گزشتہ پانچ اگست کوایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لیے ہوئے بھومی پوجن اورشہر کی ترقی کے دعووں کے بیچ ایودھیاکے لوگ صرف ویسا نہیں سوچ رہے ہیں جیسا اکثرذرائع ابلاغ کی جانب سے بتایا جا رہا ہے۔
بھومی پوجن کے دن ایودھیا میں جمع لوگ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
بدھ کو ایودھیا میں وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی میں رام مندر کے لیے ہوئے بھومی پوجن کی خالص سیاسی تقریب کو ملک کی مستقبل کی تاریخ میں جیسےبھی یاد کیا جائے، ایودھیا میں موٹے طور پر دو باتوں کے لیےیاد کیا جائےگا۔پہلااس دن وہاں رام جنم بھومی پر مندر کی تعمیر کے ‘عظیم الشان’ بھومی پوجن اورسنگ بنیاد کی تقریب میں حکمرانوں اورمذہبی رہنماؤں کی ہمنوائی دیکھتے ہی بنتی تھی۔
بھگوان رام کی ایودھیا نے اس سے پہلےان دونوں کی ایسی ہمنوائی کبھی نہیں دیکھی۔ 22-23 دسمبر، 1949 کو بھی نہیں، جب متنازعہ ڈھانچے میں اچانک رام للا ‘پرکٹ’ہو گئے تھے۔تب یوپی کی گووند ولبھ پنت کی قیادت والی کانگریس سرکار بھلے ہی رام للا کو ‘پرکٹ’ کرنے والوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا رہی تھی،مرکز کی پنڈت جواہر لال نہرو سرکار کو ایسا کرنا گوارہ نہیں تھا۔
چھ دسمبر، 1992 کو بابری مسجد کے انہدام کے وقت بھی سارے الزامات کے باوجود مرکز کی پی وی نرسمہا راؤ سرکار اتر پردیش کی بی جے پی کی کلیان سرکار یا ہندوتوا کے اس وقت کے پیروکاروں کے ساتھ کھلم کھلا نہیں ہی‘ملی’ تھی۔لیکن اس بار پانچ اگست کو مرکزاور اتر پردیش دونوں کی بی جے پی سرکاروں نے ‘نئی تاریخ ’بنانے کی عجلت پسندی میں ہندو مذہبی رہنماؤں کے سامنے سر کو جھکانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔
اور دوسرا بھلے ہی اکثرتمام اپوزیشن پارٹیوں نے اس ہم نوائی کو دیکھ کربھی نہیں دیکھا، اپنے سیاسی مفادات کے مد نظر اس کے مقابلے میں اترنے کے بجائے واک اوور دے دیا۔میڈیا بھی1992 کے مقابلے زیادہ ان دیکھی اور ان سنی پر آمادہ تھی، ایودھیا کے عام لوگوں کو اپنا منھ بند رکھنا گوارہ نہیں ہوا۔
انہیں جہاں بھی موقع ملا، انہوں نے اس سے متعلق اپنے درد بیان کیے۔ البتہ، اقلیت ان میں شامل نہیں تھے۔
ان سطروں کے مصنف نے ایودھیا کے جڑواں شہر فیض آباد کے قلب کےچوک میں بساط خانے سے لےکر سبزی اور اسٹیشنری تک کی دکانوں میں کام پرلگےاقلیتوں سے جاننے کی کوشش کی کہ وہ اس ہم نوائی کو کیسے دیکھ رہے ہیں، لیکن ان میں سے کسی نے بھی منھ نہیں کھولا۔
