یہ المیہ ہی ہے کہ مریادا پرشوتم کہے جانے والے رام کے نام پرآئین کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے اور ہندو اس میں جوش و خروش کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں اور فخر بھی محسوس کر رہے ہیں۔
ایودھیا میں زیر تعمیر رام مندر کا ایک حصہ۔ (تصویر بہ شکریہ: شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ)
بائیس جنوری 2024 کو ہندوؤں اور ہندوستان کےلیے تاریخی دن بنا دیا گیا ہے۔ بابری مسجد کے انہدام (6 دسمبر 1992) اور سپریم کورٹ کے ‘شعبدہ باز فیصلے’ (9 نومبر 2019) کے بعد، ایودھیا میں بن رہے رام مندر میں 22 جنوری 2024 کو ‘رام للا’ کی پران—پرتشٹھا ہونے جا رہی ہے۔ ہندوؤں کی نفسیات ایسی بنا دی گئی ہے کہ اسے یہ احساس تک نہیں ہے کہ اس تقریب اور اس سے متعلق ماحول پر ٹھہرکر سوچنے کی بھی ضرورت ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس پورے ماحول میں لفظ ‘رام بھکت’ خوب سنائی دے رہا ہے۔ یعنی ‘پران—پرتشٹھا’ کی اس تقریب میں بھکتی کا دعویٰ سب سے پہلے ہے۔اس سے متعلق وزیراعظم کی رسم ادائیگی بھی ہے۔ ان کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ گزشتہ 11 دنوں سے صرف ناریل کا پانی پی رہے ہیں۔ اس میں یہ دعویٰ بھی ہے کہ اس تقریب میں عقیدت اور بھکتی کا عنصر شامل ہے۔
یوں تو بھکتی کے عنصر پر فلسفیانہ، ادبی،تاریخی اورسماجی تجزیوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ دستیاب ہے، لیکن ان سب کو یہاں چھوڑتے ہوئے اگر ہم ہندی کے معروف نقاد رام چندر شکل کی بتائی گئی عقیدت اور بھکتی کی دو تعریفوں پر غور کریں، یعنی ‘بھکتی مذہب کا شیریں تجربہ ہے’۔ اور ‘شردھااور پریم کے امتزاج کا نام بھکتی ہے۔’تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس پوری تقریب میں کہیں بھی ‘مذہب کا شیریں تجربہ’ یا ‘شردھا اورپریم کے امتزاج’ کی حالت ہے؟
اگر اس تقریب میں مذہب کا شیریں تجربہ یعنی مستی اور لطف کا پہلو ہوتا تو کئی طرح کے جارحانہ ویڈیو اور گانے کیسے بنائے جاتے؟ نفرت انگیز ‘میم’ اور پیغامات لوگوں کے درمیان کیسے گردش کرتے رہتے؟ مثال کے طور پر مشہور گلوکار کیلاش کھیر کے گائے ہوئے گانے میں یہ سطریں آتی ہیں؛
ہوئی رامائن کل یگ میں ، یدھ کا پھر اعلان ہوا،
رتھیں چلی ہر کونے سے،گھر گھر سےکچھ کچھ دان ہوا
مذکورہ گانے کے اس ویڈیو میں ان سطروں کے متوازی 1990 میں ایل کے اڈوانی کی جانب سے منعقد کی گئی ‘رتھ یاترا’ کی تصویریں بھی دکھائی دے رہی ہیں۔ ‘یدھ کا پھر سے اعلان ہوا’ واضح کر دیتا ہے کہ جس طرح رام کی حقیقی کہانی میں رام نے راون سے جنگ کی تھی، اسی طرح ‘کل یگ’ یعنی 1990 میں مسلمانوں اور بابری مسجد کے خلاف ‘جنگ’ چھیڑی گئی۔ مذکورہ گانے میں مزید سطریں ہیں؛
مندر بنا ہے رام کا، بھگوے کا ابھیمان بڑھا ہے،
رام راجیہ کی پہلی سیڑھی آج ہندوستان چڑھا ہے
