بابل سپریو نے راجیہ سبھا میں بتایا کہ ملک میں ایسا کوئی فیصلہ کن اعداد وشمار دستیاب نہیں ہے، جس سے صرف فضائی آلودگی کی وجہ سے موت یا بیماری کا سیدھا تعلق قائم ہو۔ فضائی آلودگی سانس اور اس سے متعلق امراض کو متاثر کرنے والے کئی عوامل میں سے ایک ہے۔
علامتی تصویر، فوٹو : پی ٹی آئی
نئی دہلی: مرکزی حکومت نے گزشتہ سوموار کو راجیہ سبھا میں بتایا کہ ایسا کوئی اعداد وشمار دستیاب نہیں ہے جس میں فضائی آلودگی کے موت کی وجہ ہونے کی بات قائم ہوتی ہو۔وزیر ماحولیات
بابل سپریو نے فضائی آلودگی سے لوگوں کی موت ہونےکی تصدیق سے جڑے ایک سوال کے جواب میں کہا، ‘ملک میں ایسا کوئی فیصلہ کن اعداد وشمار دستیاب نہیں ہے، جس سے صرف فضائی آلودگی کی وجہ سے موت یا بیماری کا سیدھا تعلق قائم ہو۔ فضائی آلودگی سانس سے متعلق امراض کومتاثر کرنے والے کئی عوامل میں سے ایک ہے۔’
بی جے پی کے نیرج شیکھر نے پوچھا تھا کہ کیا حال ہی میں جاری لینسینٹ کاؤنٹ ڈاؤن رپورٹ 2019 کے مطابق، ہندوستان میں 2016 میں فضائی آلودگی کی وجہ سے پانچ لاکھ سے زیادہ لوگوں کی موت ہوئی؟ اس کے جواب میں سپریو نے کہا کہ ایسا کوئی فیصلہ کن اعداد وشمار دستیاب نہیں ہے۔واضح ہو کہ سال در سال کئی ایسی رپورٹس آتی رہتی ہیں جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ فضائی آلودگی کی وجہ سے ہر سال کئی لوگوں کی موت ہو رہی ہے۔
اسٹیٹ آف گلوبل ایئر، 2019 رپورٹ کے مطابق،ہندوستان میں سال 2017 میں تقریباً12 لاکھ لوگوں کی موت فضائی آلودگی کی وجہ سے ہوئی ہے۔رپورٹ کے مطابق، لمبے وقت تک گھر سے باہر رہنے یا گھر میں فضائی آلودگی کی وجہ سے 2017 میں اسٹروک، شوگر، دل کا دورہ، پھیپھڑے کے کینسر یا پھیپھڑے کی پرانی بیماریوں سے پوری دنیا میں لگ بھگ 50 لاکھ لوگوں کی موت ہوئی۔
حال میں سپریم کورٹ نے دہلی-این سی آرمیں آلودگی پر قابو پانے میں ناکام رہنے کے لیے اتھارٹیز کوسخت پھٹکارلگائی اور کہا کہ اس کی وجہ سے لوگ زندگی کے قیمتی سال گنوا رہے ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)