راٹھ حویلی محلے میں کورونا سے اپنے رشتہ داروں کو کھو چکے اقلیتوں کی فیملی نے تو دروازے کے اس پار سے ہی ہاتھ جوڑ لیے۔ یہ کہہ کر کہ ‘مہربانی کرکے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیجیے۔’لیکن جہاں تک اس ہم نوائی سے شکایتوں کی بات ہے، وہ وشو ہندو پریشد کے ان کار سیوکوں کے رشتہ داروں کے پاس بھی کم نہیں تھیں، جنہیں1990میں اتر پردیش پولیس کی گولیوں کے سامنے کر دیا گیا تھا اور ان کے پاس بھی کم نہیں، جن کی قبضہ کی گئی زمین پر مندر کی تعمیر ہونے جا رہی ہے۔
کار سیوکوں کے رشتہ داروں نے لگ بھگ ایک جیسی آواز میں کہا، ‘تب بی جے پی اور وشو ہندو پریشد نے کار سیوکوں کی قربانی کے ویڈیو دکھاکر خوب ووٹ مانگے، لیکن جلدی ہی رام مندر کی تعمیر کے معاملے کو ٹھنڈے بستے میں ڈال کر ان کے ہم جیسےرشتہ داروں کو بھلا دیا گیا۔ ایسے میں مندر بننے کی خوشی ہمارے درد کا متبادل نہیں بن سکتی۔ مرکز اورریاستی سرکاروں یا رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ کو کچھ تو ہماری بدحالی کی خبر لینی چاہیے۔’
ایک پبلک اسکول کے پاس واقع فیض آباد کی طرف کے ایودھیا کے داخلہ دروازے پر کار سیوکوں کے ان رشتہ داروں کے دکھ کی چرچہ چھڑی تو بھگوا جھنڈا لہراتے ایک نوجوان،جس نے اپنا نام ونئے کمار بتایا، کہا، ‘اب ان کو اطمینان رکھنا چاہیے۔ عظیم الشان رام مندر بننے پر ایودھیا کی جو ترقی ہوگی، اس میں انہیں بھی ان کا حصہ ملےگا ہی۔’
لیکن پاس میں ہی چائے پی رہے ادھیڑ عمر کے رام سریش شاستری نے اسے یہ کہہ کر چپ سا کرا دیا کہ ‘بیٹا، مندروں کی تعمیر سے ترقی ہوا کرتی تو ایودھیا کب کی ترقی کر چکی ہوتی۔ کیونکہ اس میں پہلے سے مندروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اسے تو مندروں کی نگری کہا ہی جاتا ہے۔ پھر بھی اس میں فی کس سالانہ آمدنی اتر پردیش کی 2018-19 کی فی کس سالانہ اوسط 66512 سے کم ہی ہے۔’
اس پر ونئے نے کہا کہ ابھی اسے تھوڑی جلدی ہے، وہ اس پر بعد میں بات کرےگا۔ لیکن رام سریش نے اسے چھوڑا نہیں، کہا، ‘بات کیا کروگے بیٹا،سمجھ لو اس بات کوکہ نفرت کی سیاست کسی کو کچھ نہیں دیتی۔ نہ اپنے مخالفین کو نہ حامیوں کو۔ تمہیں بھی کچھ نہیں ہی دےگی۔’
رام مندر بھومی پوجن میں وزیر اعظم نریندر مودی اور سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
وہیں پتہ چلا، ایودھیا میں وششٹھ کنڈ کے ونود کمار موریہ نے بھومی پوجن کرنے آ رہے وزیر اعظم کو کچھ دنوں پہلے چٹھی لکھی تھی کہ جس مقبوضہ زمین پر مندر کی تعمیرہونی ہے، بازار کی شرح پر اس کے معاوضے کی ان کی مانگ کا معاملہ ابھی تک لٹکا ہوا ہے۔لیکن اس کا انہیں کوئی جواب نہیں ملا، جس سے وہ ناراض ہیں۔ اس بات سے بھی کہ سرکاریں تو سرکاریں میڈیا کو بھی ان کی اس پریشانی میں دلچسپی نہیں ہے۔