پوچھا جانا چاہیے کہ بھگوے جھنڈے سے رام کا کیا تعلق؟ ہاں، ‘بھگوے’ میں جس شخص کی طرف اشارہ ہے، اس کا ابھیمان ضرور سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ یہ ساری تدبیریں اسی کی انا کی تسکین اور اسی کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ دوسری سطر یہ بھی بتاتی ہے کہ ہندوستان کو آئین کے مطابق نہیں بلکہ رام راجیہ ہونا چاہیے۔ حقیقی رام راجیہ کی بھی حقیقت یہ تھی کہ یہ ایک ایسی ریاست تھی جس نے ذات پات کے نظام کی حمایت اور پرورش کی تھی۔ والمیکی کی لکھی ہوئی ‘رامائن’ اور تلسی داس کی لکھی ہوئی ‘رام چرت مانس’ اس کے ثبوت ہیں۔ یہ واضح ہے کہ ‘رام راجیہ’ کا تصور نہ صرف آئین مخالف ہے بلکہ انصاف اور مساوات کے بھی خلاف ہے۔
اگر آج کا ہندوستان ‘رام راجیہ’ کی پہلی سیڑھی چڑھتا ہے تو وہ انصاف اور مساوات کے تصور سے بہت دور ہوگا۔ اس تجزیے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شردھا اور بھکتی کا اس سارے عمل سے کبھی کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ اب ہے۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس تقریب کی وجہ سے ہندواپنی شردھا اور بھکتی سے محروم ہوگئےہیں۔ اس لیے تمام طرح کی تقریبات جو خاص طور پر ہندی ہارٹ لینڈ ہو ہو رہی ہیں، وہ بھکتی سے بہت دور طاقت اور اقتدار کی نمائش ہیں۔
اس تناظر میں دوسری بات یہ ہے کہ ویڈیو، میم، پیغامات وغیرہ کے ذریعے یہ پروپیگنڈہ بھی کیا جا رہا ہے کہ 22 جنوری 2024 کو تمام ہندوؤں کو کیا کیا کرنا ہے؟ ‘ہمیں 22 جنوری کو کیا کرنا ہے’ کے عنوان کے تحت کچھ کاموں کو ہدایاتی لہجے میں بیان کیا گیا ہے۔ ان میں سے پہلا ہے کہ ‘گھر کو سجانا’ ہے۔ اس کے بعد اگلی ہدایت ہے کہ ‘بھگوا لہرانا ہے’۔ اس مرحلے سے آگے بڑھتے ہوئے چھٹے مقام پر ہدایت ہے کہ ‘رام دیپ روشن کرنا ہے’۔ ‘رام دیپ’ کو یہاں ‘بھگوا’ کے بعد ہی جگہ ملی! تمام ہندوؤں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ بھگوا لہرائیں۔
اب یہ سوچا جا سکتا ہے کہ ہندو مذہب کے ویشنو فرقے سے ہی متعلق چار بڑے فرقے، یعنی رامانج آچاریہ کا سری فرقہ، نمباکارچاریہ کا ہنس فرقہ، مدھواآچاریہ کا برہما فرقہ اور وشنو سوامی کا رودر فرقہ (اسی فرقہ میں بعد میں ولبھآچاریہ آتے ہیں )سے متعلقہ ‘علامات’ اور عبادت کے طریقے مختلف ہیں، تو ایسی صورت میں یہ سب ایک جھنڈے کے نیچے کیسے آسکتے ہیں؟ اور اگر وہ ایک جھنڈے تلے آ بھی جائیں تو ان کی اپنی شناخت کا کیا ہوگا؟
یہاں یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اس ‘پران-پرتشٹھا’ کے انعقاد کا ایک اہم مقصد ‘بھگوا’ کو تمام ہندوؤں کی ‘علامت’ بنانے کا منصوبہ ہے۔ ان سب کے ساتھ ایک بات یہ بھی ہے کہ اب ہندوؤں کو ایک مخصوص تنظیم (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور اس سے منسلک تنظیمیں) یا سیاسی پارٹی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کے لوگ ہدایت دے رہے ہیں کہ وہ اپنے مذہب پر کیسے عمل کریں؟ اپنے بھگوان کی عبادت کیسے کریں؟ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہندو جس جوش و خروش کے ساتھ اس تقریب میں شرکت کر رہے ہیں، وہ دراصل اپنی مذہبیت اور روایت کے تنوع کو بہت تیز رفتاری سے ختم کرنے کے عمل میں حصہ لے رہے ہیں۔
