاد‘ کی جھانکی نکالی۔ (علامتی تصویر،فوٹو: فیس بک)
نئی دہلی: بہار کے مونگیر شہر میں بدھ (26 فروری) کو بجرنگ دل کی شیو راتری کی تقریبات کے دوران ‘لو جہاد’ کی جھانکی نے ریاست میں ایک سیاسی تنازعہ پیدا کر دیا ہے، جہاں اپوزیشن اسے فرقہ وارانہ جذبات کوبھڑکانے کی کوشش کے طور پر دیکھ رہی ہے۔
انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، مونگیر میں نکالی گئی 50 جھانکیوں میں سے ایک ‘لو جہاد’ پر تھی اور اس میں ‘لہولہان تصویریں’ اور ‘فرقہ وارانہ اشتعال انگیز’ پیغامات تھے۔ باقی جھانکیوں میں بھگوان شیو اور دیوی پاروتی کی تصویریں تھیں۔
ایک جھانکی میں ہندو لڑکیوں کے خلاف مسلمانوں کے مبینہ مظالم کی تصویر کشی کی گئی تھی اور اس میں کٹی ہوئی عورتوں کو دکھانے والی گڑیوں کے ساتھ ایک ریفریجریٹر بھی رکھاگیا تھا۔
اس جھانکی میں ہندو خواتین کے خلاف جرائم کے اخباری تراشے بھی دکھائے گئے تھے، جس سے تنازعہ اور بڑھ گیا۔ اس پر ‘اگر آپ اپنا مذہب نہیں چھوڑیں گے، تو آپ کوٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا’ جیسے نعرے درج تھے۔
قابل ذکر ہے کہ ‘لو جہاد’ کی اصطلاح اکثر ہندوتوا کے دائیں بازو کے کارکن یہ الزام لگانے کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ مسلمان مرد ہندو خواتین کو شادی کا لالچ دے کر اسلام قبول کروا رہے ہیں۔
مونگیر کے بجرنگ دل کے کنوینر سوربھ ایس سمپنا نے اخبار کو بتایا کہ اس کا مقصد ایک ‘سماجی پیغام’ دینا تھا۔
انہوں نے کہا، ‘ہم نے کسی مذہب کا نام نہیں لیا اور نہ ہی اسے نشانہ بنایا اور مختلف اخبارات میں شائع ہونے والی کچھ خبروں کا استعمال کیا۔ ہم لوگوں کی توجہ شادی کے نام پر ہندو خواتین کے ساتھ ہونے والے مظالم کی طرف مبذول کرانا چاہتے تھے۔’
اپوزیشن جماعتوں نے جھانکی کی کڑی تنقید کی
اپوزیشن پارٹیاں – راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس اس جھانکی کو ‘اشتعال انگیز’ قرار دے رہی ہیں۔ آر جے ڈی کے ترجمان مرتیونجے تیواری نے کہا، ‘ریاستی حکومت کو ایسے توہین آمیز پوسٹروں پر توجہ دینی چاہیے۔’
انہوں نے کہا ، ‘ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے… فساد بھڑکانے کی سازش کی جا رہی ہے… شیو راتری پر ‘لو جہاد’ کا تھیم کیوں دکھایا گیا؟ نتیش کمار کہتے ہیں کہ بہار میں ہندو مسلم تنازعہ نہیں ہوگا، لیکن کیا جے ڈی (یو) اس بجرنگ دل-بی جے پی کی جھانکی کی مخالفت کرے گی؟’
بہار کانگریس کے ترجمان گیان رنجن گپتا نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا، ‘ہندوستان کا آئین کسی بھی مذہب پر براہ راست یا بالواسطہ حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ بجرنگ دل کا پوسٹر غلط تھا۔’
وہیں، بی جے پی، جو ریاست میں حکمراں نتیش کمار اتحاد کا حصہ ہے، کا دعویٰ ہے کہ بجرنگ دل ‘آر ایس ایس کی الحاق شدہ شاخ کے طور پر بہار میں کام نہیں کرتی ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘اگر کچھ مقامی لوگ خود کو بجرنگ دل کا رکن بتا رہے ہیں، تو ہمیں اس کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ لیکن لو جہاد بہت تشویشناک ہے اور اس کا سماجی پیغام کچھ خوفناک تصویریں استعمال کرنے کے بجائے بہتر انداز میں دیا جا سکتا تھا۔’
جلوس کا دفاع کرتے ہوئے ایل جے پی (آر) کے لیڈر دھیریندر منا نے کہا کہ اس تقریب میں کئی جھانکیاں شامل تھیں اور دلیل دی کہ ان میں سے ایک کو الگ کرنا غیر منصفانہ ہے۔ انہوں نے کہا، ‘کئی جھانکیاں تھیں، لیکن صرف ایک پر سوال کرنا درست نہیں ہے… بہار میں امن و امان کی صورتحال اچھی ہے۔’
دوسری طرف، ہندوستانی عوامی مورچہ کے رہنما شیام سندر شرن نے بھی ریاستی حکومت کے موقف کا دفاع کیا اور زور دیا کہ اہلکار صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘بہار میں قانون چوکس ہے… حکومت ہر چیز پر نظر رکھے ہوئے ہے… ہم بہار کی ہم آہنگی کو خراب نہیں ہونے دیں گے… ہر کسی کو اپنے جذبات کا اظہار کرنے کا حق ہے، لیکن حکومت اس بات کو یقینی بنانے کے لیے چوکس ہے کہ ہم آہنگی خراب نہ ہو۔’