موریہ نے بتایا،‘ زمین کے معاوضے کی ہماری لڑائی ایک نسل پرانی ہو چلی ہے۔ باپوں کے بعد اسے بیٹے لڑ رہے ہیں۔ اسے نپٹایا نہیں گیا تو ایک دن یہ بھی نیا ناسور بن جائے گا۔ لیکن اس جانب کسی کی توجہ نہیں ہے لیکن رام مندر کی تعمیرکی ایسی عجلت ہے کہ ابھی کہتے ہیں، اس کا نقشہ تک پاس نہیں ہوا اور وزیر اعظم اس کا بھومی پوجن کر گئے۔’
فیض آباد کے چوک میں رکشے پربھگوا جھنڈا لگائے کھڑا ایک بزرگ یہ پوچھتے ہی بھڑک اٹھا کہ ‘کیوں بھائی، آج تو گھر پر دیوالی منےگی؟ رام کے نام سے جگمگا گیا ہے ملک اور یوگی جی نے بھی کہا ہے دیوالی منانے کے لیے۔’
وہ بولا،‘یہاں پریشانی کے مارے دم نکلا جا رہا ہے اور آپ دیوالی منانے کی بات کر رہے ہیں۔’ان سے پوچھا کہ پھر وہ بھگوا جھنڈا لگائے کیوں گھوم رہا ہے، تو پہلے تو کچھ بولنے کو نہیں تیار ہوئے، پھر جیسے تیسے کہا، ‘آپ سمجھتے کیوں نہیں کہ یہ رکشہ کرایہ کا ہے اور جس نے کرایہ پر دیا ہے، اس نے جھنڈا لگانے کی شرط لگاکر دیا ہے۔ میں جن کی کوٹھری میں رہتا ہوں، وہ بھگوادھاری ہیں۔’
اس کے بعد ان سے پوچھنے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں۔ لیکن نام پوچھا تو انہوں نے نہیں بتایا۔
ایودھیا کے سابق ایم ایل اے جئےشنکر پانڈے اپنے بیٹے کےکوروناسے متاثر ہو جانے کی وجہ سے اپنے گھر میں ہی کورنٹائن ملے۔ جب تک ان سے کچھ پوچھتا، وہ خود ہی پوچھنے لگے،‘آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟ کہیں نہ کہیں تو اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ یہ کیا کہ کورونا کے ڈر کے مارے ملک کی پارلیامنٹ ٹھپ رکھی جائے اور رام مندرکے بھومی پوجن لیے اس کے انفیکشن کے سارے خطرے اٹھائے جائیں۔ کیا آپ کو یہ عجلت کورونامتاثرین کے زخم پر نمک جیسی نہیں لگتی؟’
پھر خود ہی بولے،‘جموں وکشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹانے کی سالگرہ پر ایودھیا میں بھومی پوجن ہو رہا ہے تو اسے بھی کشمیر کی طرح سیل کر دیا گیا ہے۔ بیت جانے دیتے کورونا کے بحرانی دورکوتو یہ کام بھگوان رام کے رتبہ کے موافق اور ایودھیاوالوں کی شرکت کے ساتھ بھی ہو سکتا تھا۔ لیکن یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں سمجھایا نہیں جا سکتا۔’
دوسری طرف، سینئرصحافی شیتلا سنگھ کی مانیں تو 1990-92 کے دور کی طرح ہی اس بھومی پوجن کے ساتھ متعدد لوگوں کے اپنے خول سے باہر آنے کے نئے دورکی شروعات ہو گئی ہے۔
وہ کہتے ہیں،‘لوگ ہیں کہ بے انتہا درد سے گزر رہے ہیں اور انہیں دیوالی منانے کو کہا جا رہا ہے۔دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ملک بھر میں خوشی کی لہر کی طرح دوڑ گئی ہے، جبکہ عام لوگوں کی آہیں اور کراہیں کہیں ٹھور ہی نہیں پا رہےہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ آگے یہ دور کہاں جاکر رکتا ہے۔’
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)