مذہبی اور معجزہ پسند ہندو عوام کو یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ جیسے جیسے 22 جنوری 2024 کی تاریخ قریب آ رہی ہے، ویسے ویسے ایودھیا میں معجزے ہو رہے ہیں۔ ایک کے بعد ایک ویڈیو بنا کر پھیلایا جا رہا ہے۔ ایک ویڈیو بتا رہا ہے کہ ایودھیا میں اچانک ہی گِدھوں کا ایک جھنڈ نظر آ رہا ہے۔ اس سے یہ کہا جا رہا ہے کہ رام کتھا کا کردار جٹایو اور ان کی اولاد ایودھیا آ رہی ہے۔ دوسرے ویڈیو میں بتایا جا رہا ہے کہ رات کے وقت ایک مزدور نے رام کتھا میں مذکور ‘پشپک ومان’ کودیکھا۔ کچھ ویڈیو میں کہا جا رہا ہے کہ ایودھیا میں اچانک ہی بھالودیکھنے جانے لگے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ رام کتھا کے کردار جام ونت اور ان کی اولاد ایودھیا پہنچ رہی ہے۔ کچھ ویڈیو میں کہا جا رہا ہے کہ اچانک ہی ناگوں (سانپوں) کا ایک جھنڈ ایودھیا پہنچ گیا ہے۔
واضح ہے کہ آج کے دور میں ایسی باتیں بہترین سائنسی ٹکنالوجی اور مواصلات کے جدید ذرائع جیسے، انٹرنیٹ، کیمرہ، ‘یو ٹیوب’، ‘وہاٹس ایپ’، ‘فیس بک’، ‘انسٹاگرام’ وغیرہ کا استعمال کرتے ہوئے پھیلائی جا رہی ہیں۔ مذہبی لوگ بھروسہ بھی کر رہے ہیں۔ یہ سارا عمل ظاہر کرتا ہے کہ ہندو عوام کے پاس سائنسی اور تکنیکی ترقی کے ذرائع تو موجود ہیں، لیکن اس تقریب نے ان کے سائنسی شعور کو مٹانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس تقریب سے ہندو اپنی تعقل پسندی سے محروم ہو رہے ہیں۔ ان کا فہم و ادراک اورشعور ختم ہو رہا ہے۔
حکومت ہند نے 22 جنوری 2024 کو تمام مرکزی اداروں میں آدھے دن یعنی دوپہر 2:30 بجے تک ‘پران—پرتشٹھا’ کے موقع پر چھٹی کا اعلان کیا ہے۔ کئی ریاستوں میں پورے دن کی چھٹی کا اعلان کیا گیا ہے اور کئی میں آدھے دن کی چھٹی کا اعلان کیا گیا ہے۔ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ آئین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ہندوستان کا آئین ریاست کو کسی بھی مذہب کو فروغ دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن موجودہ ہندوستان میں یہی کیا جا رہا ہے۔
یہ المیہ ہی ہے کہ مریادا پرشوتم (اب تو ہندوؤں کے پاس یہ بصیرت ہی شایدباقی نہیں رہی کہ وہ اس اشلوک اور اس کے رام سے تعلق کا تنقیدی تجزیہ کرسکیں! بدلے ہوئے حالات اور سوچ کے مختلف نقطۂ نظر کی وجہ سے اب رام کو مریادا پرشوتم کہا بھی جاتا ہے تو اس مریادا کا تعلق ‘جوائنٹ فیملی’ اور ‘ورن کے نظام ‘ سے ہے نہ کہ وسیع تر انسانی مریاداسے!) کہے جانے والے رام کے نام پر آئین کے تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے اور ہندو اس میں جوش و خروش کے ساتھ شرکت کر رہے ہیں، اس کے گواہ بن رہے ہیں، اور فخر بھی محسوس کر رہے ہیں۔
اس ‘پران—پرتشٹھا’ کی وجہ سے ہندو سوال پوچھنے کا شعور، ہمت اور استقامت کھو رہے ہیں۔ کیا آج کے ہندو کبھی اس ‘پران—پرتشٹھا’ کے رام سے کبیر کی طرح پوچھ سکیں گے، ‘ہے رام! مجھے تار کر (دنیا کے سمندر سے نکال کر) کہاں لے جاؤ گے؟ بتاؤ تو، ‘بیکنٹھ’ (آج کے تناظر میں ایودھیا) کیسا ہے جو تم مجھے پرساد کے طور پر دوگے؟
رام موہی تاری کہاں لے جیہو؟
سوویکنٹھ کہوں دھوں کیسا، کری پساو موہی دیہو۔
(یوگیش پرتاپ شیکھرساؤتھ بہار سنٹرل یونیورسٹی میں ہندی پڑھاتے ہیں۔)